بنگلہ دیش کے عوام میں بھارت سے عام طور پر نفرت کی ایک بڑی وجہ عوامی لیگ اور حسینہ واجد ہیں۔ بھارت نے بنگلہ دیش سے نہیں بلکہ ایک ٹولے سے تعلقات بنائے رکھے جو عوام کا ترجمان نہیں تھا۔ غنڈہ گردی‘ جبر‘ تشدد‘ پھانسیاں‘ جبری اغوا‘ انتخابات میں مسلسل دھاندلی‘ غرض بے شمار چیزوں میں بھارت نے اپنی آنکھیں بند رکھیں اور عوامی لیگ کی پشت پناہی کرکے عوام میں اپنے لیے مخالفت پیدا کرلی۔ بنگلہ دیش دو طبقات میں بٹ گیا۔ ایک عوامی لیگ والے‘ جو بھارت کا حامی تھا۔ دوسرا ‘ جو بھارت کو سب سے بڑا دشمن سمجھتا تھا ۔ ان میں مذہبی اور سیاسی جماعتیں سب شامل تھیں۔انہیں سختی سے دبایا اور کچلا گیا۔ایک معاملہ بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں کا بھی ہے جنہیں سات بہنیں کہا جاتا ہے۔ میں پہلے بھی ان تک واحد زمینی راستے ' سلی گوری کوریڈور‘ کے بارے میں لکھ چکا ہوں جو ہندوستان کا دفاعی نقطہ نظر سے بہت کمزور مقام ہے۔ اسے مرغی کی گردن بھی کہا جاتا ہے۔ بھارت کا مرکزی علاقہ اسی بہت تنگ پٹی کے ذریعے ان سات مشرقی ریاستوں سے جڑتا ہے۔ تنگ ترین مقام پر یہ پٹی محض 12 کلو میٹر چوڑی ہے۔ اس کے ایک طرف بنگلہ دیش اور دوسری طرف نیپال ہے۔اس کے شمالی دہانے پر بھوٹان ہے اور چین یہاں سے بہت قریب ہے۔ اگر کسی جنگی صورتحال میں یہ پٹی کاٹ دی جاتی ہے تو سات ریاستوں تک پہنچنے کا کوئی اور زمینی راستہ نہیں بچتا۔ یہ ریاستیں بھی وہ ہیں جہاں علیحدگی کی تحریکیں بہت مدت سے چل رہی ہیں۔ منی پور‘ میزورام اور ناگا لینڈ سمیت کئی علیحدگی پسند علاقے ہیں۔ اسی سے جڑا ہوا ایک معاملہ یہ ہے کہ اگر سلی گوری کاریڈور سے گزر کر ان ریاستوں میں جایا جائے تو یہ مشکل راستہ بھی ہے اور کافی طویل بھی مثلاًکلکتہ سے اگرتلہ زمینی راستے سے 1600کلومیٹر سفر میں 38 گھنٹے لگتے ہیں۔بھارت نے حسینہ واجد کے ذریعے چٹاگانگ بندر گاہ اور بنگلہ دیش ریلوے کو استعمال کرنے کا معاہدہ کیا جس سے یہ سفر بہت کم ہوجاتا ہے اور خرچ بچتا ہے۔ اس معاہدے میں اصل فائدے میں بھارت تھا لیکن اس پر مسلسل بنگلہ دیش میں مخالفت رہی ہے۔ حسینہ واجد کی حکومت ختم ہونے کے بعد اس پر بھی نظر ثانی کی باتیں کی جارہی ہیں اور جذباتی نوجوان تو کاریڈو رکاٹ دینے کی بات بھی کر رہے ہیں۔
حسینہ واجد اور اس کے قریبی لوگوں پر سو کے قریب مقدمات قائم ہو چکے ہیں۔ان میں قتل کے مقدمات بھی ہیں۔ بنگلہ دیش اور بھارت میں مجرموں کی حوالگی کا ایک معاہدہ 2013 ء میں حسینہ واجد حکومت نے کیا تھا جس میں بعد ازاں ترامیم بھی ہوتی رہی ہیں۔ یہی معاہدہ اس وقت حسینہ اور بھارت کے گلے کا پھندا بنا ہوا ہے۔ حسینہ کے اپنے قائم کردہ بین الاقوامی جرائم کے ٹربیونل آئی سی ٹی کے چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام نے کہا ہے کہ حسینہ کی حوالگی کے لیے کام شروع کردیا گیا ہے۔ انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل خود حسینہ واجد نے اپنے مخالفوں کے لیے پھندے کے طور پر بنایا تھا اور بے شمار لوگوں کو اسی کے ذریعے پھانسی اور قید کی سزائیں دی گئیں۔ ڈاکٹر محمد یونس نے بھی پچھلے دنوں بیان میں کہا تھا کہ جب تک بنگلہ دیش حسینہ واجد کی حوالگی کا مطالبہ بھارت سے نہیں کرتا بہتر ہے کہ وہ خاموش رہیں اور ملک کے اندر اپنے بیانات سے بد امنی پیدا نہ کریں۔ قانونی لحاظ سے دونوں ملک ایک دوسرے کو مجرم حوالے کرنے کے پابند ہیں۔ البتہ ایک شق سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے مقدمات کے استثناکی بھی ہے ۔عبوری حکومت بھارت کے معاملے میں محتاط ہے۔ بظاہر وہ بڑے فیصلے آئندہ حکومت کے لیے چھوڑنا چاہتی ہے تاہم اب تک سربراہ اور مشیروں کے جتنے بھی بیانات سامنے آئے ہیں وہ بھارت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ عوامی دباؤ ہے۔ عبوری حکومت بھارت نوازی کے الزام سے بھی بچنا چاہتی ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے رہنے والے عمومی طور پر جذباتی ہیں چنانچہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چند ماہ گزرنے اور عوام کے خیال میں خاطر خواہ کام نہ ہونے پر اسے مخالف مظاہروں کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔
بھارت اور بنگلہ دیش کے تناؤ کی موجودہ صورتحال جاننے کے لیے گزشتہ چند دنوں کی خبریں بھی پڑھنی ضروری ہیں۔ ہندوستانی وزیر دفاع راج ناتھ نے حال ہی میں فوجی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش‘ روس‘ یوکرین وغیرہ کی صورتحال کا بغور جائزہ اور تجزیہ کرتے رہیں اور خود کو ممکنہ جنگوں کی صورتحال کے لیے چوکس رکھیں۔ یہ ایک طرح کی دھمکی بھی تھی۔ بنگلہ دیش کے مشیر امورِ خارجہ نے کہا کہ مجھے اس بیان پر حیرت ہے کہ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ حسینہ واجد کی حوالگی کے سلسلے کے بیانات کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں جبکہ بھارتی وزیر خارجہ نے حوالگی سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ہم میڈیا کے ذریعے نہیں بلکہ حکومتوں کے اپنے روابط کے ذریعے کسی معاملے کو دیکھتے ہیں۔ میں بتا چکا ہوں کہ ہلسا مچھلی کی دُرگا پوجا کے موقع پر ہندوستان کو برآمد پر پابندی کو بھی اسی تناؤ کے حوالے سے دیکھا گیا ہے۔ ایک معاملہ ہندو اقلیتوں کی بنگلہ دیش میں حفاظت پر ہے۔مودی نے خود بھی ڈاکٹر محمد یونس سے ان کے تحفظ کی یقین دہانی مانگی تھی۔ اگرچہ بی بی سی اور الجزیرہ ان بھارتی رپورٹس کا پول کھول چکے ہیں جن میں ہندو اقلیتوں پر جبر‘ گھر جلانے اور جان سے مار دینے کا بہت شور مچایا گیا تھا۔ حقیقت یہی ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں۔دوسری طرف خود ہندوستان میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور مسیحیوں پر جو جبر اور زبردستی کی جارہی ہے اور جو تمام عالمی میڈیا میں رپورٹ ہوتی رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے مودی کا یہ کہنے کا منہ نہیں ہے۔ میں بنگلہ دیش کی صورتحال کے حوالے سے ہندوستان کے معتبر ماہرینِ خارجہ امور کا ایک ٹاک شو دیکھ رہا تھاجس میں شیو شنکر مینن‘ ٹی سی اے راگھوان جیسے قابل لوگ موجود تھے۔ شنکر مینن سیکرٹری خارجہ بھی رہے ہیں اورنیشنل سکیورٹی ایڈوائزر بھی۔ یہ دونوں بیوروکریٹ پاکستان میں ہائی کمشنر بھی رہے ہیں۔ ٹی سی اے راگھوان عربی‘ فارسی دان بھی ہیں۔ ٹاک شو کے تمام شرکانے سرکاری پالیسیوں پر تنقید کی اور اس طرف بھی اشارہ کیا کہ خود ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک ہے اس میں مودی سرکار کیسے کسی حکومت کو کچھ کہہ سکتی ہے۔ انہوں نے کھل کر کہا کہ ہندوستان میں داخلہ اور خارجہ پالیسی انتخابات جیتنے کے لیے بنائی جاتی ہیں اور ان کے نتائج جلد ہی سامنے آنے لگتے ہیں۔لیکن سب کچھ ہندوستان کے بس میں نہیں ہے۔ نفرت کی جو لہر اس وقت بنگلہ دیشی عوام میں ہے اس کے تحت عبوری حکومت اس کے خلاف نہیں جاسکتی۔یہ لہر بھی ہر سال اونچی سے اونچی ہوتی گئی ہے۔یاد کیجیے کہ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے 2011ء میں اخبارات کے ایڈیٹرز سے کیاکہا تھا؟انہوں نے کہا تھا کہ ''کم از کم 25 فیصد بنگلہ دیش بھارت مخالف ہے۔ وہ جماعت اسلامی کے حامی ہیں اور آئی ایس آئی کے قبضے میں ہیں‘‘۔منموہن سنگھ کے اس بیان پر کافی شور مچا تھا اور بنگلہ دیش میں بھی اس پر ردِ عمل آیا تھا۔ اسی سے اندازہ کرلیں کہ یہ 13 سال پہلے کی صورتحال تھی۔
بنگلہ دیش اور بھارت دونوں کے ہاتھ ایک دوسرے کے ساتھ پھنسے ہوئے ہیں۔ دونوں کے لیے ایک دوسرے سے جدا ہونا بہت مسائل پیدا کرتا ہے۔ بہرحال اس وقت یہ ہے کہ مشرقی بنگال اور مغربی بنگال دونوں کے مکین ایک زبان اور ایک نسل ہونے کے باوجود مذہبی اور قومی بنیادوں پر ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا ہیں۔ اور تناؤ جلد ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔(ختم)