مثل مشہور ہے کہ ہنوز دلی دور است۔ یہاں معاملہ دلّی کا نہیں‘ پٹیالہ کا تھا جو ابھی تک کافی دور تھا۔ ہمسفر باتیں کرتے کرتے اور گیت گا گا کر نڈھال ہو چکے تھے۔ بدگوئیوں اور غیبت کے بھرپور سیشن‘ جن میں خیال کرنا پڑتا ہے کہ جس کی غیبت ہو وہ کہیں پاس موجود نہ ہو‘ وہ سیشن بھی نمٹ چکے تھے۔ اب صرف یہ انتظار تھا کہ پٹیالہ کب آتا ہے‘ مگر پٹیالہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ رات کے اندھیرے میں سائن بورڈ بھی نہیں پڑھے جاتے تھے کہ ہم ہیں کہاں؟ شاید رات کے ساڑھے دس بجے تھے جب پٹیالہ کی مضافاتی روشنیاں نمودار ہوئیں۔ رفتہ رفتہ شہر کی رونق میں داخل ہوئے اور ایسی شاہراہ پر آئے جہاں گاڑیاں آتی جاتی دکھائی دیں۔ یہ پٹیالہ‘ چندی گڑھ روڈ تھی۔ یہاں سے چندی گڑھ ڈیڑھ گھنٹے کے فاصلے پر تھا۔ پنجاب یونیورسٹی پٹیالہ جو ہماری میزبان تھی‘ شہر سے کچھ فاصلے پر اسی سڑک پر واقع تھی۔ پندرہ بیس منٹ بعد تاریکی میں دور سے رنگ برنگی روشنیاں جھلملاتی دکھائی دیں۔ دس بارہ منٹ بعد دور ایک بڑی سی عمارت پر روشنیوں کا جھرمٹ دکھائی دیا۔ ہم وہاں اترے اور میزبانوں کے ایک بڑے ہجوم نے ہمارا استقبال کیا۔ وائس چانسلر سمیت اساتذہ‘ سٹاف‘ سرکاری عملہ اور مقامی مندوبین‘ سب کب سے پاکستانی قافلے کے انتظار میں تھے۔ ہار‘ پھولوں کی پتیاں‘جی آیاں نوں میں دس پندرہ منٹ گزر گئے۔ اس خیر مقدم کے بعد ہمیں ایک سبزہ زار کی طرف جانا تھا جہاں بفے کا انتظام تھا۔ بڑے سبزہ زار میں چھوٹی چھوٹی نشستوں کے چاروں سمت سے کھلے سائبان (Gazebo) بنے ہوئے تھے۔ مناسب فاصلوں پر بفے سٹینڈز تھے۔ایک طرف بار بی کیو کا بندوبست تھا اور ایک طرف تازہ پوری ترکاری اتر رہی تھی۔ تھکن اور بھوک نے برا حال کر رکھا تھا۔ میزبانوں کو بھی اندازہ تھا‘ اس لیے بلاتاخیر کھانے کی دعوت دی گئی۔ یہاں بھی سبزی خوروں اورگوشت خوروں کے سٹینڈز الگ تھے اور وہی مسئلہ درپیش تھا جو ایسی ہر جگہ پیش آیا کرتا ہے۔
ہندو مذہب میں ہر طرح کا گوشت اور انڈے منع ہیں۔ سکھ مذہب میں اس بارے میں کچھ ابہام ہے۔ بابا گورو نانک کی غذا کے بارے میں تعلیمات یہ ہیں کہ غذا سادہ ہو اور بہت زیادہ نہ کھایا جائے کیونکہ شکم سیری لوبھ (لالچ) پیدا کرتی ہے۔ گورو گوبند سنگھ نے شاید کچھ قیود کے ساتھ گوشت کی اجازت دی‘ لیکن ابہام رہا۔ اکال تخت دربار نے‘ جو سکھوں کے مذہبی مسائل کی حتمی مقتدرہ ہے‘ 1980ء میں فیصلہ دیا تھا کہ سبزی یا گوشت میں سے انتخاب ہر ایک کا ذاتی فیصلہ ہے‘ چنانچہ گوشت سکھ مذہب میں ممنوع نہیں ہے۔ البتہ جانور ذبح کرنے کے سکھ مذہب کے اپنے طریقے ہیں جن کی تفصیل یہاں غیر ضروری ہے۔ ہندو مت کے ممنوع اور سکھ مذہب کے ابہام کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر علاقے میں سبزیوں اور اناج کے مختلف کھانے رائج ہوئے جس میں ہر خطے نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ زرعی خطوں سے لے کر صحرائوں تک‘ ہر جگہ کے اپنے ذائقے اور طریقے سبزیوں اور اناج میں شامل ہوتے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اب لگ بھگ 800 کے قریب گوشت سے مبرا کھانے یعنی ویج ڈشز بھارت میں رائج ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ مختلف طرح کے اچاروں اور چٹنیوں نے ان ذائقوں کو رس سے بھر دیا۔ اتنے متنوع اچار اور چٹنیاں شاید ہی دنیا کے کسی خطے میں پائے جاتے ہوں۔ یہی معاملہ روٹیوں کا ہے۔ مختلف اقسام کی سادہ‘ بھری ہوئی روٹیاں اور پراٹھے ان کھانوں کا تنوع بڑھاتے ہیں۔ انگاروں پر سنکے ہوئے کھانے یعنی بار بی کیو اصل میں تو گوشت کے ساتھ مخصوص ہیں لیکن بھارت میں ویج بار بی کیو بھی دعوتوں کا حصہ ہوتے ہیں۔ ان کھانوں کو یاد کروں تو سو فیصد تو یاد نہیں لیکن چونکہ سہ روزہ کانفرنس میں بار بار ایسے بفے پیش کیے جاتے رہے‘ نیز بھارت میں میرا سات آٹھ بار جانا ہوا ہے اس لیے میں زیادہ مشہور ویج ڈشز آسانی سے بتا سکتا ہوں۔بار بی کیو میں مرچ پنیر‘ پنیر تکہ‘ آلو پنیر کباب‘ ناریل پنیر‘ سیخ کباب‘ ٹماٹرمرچ سیخ‘ مسالے والا مکئی کا بھٹہ بھی اسی میں شامل کر لیں۔ عام کھانوں میں چھولے پٹھورے‘ پوری ترکاری‘ دال مکھنی‘ بینگن کا بھرتہ‘ سبزی پلائو‘ پالک پنیر‘ دال ماش‘ دال مسور‘ ملائی کوفتہ‘ دم آلو وغیرہ ہیں۔ جنوبی بھارت میں ڈوسا‘ پائو بھا جی وغیرہ بھی اس مینو میں شامل ہو جاتے ہیں لیکن بھارتی پنجاب میں کم کم۔ کوئی شک نہیں کہ پٹھورے‘ پوریاں‘ پانی پوری (گول گپے) اور پراٹھوں کے ذائقے بھارتی پنجاب میں بہترین ہیں۔ عام کھانوں میں دالیں‘ خاص طور پر دال مکھنی بہت مزیدار ہوتی ہے لیکن... اور یہ خاصا بڑا لیکن ہے۔ کتنے دن اور کتنا وقت؟ آخر کوئی ذی روح انڈے کے بغیر کتنے دن خوشی سے گزار سکتا ہے ؟خیر! بھرپور کھانے کے بعد کھیر‘ گجریلا وغیرہ پر ہاتھ صاف کیا گیا۔ لیکن اصل چیز کڑاھے سے اترتی ہوئی گرم گرم امرتی تھی۔ جو لوگ اترتی ہوئی گرم امرتی کے شائق ہیں‘ میرا پیار قبول کریں۔
کھانے کے بعد پینے کی محفل بھی تھی۔ یہ بات لکھتے ہوئے افسوس ہوتا ہے لیکن کیا کیا جائے‘ یہ حقیقت ہے کہ کچھ بلا نوش پاکستانی‘ پٹیالہ میں مفت کے مشروب پر اس طرح ٹوٹتے تھے جیسے ساری عمر کے ترسے ہوں۔ میں نے بہت سے نامور لوگ گھٹیا پن کی حدود سے گزرتے دیکھے۔ایک مشہور شاعر کو کئی بار اسی حال میں دیکھا اور ہمیشہ کیلئے ان کی وہ شکل حافظے میں محفوظ ہو گئی۔ لیکن کئی لوگ ایسی تمام حرکتوں سے مجتنب نظر آئے‘ ایسے لوگوں کا وقار دل میں اور بڑھ گیا۔ ایک بار میں نے اپنے دوست اور دہلی کے اردو شاعر عازم گروندر سنگھ کوہلی سے پوچھا: سکھ مذہب میں شراب ممنوع نہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ہر قسم کی نشہ آور چیز سکھ مذہب میں سختی سے ممنوع ہے۔ بھنگ‘ افیم‘ شراب‘ کوکین وغیرہ۔ بلکہ سکھوں کا ایک طبقہ کافی پینے کے بھی خلاف ہے۔ اس فہرست میں تمباکو بھی شامل ہے‘ چنانچہ سکھوں میں سگریٹ نوشی نہایت معیوب ہے۔ دوبارہ وہ واقعہ ذکر کرنے میں حرج نہیں کہ ایک بار دہلی میں امجد اسلام امجد‘ عازم کوہلی اور میں اکٹھے تھے۔ اس شام کی یہ بات اب بھی یاد آتی ہے تو اپنی حماقت پر شرمندہ ہو جاتا ہوں۔ چائے پر میں نے اپنے لیے سگریٹ نکالی تو ایک سگریٹ بڑے خلوص سے گروندر کوہلی کو بھی پیش کر دی۔ کوہلی نے پہلے سگریٹ کو دیکھا پھر مجھے‘ پھر امجد صاحب کو‘ پھردوبارہ میرے چہرے کو غور سے دیکھا۔ وہ اندازہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ میں سنجیدہ ہوں‘ مذاق کر رہا ہوں یا ناواقف ہوں۔ پھر ایک منٹ خاموشی کے بعد گمبھیر لہجے میں کہا ''سعود بھائی! مجھے تو یہ سگریٹ تم نے پیش کر دی ہے کسی اور سردار کو پیش نہ کر دینا‘ بڑی مار پڑے گی‘‘۔ اب بندہ بے خیالی کو کتنی ملامت کرے کہ علم تو تھا کہ سکھ مذہب میں تمباکو نوشی سختی سے منع ہے لیکن اس وقت ذہن سے نکل گیا تھا۔
پنجاب یونیورسٹی 1962ء میں پٹیالہ شہر سے سات کلومیٹر دور قائم کی گئی تھی۔ یہ کیمپس لگ بھگ 316 ایکڑ میں قائم ہے اور اس کے ساتھ بہت سے کالج منسلک ہیں۔ یہ ہماری پٹیالہ میں پہلی رات تھی‘ جس میں بھرپور خیر مقدم اور عمدہ انتظامات دیکھنے میں آئے۔ پاکستانی وفد کیلئے سکھ میزبانوں کی گرمجوشی صاف نظر آتی تھی۔ قافلے والوں سے منتظم افراد کا تعارف کرا دیا گیا اور فون نمبر دیدیے گئے۔ سچ یہ ہے کہ وہ سب بہت محبت سے سب کا خیال رکھتے رہے۔ مندوبین کا نشہ اپنی جگہ لیکن ہم تو کھانے ہی سے مخمور ہو چکے تھے۔ اور تھکن اس پر مستزاد۔ معلوم ہوا کہ ہمارا قیام تو پٹیالہ ہی کے ایک ہوٹل میں ہے لیکن ہمارے کئی ساتھیوں کا چندی گڑھ میں بندوبست تھا۔ یعنی مزید مشقت۔ ہم نے بچ جانے پر خدا کا شکر ادا کیا۔ اگلی صبح سہ روزہ کانفرنس کا آغاز تھا اور ہمیں نو بجے تک تیار ہو کر پہنچنا تھا۔ اس لیے ہوٹل پہنچے جہاں نیند بستر سجائے‘ بانہیں پھیلائے منتظر تھی۔