جن تحریروں کا میں نے ذکر کیا ہے ان کے جواب میں جناب مجیب الرحمن شامی نے کالم لکھا۔ دانشور‘ کالم نگار جناب محمد آصف بھلی نے کالموں اور وڈیوز کے ذریعے اپنا مدلل جواب پہنچایا۔ 11 اگست کی اسمبلی میں قائداعظم کی تقریر پر بھی ان کی عمدہ وڈیو موجود ہے۔ جناب خورشید ندیم نے بھی اسی موضوع پر اپنے متین اور مدلل انداز میں بہترین کالموں کا سلسلہ شروع کیا ہے جو سمجھنے والے کے لیے تشنہ پہلو نہیں چھوڑتے۔ ان موضوعات پر پہلے بھی معترض طبقے کو کئی بار جواب دیا جا چکا ہے۔ یہ تمام حضرات ان موضوعات پر مجھ سے بہتر گفتگو کے اہل ہیں۔
قراردادِ مقاصد پر اعتراضات کی کئی تحریریں پڑھ کر یہ دھوکا ہو سکتا ہے کہ شاید قراردادِ مقاصد میں علما ہی کو حکومت کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ یا عوام سے منتخب نمائندے چننے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قراردادِ مقاصد کا ان تاثرات سے دور دور کا تعلق نہیں۔ اس قبیل کے لکھاریوں کو چاہیے کہ وہ قراردادِ مقاصد کا متن ساتھ دیں اور نشاندہی کریں کہ ان میں سے کس نکتے‘ کس جملے پر انہیں اعتراض ہے۔ اگرمعترض حضرات ان لفظوں‘ شقوں یا جملوں کی نشاندہی کرتے جو غلط ہیں‘ تو یہ بہتر طریقہ ہوتا لیکن یہ متن کسی نے نہیں دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرارداد کے متن میں کوئی ایسی چیز ہے ہی نہیں جو اس تاثر کی ذرا سی تائید کرتی ہو۔ میں یہ متن یہاں شامل کرتا ہوں تاکہ ایک عام قاری یہ دیکھ سکے کہ قراردادِ مقاصد ہے کیا۔
''اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکتِ غیر ے حاکمِ مطلق ہے۔ اُس نے جمہور کے ذریعے مملکتِ پاکستان کو جو اختیار سونپا ہے‘ وہ اس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
مجلسِ دستور ساز نے‘ جو جمہورِ پاکستان کی نما ئندہ ہے‘ آزاد و خود مختار پا کستان کے لیے ایک دستور مرتب کر نے کا فیصلہ کیا ہے جس کی رو سے مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نما ئندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔
جس کی رو سے اسلام کے جمہوریت‘ حریت‘ مساوات‘ رواداری اور عدلِ عمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔ جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتما عی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔
جس کی رو سے اس امر کا قرارِ واقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں‘ اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھنے‘ عمل کرنے اور اپنی ثقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد ہوں۔جس کی رو سے وہ علاقے‘ جو پا کستان میں داخل یا شامل ہو جائیں‘ ایک وفاق بنائیں گے جس کے صوبوں کو مقررہ اختیارات و اقتدار کی حد تک خود مختاری حاصل ہو گی۔
جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور ان حقوق میں جہاں تک قانون و اخلاق اجازت دیں‘ مساوات‘ حیثیت و مواقع کی نظر میں برابری‘ عمرانی‘ اقتصادی اور سیاسی انصاف‘ اظہارِ خیال‘ عقیدہ‘ دین‘ عبادت اور جماعت کی آزادی شامل ہوگی۔ جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقات کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔جس کی رو سے نظامِ عدل گستری کی آزادی پوری طرح محفوظ ہو گی۔
جس کی رو سے وفاق کے علاقوں کی صیانت‘ آزادی اور جملہ حقوق‘ بشمول خشکی و تری اور فضا پر صیانت کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا تاکہ اہلِ پاکستان فلاح وبہبود کی منزل پا سکیں اور اقوامِ عالم کی صف میں اپنا جائز و ممتاز مقام حاصل کریں اور امنِ عالم اور بنی نوع انسان کی ترقی و خوش حالی کے لیے اپنا بھرپور کر دار ادا کر سکیں‘‘۔
کیا اس متن میں کسی ایک بھی قابلِ اعتراض بات کی نشاندہی کی جا سکتی ہے‘ جو کسی بھی لحاظ سے قابلِ گرفت ہو؟ یہ پاکستان کی اساس تھی۔ پاکستان میں جتنے حکمران آئے‘ وہ بھی یہ بات جانتے تھے۔ یہ لاکھوں سال پہلے کی نہیں‘ آنکھوں دیکھی تاریخ تھی؛ چنانچہ انہوں نے کبھی قراردادِ مقاصد کو آئین سے نکالنے یا مملکت کو سیکولر بنانے کی کوشش نہیں کی۔ تنہا یہی دلیل کہ 1949ء سے آئین کی معطلی‘ منسوخی اور تبدیلیوں کے باوجود قراردادِ مقاصد آئین سے نکالنے کی جرأت نہیں کی جا سکی‘ اس کے حق ہونے کی بہت وزنی دلیل ہے۔ ظاہرہے جب پاکستان کے حصول کی تحریک چلائی گئی تو وہ تھی ہی مذہب کی بنیاد پر۔ علمائے کرام نے اس تحریک میں تحریری اور تقریری بھرپور حمایت اسی بنیاد پر کی اور اسی کے لیے مسلم لیگ اور قائدین نے یقین دہانیاں کرائیں۔ تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ پاکستان بننے کے بعد اس مقصد‘ ان یقین دہانیوں اور ان وعدوں سے رو گردانی کر لی جاتی۔ یہ تو نری منافقت ہوتی۔ یہ قائدین کے کردار پر اتنا بڑا داغ ہوتا کہ کسی طرح اسے دھونا ممکن نہ ہو سکتا۔ نہ قائداعظم ایسے کردار اور مزاج کے رہنما تھے‘ نہ لیاقت علی خان؛ چنانچہ قراردادِ مقاصد اسمبلی سے منظور نہ کی جاتی تو ریاست اپنا جواز کھو بیٹھتی۔ اس لیے کہ پھر سیکولر ہندوستان سے الگ ہونے کا جواز ہی نہیں رہتا۔ اپنے گھروں‘ جائیدادوں‘ اجداد کی قبروں سے نقل مکانی کا جواز ہی کیا تھا۔ جان‘ مال اورآبرو کی قربانیوں کی ضرورت ہی کیا تھی۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس قرارداد سے پہلے ہندوستان اپنے آئین میں اپنی قرارداد مقاصد شامل کر چکا تھا جو جنوری 1947ء میں منظور کی گئی تھی۔ وہ ان کے اصولوں‘ تصورات اور لائحہ عمل کا تعین کرتی تھی۔ تو ایسی ہی قرارداد اپنی تحریک اورمطالبات کے لیے دی گئی لاکھوں قربانیوں کے بعد پاکستانی اسمبلی کے لیے کیسے شجرِ ممنوعہ بن سکتی ہے ؟
اگر انصاف سے سوچا جائے تو اسمبلی نے ریاست کا رخ متعین کرکے ملک و قوم کو اس ممکنہ خون خرابے سے بچایا جو منافقت کی بنیاد پر اور جائز مطالبات کی تکمیل میں ٹال مٹول کی صورت میں پاکستان کے اندر شروع ہوسکتا تھا۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنے گھر اور جائیدادیں چھوڑیں‘ بزرگوں کی قبریں چھوڑیں‘ جانی اور مالی قربانیاں دیں‘ لٹ پٹ کر پاکستان پہنچے‘ کیا انہیں صبر آ سکتا تھا کہ ان کے خواب کو نئی حکومت بے دردی سے چکنا چور کردے۔ اگر وہ انگریزوں‘ ہندوؤں اور سکھوں کا سامنا کرسکتے تھے تو نئی حکومت کا‘ جو ابھی پوری طرح مستحکم بھی نہیں ہوئی تھی‘ کیوں مقابلہ نہیں کر سکتے تھے؟ دستور ساز اسمبلی یہ قرارداد منظور نہ کرتی تو مسلمان کسی بھی طرح چین سے نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ اور یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہر دور میں یہ بار بار ثابت ہوتا رہا ہے۔ خواہ وہ ختم نبوت کی 1953ء کی تحریک ہو‘ 1974ء کی یا 1977ء کی تحریک ہو یا کوئی اور۔ ہر بار یہ ثابت ہوا کہ حکومت عوام کے سیلاب کے سامنے بند نہیں باندھ سکتی۔ 1977ء کی تحریک نے جب مذہبی رخ اختیا رکیا تو بھٹو جیسا مقبول حکمران بھی اس کے سامنے ٹک نہیں سکا تھا۔ سچ یہی ہے کہ اس وقت اگر اپنے وعدوں اور قوم کے پُرزور مطالبات کو رد کرکے چند لوگوں اور طبقوں کی خواہش پر ریاست کو ''بے مذہب‘‘ کیا جاتا تو ایک طرف یہ دوغلے پن کا بہت بڑا داغ ہوتا‘ دوسرا‘ یہ ایک نوزائیدہ مملکت کو نئی بے چینی کی طرف لے جاتا۔ خود مسلم لیگ‘ جس نے پاکستان کی تحریک چلائی تھی‘ کے اندرایسی دراڑیں پڑتیں جو کبھی بھری نہ جاسکتیں۔یہ قراردادِ مقاصد اور پہلی دستور ساز اسمبلی کی وجہ سے ممکن ہوا کہ کوئی بڑی عوامی تحریک حکومت کے خلاف کھڑی نہیں ہوئی۔