بنگلہ دیش‘ ملحقہ علاقے اور یہاں ہونے والی مسلسل تبدیلیاں ان دنوں میری توجہ کا مرکز ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ میں یہ تبدیلیاں بہت دور رَس سمجھتا ہوں اور پاکستان سمیت پورے خطے پر اس کے گہرے اثرات یقینی ہیں۔ دوسرا‘ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان میں تجزیہ کاروں نے ان تبدیلیوں پر کم بات کی ہے۔ تجارتی‘ معاشرتی اور دفاعی‘ غرض ہر لحاظ سے یہ زیادہ توجہ کی حقدار ہیں۔ حسینہ واجد کے بھارت فرار کے بعد ایک ماہ کے دوران روز ایسی تبدیلیاں ہو رہی ہیں جن کا پاکستان میں بغور مطالعہ ہونا چاہیے۔ ہماری بدقسمتی تھی کہ ہمارے حکمران اور سیاستدان اپنے ذاتی مفادات اور عیاشیوں میں یہ ادراک ہی نہ کر سکے کہ مشرقی پاکستان میں کیسا لاوا پک رہا ہے۔ دوسرا بڑا حادثہ یہ تھا کہ اس سانحے کی کمیشن رپورٹ کی سفارشات پر بھی عمل نہیں ہو سکا۔ اب یہ ماضی پیچھے رہ گیا ہے لیکن اس سے سبق سیکھے بغیر مستقبل ٹھیک نہیں ہو سکتا۔
بنگلہ دیش تین اطراف سے بھارت میں گھرا ہوا ہے۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھارت کا جو کردار رہا وہ بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ عوامی لیگ کی شکل میں بھارت کو مسلسل اپنے مفادات کے حصول کیلئے طویل مدت تک حکومتی گروہ میسر رہا لیکن حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ عوامی لیگ پس منظر میں چلی گئی اور بنگلہ دیش کے بڑھتے ہوئے تناؤ اور سخت عوامی نفرت سے بھارت کے بہت سے مفادات خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ ابھی تو عبوری حکومت ہے جو کافی غیر جانبدار رویہ رکھے ہوئے ہے۔ بھارت کیلئے اصل دردِ سر نئی حکومت ہوگی جو بظاہر بھارت مخالف جماعتوں ‘جن میں بی این پی اور جماعت اسلامی سرفہرست ہیں‘ کی بنتی نظر آ رہی ہے۔ اس طرح عوامی رجحانات اور سیاسی مخالفین مل کر بھارت کیلئے بڑے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ حسینہ واجد حکومت نے بھارت کو غیرمعمولی رعایتیں دے رکھی تھیں‘ وہ ختم ہو سکتی ہیں۔ یہ رعایتیں دو طرفہ تھیں۔ ان کے عوض بھارت نے حسینہ واجد کی جبر و تشدد پر قائم حکومت کے اقدامات کی طرف سے آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔ یہی دو طرفہ رعایت اب دونوں کیلئے مصیبت بنی ہوئی ہے کیونکہ عوامی لیگ سے نفرت بھارت کے گلے پڑی اور بھارت سے نفرت عوامی لیگ کے۔ اس وقت دونوں ملکوں میں تناؤ بہت زیادہ ہے۔
بنگلہ دیش اور بھارت کے بنیادی اختلافات کیا ہیں۔ پہلے بڑے مسائل پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ ایک پرانا اور بڑا مسئلہ دریاؤں کے پانی کا ہے۔ 54 بین الاقوامی دریا بھارت سے داخل ہوکر بنگلہ دیش میں بہتے ہیں ‘ ان میں گنگا‘ برہم پترا اور میگھنا بھی شامل ہیں۔ بھارتی دریاؤں پر بنگلہ دیش کا بڑا انحصار ہے۔ بنگلہ دیش کو شکایت ہے کہ برسات کے دنوں میں بھارت بنگلہ دیش کی طرف بلااطلاع پانی چھوڑ دیتا ہے جس سے فصلیں اور بستیاں تباہ ہو جاتی ہیں جبکہ عام دنوں میں بھارت پانی روک لیتا ہے جس سے آبپاشی کیلئے پانی کی کمی ہو جاتی ہے۔ دریائے ٹریسٹا کا پانی ایک بڑا اختلاف ہے۔ ٹریسٹا سِکم سے نکل کر بھارت میں آتا ہے اور پھر بنگلہ دیش میں داخل ہو جاتا ہے۔ بنگلہ دیش اس پانی کے 50 فیصد کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ بھارت اپنے لیے 55 فیصد پر مُصر ہے چنانچہ یہ معاملہ ایک دو معاہدوں کے باوجود ہنوز لاینحل ہے۔ بنگلہ دیش میں حالیہ تباہ کن سیلاب میں بھی یہ عمومی تاثر ہے کہ تری پورہ ریاست میں بھارتی ڈیم دمبور کے دروازے بلااطلاع کھول دیے گئے جس سے بنگلہ دیش میں 30 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ پورا بنگلہ دیش حالیہ سیلاب کا ذمہ دار بھارت کو سمجھتا ہے۔
بنگلہ دیشیوں کی بھارتی سرحدی فوج کی طرف سے ہلاکتیں ایک اور بڑا مسئلہ ہیں۔ بنگلہ دیش اور بھارت کے مابین 4096 کلو میٹر لمبی بین الاقوامی سرحد ہے۔ کئی جگہ باڑ لگائی گئی ہے لیکن بہت سی جگہوں پر کوئی نشانی نہیں ہے۔ اپنے مویشیوں کا پیچھا کرتے یا کسی اور غلط فہمی کی بنا پر بھارت میں داخل ہو جانے والوں کو اکثر بھارت کی طرف سے ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 2001ء سے 2011ء تک ایک ہزار بنگلہ دیشیوں کو بھارتی بارڈر فورسز کی طرف سے ہلاک کیا گیا۔ ابھی یکم ستمبر کو ساتویں جماعت کی ایک 13سالہ لڑکی کو بھارتی افواج نے مار دیا اور 45 گھنٹے بعد اسکی لاش بنگلہ دیش کے حوالے کی گئی۔ اس پر بنگلہ دیش میںسخت طوفان اٹھا ہے۔ اس سے پہلے بھی متعدد ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ بھارت سمجھتا ہے کہ بنگلہ دیشی غیرقانونی طریقے سے سرحد پار کرکے بھارت میں گم ہو جاتے ہیں جن میں دہشت گرد بھی شامل ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ مودی حکومت نے جن غیر ملکیوں کو شہریت دینے کا جو متنازع قانون 'سی اے اے‘ پاس کیا تھا اس میں بہت سے مذاہب شامل تھے لیکن مسلمان شامل نہیں تھے۔ یعنی بنگلہ دیشی مسلمان اگر کسی طریقے سے بھارت چلا جاتا ہے تو اسے شہریت نہیں مل سکتی جبکہ ہندو‘ بدھسٹ وغیرہ کو قبول کر لیا جائے گا۔ اس مسلم دشمن قانون پر بھارت میں بہت ہنگامہ مچا رہا۔
تجارتی معاہدوں کے بارے میں بھی بنگلہ دیش میں تاثر یہی ہے کہ بھارت نے حسینہ واجد کے ذریعے اہم فیصلے اپنے حق میں کرائے۔ 2022ء میں بنگلہ دیش کو بھارت کی برآمدات 15.17 ارب ڈالرز تھیں جبکہ بنگلہ دیش کی بھارت کو برآمدات محض 2.195 ڈالرز تھیں۔ یہ تجارتی توازن مسلسل بھارت کے حق میں بڑھتا رہا اور مقامی صنعتوں کو اس سے نقصان ہوتا رہا۔ بنگلہ دیشی عوام کو شدید احساس ہے کہ بھارت نے عوامی لیگ کے ذریعے انہیں تجارت میں بھی اپنا دست نگر کر رکھا ہے۔ 'انڈیا آؤٹ‘ کے نام سے بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم حسینہ واجد کے زمانے میں بھی شروع ہوئی تھی لیکن حکومت کا اس میں عمل دخل نہیں تھا اور حسینہ واجد کے بعد اب دوبارہ اس مہم میں تیزی آئی ہے۔ اگر آپ حالیہ دنوں بنگلہ دیشی سوشل میڈیا دیکھیں تو اس میں ہلسا (Hilsa) مچھلی کا بھی ذکر آئے گا۔ بنگلہ دیش کی اس قومی مچھلی کو ایلش بھی کہتے ہیں اور یہ بنگلہ دیش کی مہنگی اور نہایت پسندیدہ مچھلی ہے۔ بنگلہ دیش میں اس وقت درمیانے سائز کی ہلسا مچھلی کی قیمت 2000 ٹکا سے زیادہ ہے‘ یعنی 4700پاکستانی روپے۔ دریائے پدما کی یہ مچھلی عام بنگلہ دیشی کی قوتِ خرید سے باہر ہے۔ اس کی کمیابی کی وجہ سے اس کی برآمد پر پابندی ہے لیکن بھارت اس پابندی سے مستثنیٰ تھا۔ مغربی بنگال یعنی بھارت میں دُرگا پوجا کے وقت اس کی طلب بہت بڑھ جاتی ہے کیونکہ کھچڑی اور ہلسا مچھلی ان دنوں کی خاص بنگالی ڈش ہے۔ حسینہ واجد پچھلے سالوں میں ہر سال پوجا کے دنوں میں یہ مچھلی بھارت کو تحفتاً پیش کیا کرتی تھیں اور پچھلے سال چار ہزار ٹن مچھلی بھارت کو بطور تحفہ پیش کی گئی۔ یہ عام بنگلہ دیشی کیلئے سخت غم و غصے کی بات تھی۔ اب 10 ستمبر کو عبوری حکومت نے دُرگا پوجا سے ایک ماہ پہلے ہلسا مچھلی کی برآمد پر مکمل پابندی لگا دی ہے جس پر مغربی بنگال میں کافی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ایک اخبار کی سرخی ہے کہ بنگلہ دیش نے پلیٹیں اور ذائقے اجاڑ دیے ہیں۔
یہ تو چند ایسے معاملات ہیں جن کو اعداد و شمار کے پلڑے میں تولا جا سکتا ہے لیکن ناپسندیدہ معاملات اور بھی ہیں۔ بتدریج بھارتی رویہ بنگلہ دیشیوں کو کھلنے لگا تھا۔ ہم دیکھتے تھے کہ کھیل کے میدانوں میں بھارت کی شکست پر بنگلہ دیش میں جشن منائے جاتے تھے۔ ہندو ثقافت کو بنگلہ دیش کی مسلم ثقافت پر مسلط کیے جانے کی کوششیں بھی ناپسندیدہ رہیں۔ اس کے علاوہ عام بنگلہ دیشی مسلم بھی سمجھتا ہے کہ بھارتی بنگلہ دیشیوں کو حقیر سمجھتے ہیں‘ انہیں اپنا دست نگر جانتے ہیں اور ملکی سطح پر بھی اپنی آقائیت منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں عوامی لیگ کی مدد حاصل رہی چنانچہ بنگلہ دیش کو کبھی بھی برابری کی سطح پر نہیں آنے دیا جاتا۔ ایک عام آدمی کے اسی تاثر کی وجہ سے پانچ اگست2024ء کو‘ جب عوامی لیگ کی حکومت عوامی مظاہروں سے گرائی گئی‘ تو یہی کہا گیا کہ درحقیقت ہم آج آزاد ہوئے ہیں۔ (جاری)