کیسا عجیب جملہ کہا استاذ الاساتذہ خواجہ محمد زکریا صاحب نے۔ بعض شاعر اپنے مرنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔
فرید ٹاؤن ساہیوال کے ایک چھوٹے سے کوارٹر میں خاموشی سے سفر کر جانے والے مجید امجد کے انتقال کو رواں ماہ 50 سال ہو گئے۔ نصف صدی‘ بہت بڑی مدت ہوتی ہے۔ اگر 50 سال کے بعد بھی مجید امجد کی یاد میں اجلاس ہو رہے ہیں‘ ان کی شخصیت اور فن پر گفتگو ہو رہی ہے‘ ان کی شاعری نصابوں میں پڑھی پڑھائی جا رہی ہے‘ اس کی رمزیں اور پرتیں کھولی جا رہی ہیں‘ انہیں دیکھنے والوں اور سننے والوں کو دیکھنے اور سننے کیلئے لوگ سفر کرکے جارہے ہیں‘ یہ کہا جارہا ہے کہ اپنی زندگی میں بے توجہی کا شکار رہنے والا شاعر اردو کے بڑے نظم نگاروں میں سے ہے تو پھر یہ جملہ تو غلط ہوا کہ انہیں مرے ہوئے 50 سال ہو گئے۔ اصل تو یہ بات ہے کہ انہیں زندہ ہوئے 50 سال ہو گئے۔مئی 1974ء میں مجید امجد اسی خاموشی کیساتھ رخصت ہوئے جیسے انہوں نے زندگی گزاری تھی۔ اسوقت تک ان کا فقط ایک مجموعہ ''شبِ رفتہ‘‘ شائع ہوا تھا۔ اس وقت کا منٹگمری ایک چھوٹا سا شہر تھا لیکن اس چھوٹے شہر میں بڑے لوگ رہا کرتے تھے۔ مجھے مجید امجد کے دیکھنے اور سننے کا تو موقع نہیں ملا لیکن ان کے دیکھنے والوں کو میں نے دیکھا اور سنا ہے۔ ان سب کی الگ الگ شان تھی۔ منیر نیازی‘ حاجی بشیر احمد بشیر‘ ناصر شہزاد‘ جعفر شیرازی‘ ریاض حسین زیدی‘ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا‘ سعادت سعید تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کیساتھ کافی وقت گزارا۔ لیکن چند ملاقاتوں والے شاعر ادیب بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ان میں سے کسی سے پوچھ لیجیے‘ ہر ایک مجید امجد کا معترف اور مداح نظر آئے گا۔ تو کیا خاص بات تھی اس دبلے پتلے لانبے‘ منحنی‘ کم گو‘ کم آمیز شخص میں؟ کچھ تو ہوگا۔
اور یہ 'کچھ‘ بہت بڑا کچھ ہے۔ اس کچھ کو سمجھنے سے پہلے ذرا یہ سمجھ لیجیے کہ یہ نظم گو کس دور میں اور کتنے اہم نظم نگاروں کی صف میں موجود تھا‘ اور کس طرح موجود تھا۔ فیض‘ ن م راشد‘ میرا جی‘ اختر الایمان‘ ندیم جدید نظم کے چند اہم نام ہیں۔ ان میں تمام نام وہ ہیں جو بڑے شہروں میں رہتے تھے۔ اکثر نام وہ ہیں جو ایلیٹ کلاس کے دانشور طقبے سے جڑے ہوئے تھے۔ تمام نام دائیں یا بائیں بازو کی کسی بڑی تحریک سے وابستہ تھے۔ اکثر کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا حصہ تھے۔ معاشرے‘ سماج اور اس کو بدلنے سے متعلق کسی نہ کسی دیسی بدیسی نظریاتی نظام کا حصہ تھے۔ ایک بڑی لابی رکھتے تھے۔ اخبارات‘ رسائل و جرائد کے یا تو خود مدیر تھے‘ یا اس طبقے تک مؤثر رسائی رکھتے تھے۔ ایسے میں ایک سائیکل سوار شاعر‘ جو ایک چھوٹے سے شہر میں چھوٹی سی ملازمت کرتا ہے‘ گمنام یا کم نام رسالوں میں چھپتا ہے۔ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں‘ کسی بڑی فکری تنظیم اور تحریک سے کوئی تعلق نہیں‘ گھریلو آسودگی میسر نہیں‘ مالی آسودگی بھی آزوقۂ حیات تک محدود ہے۔ اس طرح کی رومانوی اور سطحی شاعری نہیں کرتا جو مقبول ہونے کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ خود تشہیری حربوں سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا۔ تو اگر اس کے رخصت ہو جانے کے 50 سال بعد بھی یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی انفرادیت‘ اسلوب‘ تنوع اور بے پناہ تاثیر میں ان سب نظم نگاروں سے بڑا شاعر ہے تو یہ کوئی معمولی بات ہے؟
میں نے مجید امجد کو ابتدائی عمر میں پڑھا۔ پھر جب خود شعر کہنا شروع کیا‘ تب پڑھا اور اب جبکہ اس میدان میں ایک عمر گزر چکی ہے‘ پھر پڑھتا ہوں۔ بڑے شاعروں کو اسی طرح پڑھنا چاہیے۔ بڑے شاعر کا مقام یہی ہے کہ وہ ہر دور میں اپنی مختلف جہات ہویدا کرتا ہے۔ آپ سب شاعروں کو پڑھ کر اس کی طرف لوٹتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ شاعر کتنا بڑا اور کتنا مختلف ہے۔ میں اردو زبان کے ان چند شاعروں کا نام لوں جو آپ کو مار ڈالنے کی حد تک ڈپریشن میں لے جاتے ہیں تو ان میں سرفہرست نام مجید امجد کا ہوگا۔ ان کی روح سے وہ پژمردگی‘ افسردگی‘ بے پناہ اکیلا پن اور احساسِ رائیگانی پھوٹتے ہیں جو ان کے خمیر میں ہیں اور ان کے الفاظ میں خون کی طرح گردش کرتے ہیں۔ آپ اس کیفیت سے بچ ہی نہیں سکتے۔ ان کی شاعری ایسی جھیل ہے جو لمحہ لمحہ آپ کو اپنی تہہ کی طرف کھینچتی ہے۔ آپ اس میں اترتے جاتے ہیں اور وہ غلاف کی طرح آپ کو ڈھانپ لیتی ہے۔ آپ کا رابطہ بیرونی روشنی اور دنیا سے منقطع ہو جاتا ہے لیکن آپ اس جھیل سے نکلنا نہیں چاہتے۔ مجید امجد کے موضوعات ذات سے کائنات تک‘ ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں‘ لیکن ہر موضوع میں ان کا مزاج اور اسلوب بولتا ہے۔ وہ جب کہتے ہیں کہ
قبر کے اندھے گڑھے کے اس طرف
اس طرف باہر‘ اندھیرا کم نہیں
تو اپنی تلخ زندگی کی تصویر سی کھینچ دیتے ہیں۔ زندگی کی خوبصورتیاں انہیں نظر آتی ہیں‘ وہ انہیں سراہتے ہیں لیکن ان اشیا میں پنہاں اداسی جو دراصل ان کی نگاہ اور دل میں نہاں ہے‘ اس خوبصورتی کو بھی دل گرفتگی سے بیان کرتے ہیں۔ عربی فارسی سے آگہی کے باوجود وہ ہندی اور خالص اردو لفظیات پسند کرتے ہیں اور انہیں لفظوں میں چھپی موسیقی کا کمال ادراک ہے۔ پنواڑی نظم میں ان کے چند مصرعوں کی سحر انگیز موسیقی دیکھیے
صبح بھجن کی تان منوہر جھنن جھنن لہرائے ؍ ایک چتا کی راکھ ہوا کے جھونکوں پر اُڑ جائے ؍ شام کو اس کا کمسن بالا بیٹھا پان لگائے؍ جھن جھن ٹھن ٹھن چونے والی کٹوری بجتی جائے ؍ ایک پتنگا دیپک پر جل جائے دوسرا آئے
میں ان کی نظم بہار کے سحرسے کبھی نکل نہیں پایا۔
ہر بار اسی طرح سے فطرت؍ سونے کی ڈلی سے ڈھالتی ہے ؍ سرسوں کی کلی کی زرد مورت؍ تھاما ہے جسے خم ہوا نے ؍ ہر بار اسی طرح سے شاخیں ؍ کھلتی ہوئی کونپلیں اٹھائے ؍ رستے کے سلاخچوں سے لگ کر ؍ کیا سوچتی ہیں یہ کون جانے ؍ ہر بار اسی طرح سے بوندیں ؍ رنگوں بھری بدلیون سے چھن کر ؍ آتی ہیں مسافتوں پہ پھیلے ؍ تانبے کے ورق کو ٹھنٹھنانے
آپ پڑھتے ہیں اور سلاخچوں‘ ٹھنٹھنانے‘ جیسے موزوں ترین لفظوں اور نظم کی بے پناہ اداسی سے مبہوت ہوکر رہ جاتے ہیں۔
جرمن سیاح لڑکی شالاط‘ جو ہڑپہ کے آثار دیکھنے آئی‘ منٹگمری کچھ دن رکی۔ مجید امجد سے ملاقات ہوئی اور ان سے متاثر ہوئی‘ انہیں کچھ لافانی نظمیں اور غزلیں دے گئی۔ شالاط کس بات سے متاثر ہوئی اور شالاط سے مجید امجد کی وابستگی کا تعلق یکطرفہ تھا یا دو طرفہ‘یہ عقدہ کھلنے والا نہیں۔یورپی اور مغربی معاشروں میں ایک جوان لڑکی جو اپنے اظہار میں آزاد بھی ہو اور تنہا سفر کرنے کی ہمت بھی رکھتی ہو‘کوئی نرالی بات نہیں‘لیکن برصغیر کے معاشروں میں ہے۔ اور پھر وہ زمانہ بھی آج سے 55 برس پہلے کا ہے۔کیا عجب شالاط کی زندگی میں اس ملاقات نے وابستگی یا محبت کے جذبات پیدا نہ کیے ہوں بلکہ یہ سب اسی طرزِ زندگی کا ایک حصہ ہو جس کی وہ خوگر تھی۔ لیکن مجید امجد کی تنہا زندگی میں یہ ایک غیرمتوقع اور منفرد موڑ تھا۔ وہ اسے ایران جانے کیلئے چھوڑنے کوئٹہ بھی گئے۔ کچھ بھی ہو‘ ہمیں شالاط کا احسان مند ہونا چاہیے کہ مجید امجد نے اس کیلئے یہ شاعری کی جو اُن کے سرمائے میں ایک منفرد ذائقہ رکھتی ہے۔ اس سفر میں مجید امجد نے کافی مشہور غزلیں لکھیں:
ٹھہری ٹھہری گہری جھیل کا شیتل شیتل جل ؍ پتلی پیچاں بیلڑیوں کے جھرمٹ کے اوجھل ؍ تیرا سہانا دیس برستی برف کھنکتے ساز؍ ایک کنارے امرت پیتے‘جیتے جگوں کی اوٹ؍ میری آخری سانس کی دھیمی بے آواز آواز
اور یہی تاثر ان کی نظم میونخ کا ہے۔جس میں تمام تر ماحول جرمن شہر میونخ میں کرسمس کا ہے جہاں شالاط رہتی تھی۔ اور جہاں آج ''برف گرتی ہے ساز بجتے ہیں ‘‘۔اگر کوئی شاعر مرنے کے بعد پیدا ہوسکتا ہے۔ وفات کے بعد زیادہ مشہور زندگی گزار سکتا ہے تو وہ مجید امجد ہے۔