پورا ملک جھلس رہا ہے۔ مئی جون کے ہونکتے مہینوں سے آپ توقع بھی اور کیا کر سکتے ہیں؟ شمالی علاقے غنیمت ہیں کہ وہاں کچھ روز کڑاکے کی گرمی پڑنے کے بعد آندھی اور ہلکی بارش چند روز کیلئے موسم خوشگوار بنا دیتی ہے‘ لیکن جنوبی علاقے ان دنوں مجید امجد کے الفاظ میں تانبے کا ورق بنے ہوتے ہیں۔ آندھی چلے بھی تو ٹھنڈی ہوا اور بارش جلو میں نہیں لایا کرتی۔ تین رات پہلے لاہور میں گرم اور تیز آندھی کے بعد خنک ہوا کے جھونکے آنے شروع ہوئے۔ کچھ دیر مینہ برسا۔ کیا چیز ہے بارش بھی۔ اندر باہر کا موسم یکسر بدل کر رکھ دیتی ہے۔ رات کی بارش کا اپنا سحر ہے اور اسے تاریک آسمان پر بجلی کے تیزکڑاکے مزید جادوئی بنا دیتے ہیں:
بجلی چمک کے تیغِ شرر بار سی گری
جیسے گھٹا میں رنگ کی دیوار سی گری
جلتے بدن پر بارش کی پہلی بوند گرتی ہے تو لگتا ہے کہ تپتے توے پر چھینٹ گری ہے۔ انسان‘ جانور‘ درخت‘ پودے لہلہا اُٹھتے ہیں اور مٹی خوشبو کیلئے مسام وا کر دیتی ہے۔ گھاس اور خس کی خوشبو مہکتی اور ہوا کی لہروں پر پھیلتی ہے اور خس کی خوشبو بھی کیا خوشبو ہے۔ وہ گرم دوپہریں یاد آتی ہیں جن میں بھیگی ہوئی خس سے گزر کر آتی ہوا پنکھے سے ہوکر کمرے میں در آتی اور در و دیوار مہکاتی تھی۔
ذرا غور کریں‘ گرمیوں کے کتنے رواج‘ کتنے معمول کے رہن سہن یا تو بالکل ختم ہو چکے یا بہت تبدیل ہو گئے۔ ویسے تو ہر موسم میں یہی حال ہے لیکن اس وقت بات گرمیوں کی ہے۔ وہی شہر ہے‘ وہی ہم ہیں لیکن نہ تو ہم وہی ہیں‘ نہ شہر وہی۔ زندگی بھی وہی نہیں۔ گرمیاں بالکل بدل چکی ہیں۔ یخ بستہ کمروں میں بیٹھ کر اُس زمانے کی گرمیوں کا تصور مشکل ہے۔ روم کولر عام نہیں ہوا تھا اور اسے ڈیزرٹ کولر کہتے تھے۔ 50‘ 55 سال پہلے کی گرمیاں اپنے ساتھ لُو کے جھکڑ بھی لاتی تھیں۔ لُو اب بھی ہے لیکن شہر کے مرکزی علاقوں سے کترا کر گزرتی ہے۔ وہ لاہور بھی الگ لاہور تھا۔ کئی علاقے قصبے اور شہر کی درمیانی صورت رکھتے تھے جن میں زندگی الگ الگ شکلیں رکھتی تھی۔ اکثر حصے پُرسکون اور خاموش قریے تھے۔ رات جلدی اُترتی اور صبح جلدی طلوع ہو جاتی تھی۔ لاہور سمیت بہت سے شہروں کے رہن سہن کے کئی طریقے‘ معمولات اس طرح ختم ہوئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں۔ اب انہیں یاد کرنیوالا بھی خال خال ہوگا اور ٹھیک سے سمجھنے والا بھی کوئی کوئی۔ کسے یاد ہوگا کہ اس وقت برف خانے اور برف بیچنے والے ہر شہر‘ قصبے‘ گاؤں کی لازمی ضرورت تھے۔ ہر محلے میں ایک دو برف والے ہوا کرتے تھے۔ برف کی بڑی کھوکھلی سلوں کو پگھلنے سے بچانے کیلئے ان پر موٹے ٹاٹ کے ٹکڑے ڈالے جاتے۔ کلو گرام کا رواج بعد میں ہوا‘ پہلے سیر ہوتا تھا اور سیر‘ دو سیر‘ پانچ سیر کے باٹ۔ برف تول کر دی جاتی تھی۔ برف والے اب بھی ہیں لیکن بہت کم۔ اُس وقت گھروں میں صبح و شام برف لانا ایک باقاعدہ کام تھا۔ صراحیوں اور گھڑوں کا کافی رواج تھا لیکن گرمیوں میں برف بِنا گزارا نہیں ہوتا تھا۔ ریفریجریٹرز گھروں میں خال خال تھے چنانچہ سارے دن کی ضرورت کے مطابق برف خرید کر ٹھنڈا پانی یا شربت بنا لیا جاتا تھا اور بچی ہوئی برف موٹے کپڑے یا ٹاٹ میں لپیٹ کر کسی ٹھنڈے کونے میں رکھ دی جاتی تھی۔
شہروں‘ قصبوں‘ دیہات میں تنور اب بھی ہیں لیکن شاید وہ رواج بالکل ختم ہو چکا جو شام کو اپنی اپنی آٹے بھری پراتیں تنور پر لے جاکر روٹیاں لگوانے کا تھا۔ رات کو کھانے سے پہلے محلے کے تنوروں پرگندھے ہوئے آٹے سے بھری پراتیں جمع ہو جاتیں۔ تنور والی ماسی روٹیاں لگاتی اور اپنی اُجرت وصول کرتی جو آٹے کے پیڑوں کی شکل میں بھی ہو سکتی تھی اور نقد میں بھی۔ پراتیں کافی ہوتی تھیں اور تنور والا یا تنور والی باری باری سب کو روٹیاں لگا کر دیا کرتی تھی۔ باری کے انتظار میں محلے کے مردوں‘ عورتوں اور لڑکیوں کی گپ شپ کی جگہ بھی یہی بن جایا کرتی تھی۔ کم از کم میرے علم میں اب یہ رواج بالکل ختم ہوگیا ہے لیکن اگر کہیں موجود ہے تو براہِ کرم مجھے مطلع کریں اور یہ بھی بتائیں کہ اب روٹی لگانے کی اُجرت کیا ہے؟
صحن اور آنگن عام طور پر سرخ اینٹوں کے ہوا کرتے تھے اور ان میں کیاریاں اور چھوٹے پودے لگے ہوا کرتے تھے۔ بڑے صحنوں میں کسی کسی میں انار یا آم‘ جامن یا نیم کا درخت بھی دیکھنے کو ملتا تھا۔ گھاس کے لان عام گھروں میں نہیں ہوتے تھے۔ اینٹوں کے صحن میں شام کے وقت چھڑکاؤ کیا جانا معمول تھا۔ گرم اینٹوں سے تادیر بخارات اٹھتے رہتے اور ٹھنڈے ہو جانے پر چارپائیاں اور سفید چادروں والے بستر بچھا دیے جاتے تھے۔ چارپائی کا لفظ بھی اب شہروں میں بہت کم بولا جاتا ہے۔ متوسط اور مالدار طبقات میں تو شاید ہی سننے کو ملے۔ اب بان کی چارپائیاں بھی دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ جن کا اصل اور بڑا حصہ بان کی رسیوں سے بنایا جاتا تھا اور پائنتیانے بان سے بندھی ہوئی موٹی رسی کے بنے ہوتے تھے۔ بانوں کی بھی ایک عمر ہوتی تھی اور یہ عمر ختم ہونے پر بان تبدیل کرکے دوبارہ چارپائی بُنی جاتی تھی۔ بُنائی بھی ہر ایک کے بس کی نہیں ہوتی تھی‘ خاص ہنر درکار تھا۔ چارپائی کا چوکھٹا لکڑی کا ہوتا تھا اور اگر خراب ہو جائے یا چولیں ہل جائیں تو مرمت کرنے والے بھی الگ ہوتے تھے۔ بعض دفعہ بان والا اور چوکھٹا مرمت کرنے والا دونوں کاموں کا ماہر ہوتا تھا۔ کیا یہ اب کہیں نظر آتے ہیں؟ آپ یاد کریں کہ آخری چارپائی آپ نے کب خریدی تھی‘ کب بان بنوائے تھے یا چوکھٹا ٹھیک کرایا تھا۔ آپ کو یاد ہی نہیں آئے گا۔ ہو سکتا ہے یہ تحریر پڑھ کر یاد آئے کہ ہاں! ایک زمانے میں زندگی اور رہن سہن اس طرح بھی ہوا کرتے تھے۔ کھلے آسمان تلے سونا بھی ختم ہو گیا۔ یاد کیجیے کہ آخری بار آپ کب کھلے آسمان کے نیچے سوئے تھے۔ یہ بھی آپ کو یاد نہیں آسکے گا۔ میں قصبات اور دیہات کی بات نہیں کر رہا کہ وہاں اب بھی یہ معمول ہوگا۔ لیکن لاہور اور دیگر بڑے شہروں میں اب صحن اور کھلی چھت پر کوئی نہیں سوتا۔ ایک تجربہ کیجیے۔ آپ جس علاقے میں بھی رہتے ہیں۔ کبھی رات کو چھت پر چڑھ کر اپنے محلے کا جائزہ لیجیے۔ کتنے لوگ ہیں جو آپ کو چھت پر سوتے دکھائی دیں گے؟ اکثر علاقوں میں کوئی ایک بھی نہیں۔ اور کچھ علاقوں میں خال خال۔ حالانکہ صحنوں اور چھتوں پر رات کو سونا لاہور میں گرمیوں کا ایک معمول اور طرزِ زندگی تھا۔
گھروں کی طرزِ تعمیر بھی بالکل بدل چکی ہے۔ پہلے چونکہ ایئر کنڈیشنرز کا رواج نہیں تھا اس لیے گھروں کی چھتیں اونچی ہوتی تھیں اور روشن دان‘ کھڑکیاں کئی کئی رکھے جاتے تھے۔ اسکے فائدے بھی تھے اور نقصان بھی۔ گرمیوں میں ان کی وجہ سے یقینا کمرے کم تپتے تھے لیکن بلند روشن دانوں میں چڑیاں اور کبوتر اپنے گھونسلے بنا لیا کرتے تھے۔ ایک اور مسئلہ آندھیوں کا تھا۔ تیز دھوپ پڑتی اور لُو چلتی تو سات آٹھ دن کے بعد مغرب یا عشا کے بعد اُفق سے دیو زاد بادل نمودار ہوتا۔ بلندی سے بستیوں کو گھورتا اور آندھی طوفان کی طرح شہر پر ٹوٹ پڑتا۔ تیز گرم‘ گرد آلود ہوا کچھ دیر بعد نم آلود خنک ہوا کے جھونکوں میں تبدیل ہونے لگتی۔ لیکن اتنی دیر میں بھی گرد و غبار گھر کے کونے کونے میں پہنچ چکا ہوتا تھا۔ روشن دان‘ کھڑکیاں‘ دروازے‘ اتنے راستے تھے کہ مٹی کا راستہ روکا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ اب موجودہ گھروں کی چھتیں نیچی ہیں۔ روشن دان ختم اور کھڑکی زیادہ سے زیادہ ایک۔ چنانچہ مٹی سے گھر اَٹ جانے کا وہ مسئلہ اب قریب قریب ختم ہوگیا۔
ناشکری نہیں کرنی چاہیے کہ اب بہت سے گھروں کے حالات اور رہن سہن بھی بہتر ہوکر بدل چکے۔ بہت سی نعمتیںجن کا خواب ہی دیکھا جا سکتا تھا‘ اللہ کا شکر ہے کہ اب دسترس میں ہیں۔ لیکن یہ حقیقت تو اپنی جگہ ہے کہ زندگی کا وہ معمول‘ وہ چلن جو اَب لوٹ کر آنے والا نہیں‘ دل میں دھڑکتا‘ کروٹیں بدلتا‘ سانس لیتا رہتا ہے‘ بلاتا رہتا ہے کہ مجھے دیکھو میں بھی تمہاری ہی زندگی کا ایک حصہ ہوں۔