بات غالباً 1996ء کی ہے۔لاہور اسلام آباد موٹر وے پر کام اور مباحثے زور و شور سے جاری تھے۔ وزیراعظم نواز شریف کا دور تھا اور وہ اسے جلد از جلد مکمل کرنے کیلئے بیتاب تھے۔ نواز شریف اور حامی موٹروے کو پاکستان کیلئے انقلابی قدم سمجھتے تھے اور مخالف سیاستدان ایشیا کی اس مہنگی ترین موٹروے کو سراسر وسائل کا ضیاع قرار دیتے تھے۔ نواز شریف اس سڑک کو فخریہ اپنی حکومت کا کارنامہ قرار دیتے تھے۔جیسا کہ ایسے منصوبوں میں ہوا کرتا ہے‘ زور و شور سے الزام لگایا جاتا تھا کہ وزیراعظم اور ان کے ساتھیوں نے اربوں کا مال کمایا ہے۔خیر باتوں اور الزامات کا کیا ہے۔ لوگوں نے صرف زبان ہی کھولنی ہوتی ہے۔ ثبوت تو کوئی دینا ہوتا نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اہلِ پاکستان کو ایسی اعلیٰ معیار کی سڑک پہلی بار میسر آئی تھی۔ وہ سوال اپنی جگہ کہ 60 ارب روپے‘ جو آج کے حساب سے لگ بھگ سوا دو ارب ڈالرز بنتے ہیں‘ اس پر خرچ کرنا بہت مہنگا سودا تھا یا اب 27 سال بعد اس سے حاصل ہونے والے فوائد زیادہ ہیں؟ اب یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ اس سڑک نے 27 سال بعد اپنی لاگت پوری کر لی یا کتنا حصہ پورا کر لیا؟ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ پاکستان موٹرویز کے دور میں داخل ہوا تو ملک کے اندرونی علاقے کھلنے لگے‘ وہ بھی جن کا صرف نام سنا تھا اور وہ بھی جن کا کبھی نام تک نہیں سنا تھا۔ ان سب تک رسائی چند گھنٹوں کی بات رہ گئی۔ سرگودھا سے لاہور کا فاصلہ ناقابلِ یقین حد تک کم ہو گیا۔ 375 کلو میٹر لمبی یہ سڑک اب تک لاہور سے اسلام آباد جانے کا بہترین اور آسان ترین راستہ ہے۔ اس کے مقابلے میں گرینڈ ٹرنک روڈ یعنی جی ٹی روڈ کا فاصلہ 300 کلو میٹر ہے یعنی 75 کلو میٹر کم۔ اصولاً یہ راستہ کم فاصلے کا ہے تو یہی اختیار ہونا چاہیے تھا لیکن عملاً لوگ موٹر وے ہی کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس کی وجوہات جو بھی ہوں‘ یہ بات بذاتِ خود موٹر وے کی فوقیت کی دلیل ہے۔
لیکن اب جب ایک اور سمت میں لاہور اسلام آباد کے سفر کیلئے ایک اور راستہ میسر آنے والا ہے تو میں بے چینی سے اس کی تکمیل کا منتظر ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ راستہ‘ جو بنیادی طور پر تین موٹرویز یعنی ایم 11‘ ایم 12 اور ایم 13 سے مل کر بنے گا‘ اسلام آباد یا لاہور سے سفر کرنے والوں کیلئے پہلا انتخاب بن جائے گا۔ اسی طرح لاہور کے جنوب سے اسلام آباد جانے والوں کی بھی پہلی ترجیح ہوگا۔ یہ تینوں موٹر ویز ان شہروں‘ دیہات اور زمینوں کو بھی سفر کیلئے کھول دیں گی جو اب تک مسافروں کے منتظر ہیں۔ اگر کام میں رکاوٹیں نہ ڈالی گئیں‘ جیسا کہ سیاسی بنیادوں پر ڈالی جاتی ہیں اور جس کی ایک مثال لاہور سیالکوٹ موٹر وے بھی ہے‘ جو سیاسی دشمنی کی نذر ہوئی اور بہت دیر سے مکمل ہو سکی‘ تو بظاہر تین چار سال کی بات ہے جب یہ راستہ کھل جائے گا۔
جیسا کہ میں نے بتایا کہ یہ تین موٹر ویز سے مل کر بننے والا راستہ ہے۔ ان میں سے ایم11‘ جو لاہور سیالکوٹ موٹروے کے نام سے معروف ہے‘ 2020ء میں کھل چکی ہے۔ یہ دراصل لاہور سمبڑیال موٹر وے ہے جس سے سیالکوٹ شہر کا راستہ بہت قریب ہو جاتا ہے۔ یعنی قریب قریب ایک گھنٹہ۔ ورنہ پہلے 145 کلومیٹر کا سفر جی ٹی روڈ سے دو گھنٹے میں طے ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح نارووال اور ڈسکہ کا سفر بھی آسان ہو جاتا ہے۔ ایم 11 دراصل 103 کلو میٹر لمبی سڑک ہے جو ایک طرف تو کالاشاہ کاکو سے شروع ہوتی ہے اور قومی شاہراہ این فائیو کو بھی اسی مقام پر ملتی ہے اور ایم ٹو موٹر وے سے بھی پیوست ہوتی ہے۔ یہ لاہور رِنگ روڈ سے بھی منسلک ہے۔ یہ پنجاب کے مشرقی علاقوں سے شمالاً جنوباً گزرتی اور اکثر جگہ جی ٹی روڈ کے متوازی سڑک ہے۔ اسی لیے اب جو گوجرانوالہ سے اس سڑک کو جوڑا جا رہا ہے اس سے لاہور گوجرانوالہ کا فاصلہ بھی کم ہو گا اور گوجرانوالہ بھی موٹر ویز سے منسلک ہو جائے گا۔
سمبڑیا ل پر یہ ایم 11 موٹر وے ختم ہو جاتی ہے اور یہاں سے نئی موٹر وے یعنی ایم 12 کا آغاز ہوتا ہے جو سمبڑیال کھاریاں موٹروے ہے۔ یہ موٹر وے 69 کلو میٹر طویل ہوگی۔ اس پر 2022ء سے کام جاری ہے۔ یہ ابھی تو چار لین والی دو رویہ سڑک ہو گی لیکن ضرورت پڑنے پر اسے چھ لین میں تبدیل کیا جا سکے گا۔ اس پر دریائے چناب کا ایک نیا پل بھی بنے گا اور پانچ انٹر چینجز بھی۔ اس کا زیادہ حصہ گجرات میں ہو گا۔ کچھ کھاریاں اور کچھ سمبڑیال میں بھی۔ اصولاً یہ منصوبہ دو سال میں مکمل ہونا تھا۔ یعنی 2024ء میں۔ لیکن ابھی کوئی خبر نہیں ہے کہ یہ کب تک مکمل ہو سکے گا۔ اس سال کے مکمل ہونے میں بھی ابھی بہرحال سات ماہ پڑے ہیں۔
کھاریاں کے قریب چک گلیانہ سے نئی موٹر وے ایم 13 شروع ہو گی۔ یہ راولپنڈی تک جائے گی اور 117 کلو میٹر لمبی ہو گی۔ اس پر ابتدائی کام ہو رہا ہے لیکن شاید تعمیری کام شروع نہیں ہوا۔ یہ بھی چار لین والی موٹر وے ہو گی۔ اس پر آٹھ انٹر چینجز ہوں گے۔ دریائے جہلم پر ایک نیا پل بھی اسی ایم 13 پر بنایا جا رہا ہے۔ دینہ اور سوہاوہ کے بیچ کوہستان نمک میں دو جڑواں سرنگیں بھی اسی منصوبے کا حصہ ہیں۔ یہ موجودہ جی ٹی روڈ کے مشرقی علاقوں تک رسائی سہل کرے گی۔ کھاریاں‘ گجرات‘ جہلم‘ دینہ‘ سوہاوہ‘ گوجرخان‘ مندرہ اور راولپنڈی جیسے بڑے شہروں کے دائیں بائیں دیہات اور بستیاں اس سڑک سے کھل جائیں گی۔
موٹر ویز بڑے شہروں کے بیچ سے نہیں گزرا کرتیں‘ یہ ان کے قریبی علاقوں سے گزرتی اور انہیں قیمتی بناتی چلتی ہیں۔ ان تینوں موٹر ویز کا بھی یہی نظام ہوگا۔ کھاریاں راولپنڈی موٹر وے پنڈی رِنگ روڈ پر ختم ہوگی۔ ان تمام بستیوں اور قریبی علاقوں کو اس نظام سے جڑ کر سفری سہولتیں مل جائیں گی جو ان کا اصل فائدہ ہے۔ لیکن اگر ان تین موٹر ویز کی مجموعی لمبائی دیکھیں تو یہ لگ بھگ 290 کلو میٹر بنتی ہے۔ یعنی ایم ٹو سے 85 کلو میٹر کم اور جی ٹی روڈ سے دس‘ پندرہ کلو میٹر کم فاصلہ بنتا ہے۔ گویا لاہور سے اسلام آباد جانے والے کو اب ایم ٹو سے جو ساڑھے چار گھنٹے لگتے ہیں‘ اس نئے راستے سے ساڑھے تین گھنٹے کا سفر رہ جائے گا۔ ایک گھنٹے کی بچت بڑی بچت ہے۔
میں چشمِ تصور سے وہ بستیاں‘ گاؤں‘ دیہات دیکھ رہا ہوں جو ابھی اَن دیکھے ہیں اور چند سالوں میں موٹر ویز کے اس جال سے جڑنے والے ہیں۔ ان زمینوں کی قیمتیں موٹر وے سے قریب ہونے کے سبب بڑھیں گی۔ ان موٹرویز کے دائیں بائیں بننے والے صنعتی زونز ترقی کے دروازہ کھولیں گے۔ ان صنعتوں کے ذریعے ملازمتیں ملیں گی۔ بہت سے زمیندار فخر سے اپنی زمینوں کے بارے میں کہا کرتے ہیں ''میری زمین تک پکی سڑک جاتی ہے‘‘۔ یہ فخر ہر زمین والے کو نصیب نہیں ہوتا۔ سڑک کسی بھی زمین‘ کسی بھی گاؤں کی ترقی کی وہ لیٹی ہوئی سیڑھی ہوتی ہے جو آسمان کی طرف لے جایا کرتی ہے۔
بہت سے منصوبے‘ جو پہلے مکمل ہو جانے چاہئیں تھے‘ بہت دیر میں مکمل ہوئے لیکن بہرحال ہوئے تو لوگوں کو‘ ملک کو فائدہ پہنچا۔ لوگوں کی تنقید جو پہلے بھی کبھی کم نہیں تھی‘ سوشل میڈیا کے بد زبانی اور بے لگامی کے اس دور میں کئی ہزار گنا بڑھ چکی ہے۔ اس تنقید میں آپ بہت بار مقبولیت اور پسندیدگی بھی حاصل کر سکتے ہیں لیکن جو کام اچھے ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں یا ہوجائیں گے‘ ان کا ذکر کون کرے گا۔ اچھے کاموں کی داد کیلئے کون سے فرشتے اُتریں گے؟ وہ توازن کہاں غائب ہو گیا جس میں اچھے کاموں پر تحسین اور خوشی کا اظہار کیا جاتا تھا اور غلط پر تنقید کی جاتی تھی؟ اب یا تو بے محابا تحسین ہے یا بے مہار تنقید۔ کیا آپ نے اپنے گھر کے لوگوں کیلئے بھی کبھی یہ دو انتہائیں پسند کی ہیں؟