"SUC" (space) message & send to 7575

اپنے شہزادوں کے ہار دوسروں کے گلے میں؟

نہ کرو یار! بس کردو۔ بہت دن سے مسلسل دیکھ رہا ہوں کہ حالیہ پاک بھارت چار روزہ جنگ کی فتح کا سہرا ٹیکنالوجی کے سر باندھا جا رہا ہے۔ غیرملکی مبصرین تو خیر اس میں پیش پیش ہیں ہی‘ کچھ پاکستانی بھی دیکھا دیکھی شامل ہو چکے۔ ''فلاں ملک‘ فلاں جہاز‘ فلاں میزائل‘ فلاں ٹیکنالوجی۔ فلاں ملک کی ٹیکنالوجی پر فلاں ملک غالب آ گیا۔ یہ مقابلہ پاک بھارت کا تھا ہی نہیں‘ یہ تو مغربی ہتھیاروں کا مشرقی ٹیکنالوجی سے مقابلہ تھا۔ یہ تو دراصل فلاں مشرقی ملک کی کوشش تھی کہ اس کے میزائل اور جہاز حقیقی جنگ میں آزما لیے جائیں۔ یہ تو امریکہ کی چھیڑی ہوئی جنگ تھی کہ یورپ کی جنگی طاقت کا چینی طاقت سے موازانہ کیا جائے۔ یہ پاک بھارت جنگ تھوڑی تھی۔ یہ کسی کی جیت‘ کسی کی ہار تھوڑی ہے‘‘۔ توبہ ہے یارو! بس کر دو ۔بہت ہو گیا۔
یہ ٹھیک ہے کہ جدید جے 10سی چینی جہاز نہ ہوتے تو پاکستان دفاعی لحاظ سے کمزور ہوتا۔ یہ درست ہے کہ پی ایل 15میزائل سے پاکستان ایئر فورس کو پہلے وار کر سکنے کی صلاحیت حاصل ہوئی۔ یہ بجا ہے کہ چینی ایئر ڈیفنس سسٹم سے ہماری فضائیں بہت حد تک محفوظ ہوئیں۔ لیکن یہ تو بندوق کی بات ہے نا۔ بندوق کے پیچھے بیٹھے ہوئے آدمی کی بات کیوں نہیں کرتے۔ وہ آدمی جو بندوق کا رُخ دشمن کی طرف کرتا ہے‘ نشانہ سادھتا ہے اور لبلبی دباتا ہے۔ تم بندوق کے گلے میں ہار ڈالتے ہو اور اس آدمی کو نظر انداز کرتے ہو جس نے بندوق اٹھائی ہوئی ہے۔ ٹیکنالوجی میں کیا فرانسیسی رافیل طیارہ کم تھا؟ وہ تو دنیا کا بہترین طیارہ مانا جاتا ہے۔ کیا روسی سخوئی ایس یو 30 کمتر ٹیکنالوجی کا جہاز ہے؟ وہ جہاز جو 271کی تعداد میں بھارتی فضائی بیڑے میں شامل ہے اور اس کی جدید طاقت میں سب سے بڑا ہوائی بیڑا ہے۔ انڈین ایئر فورس پروفیشنل فضائیہ ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں وہ یہ جہاز کیوں خریدتی اگر یہ بہترین جہاز نہ ہوتا۔ ان کے پاس جدید ترین میزائل اور بم بھی تھے۔ ٹھیک ٹھیک نشانہ لگانے والے۔ اس طاقت اور اس ٹیکنالوجی پر اگر بھارت کو گھمنڈ تھا تو اس کا جواز تھا۔ یہ طاقت دنیا میں کتنے ملکوں کے پاس ہے؟ کتنے ملکوں کے پاس؟
لیکن اس سوال سے کئی سوال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جب امریکہ نے ویتنام پر حملہ کیا تو اس جیسی طاقت کتنے ملکوں کے پاس تھی؟ فضائی‘ بری‘ بحری طاقت۔ جدید ترین اسلحے اور ٹیکنالوجی کی طاقت۔ ایسی عددی برتری جس کا کوئی تناسب ہی نہ بنے۔ یہ تو ہاتھی اور ہرن کے بچے کا مقابلہ تھا۔ لیکن ہوا کیا؟ جب 20 سال کے بعد 1975ء میں جنگ ختم ہوئی تو 58 ہزار 220 امریکی فوجی مارے جا چکے تھے۔ بیشک ویتنام کے گیارہ لاکھ ویت کانگ گوریلے مارے گئے‘ بیس لاکھ عام شہری جنگ کی نذر ہوئے لیکن 58 ہزار امریکی ماؤں کی چیخیں لاکھوں ویتنامی ماؤں کی آہ و بکا سے کہیں زیادہ بلند تھیں۔ برتر ٹیکنالوجی والا ملک سرنگیں بنا کر رہنے والوں سے شکست کھا گیا۔ پھر جب دنیا کی سب سے بڑی دو طاقتوں میں سے ایک یعنی روس افغانستان پر حملہ آور ہوا تو ٹیکنالوجی کس کے پاس تھی؟ جنگی برتری کس کو تھی؟ عددی فوقیت کس کو حاصل تھی۔ کیا یاد ہے کہ 1989ء میں جب افغانستان سے روس اپنے زخم چاٹتا نکلا تو 15 ہزار مائیں روس کی سڑکوں اور گلیوں میں بین کررہی تھیں؟
آج جب یہ کالم لکھ رہا ہوں‘ یومِ تکبیر ہے۔ 27 سال پہلے ہم مسلم دنیا کی پہلی جوہری طاقت بنے تھے۔ دنیا کے اُن سات گنے چنے ملکوں میں شامل ہوئے تھے جو جوہری ہتھیاروں کے حامل ہیں۔ یہ بم ہمیں کسی اورملک نے بنا کر دیے تھے؟ کسی اورنے اس کا طریقہ بتایا تھا؟ یہ ٹیکنالوجی ہمیں کسی نے مفت یا قیمتاً دی تھی؟ کسی مشرقی یا مغربی ملک نے؟ کسی نے ہمیں یورینیم افزودہ کرنے کا پلانٹ لے کر دیا تھا؟ یاد کیجئے ہمیں تو فرانس نے ری پروسیسنگ پلانٹ بھی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ہمیں تو امریکیوں نے سخت دھمکیاں دی تھیں کہ خبردار! جو تم نے ایٹم بم بنایا‘ تہس نہس کرکے رکھ دیں گے تمہیں۔ ہمارے کہوٹہ پلانٹ پر تو اسرائیلی طیارے نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ ہماری بغل میں تو ایک کینہ پرور ہمسایہ ہمیں ختم کرنے کیلئے بیٹھا تھا۔ ہم نے ایٹم بم بنا لیا لیکن یہ جرم کبھی معاف ہوا؟ غیرملکیوں سے تو کیا گلہ‘ انہیں کیا پتا اس قوم نے کیسی روکھی سوکھی کھا کر ایٹم بم بنایا تھا۔ امریکی‘ یورپی تو بس یہی کہتے رہے ہیں اور کہتے رہیں گے کہ پاکستان نے فلاں جگہ سے ڈیزائن اٹھایا تھا‘ فلاں جگہ سے پرزے حاصل کیے تھے۔ جانتے تو ہم ہیں نا! خبر تو پاکستانیوں کو ہے نا کہ ہم نے کیسی مخالفتیں جھیل کر‘ کیسے دکھ اٹھا کر‘ کیسے پیٹ پر پتھر باندھ کر یہ بم حاصل کیا تھا۔ اگر مانگے تانگے کی ٹیکنالوجی سے جوہری طاقت بننا اتنا ہی آسان تھا تو یوکرین کیوں نہیں بن جاتا‘ جو روس سے مسلسل پٹ رہا ہے۔بات صرف مال و دولت کی ہوتی تو متمول ترین عرب ملک جوہری طاقت بن چکے ہوتے۔ اپنے گرد و پیش میں دیکھ لیجئے‘ ایران جوہری طاقت بننے کیلئے وہ کچھ بھگت رہا ہے جو ہم نے پہلے اسی کی دہائی میں بھگتا تھا۔ اور پھر ایٹمی دھماکوں کے بعد بھگتا تھا۔ حوصلہ چاہیے حضور‘ حوصلہ۔ صبر چاہیے جناب صبر۔ اور پاکستان ایمان‘ حوصلے اور صبر تینوں کا مظاہرہ کرکے جوہری طاقت بنا تھا۔
ایمان‘ صبر اور حوصلہ۔ یہ ہے اصل ٹیکنالوجی! اسی ٹیکنالوجی کا مظاہرہ پاکستان نے اس چار روزہ جنگ میں کیا تھا۔ کیسے لوگ ہیں جو جہازوں کو سراہتے اور پائلٹ کو نظر انداز کرتے ہیں۔ کیسے تجزیہ کار ہیں جو اس جنگ کے نتیجے میں سائبر جنگ کی انتہائی اہمیت پر زور دیتے ہیں اور بیس سے تیس سال کے ان نوجوان شہزادوں کو بھول جاتے ہیں جنہوں نے دنیا کو پہلی بار دکھایا کہ سائبر جنگ حقیقی دنیا میں کس طرح لڑی جاتی ہے‘ کس طرح دشمن کو مفلوج کرکے رکھ دیا جاتا ہے۔ میں روز وہ وڈیوز اور خبریں دیکھ رہا ہوں جن میں اس جنگ کے صرف ایک پہلو پر بات ہوتی ہے اور دوسرے پہلو کو مکمل نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ان میں غالب اکثریت غیرملکی تجزیہ کاروں کی ہے‘ لیکن چند اپنے بھی شامل ہیں۔ایک تیسر ا پہلو بھی مکمل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
یہ جنگ جو ہمارے شہزادوں نے جیتی‘ اس میں کتنی بیرونی ٹیکنالوجی شامل تھی اور کتنی خود حاصل کردہ؟ ہمارے حصے کی داد کہاں ہے؟ جے 10سی بیشک خریدا ہوا جہاز تھا لیکن یہ جہاز بروقت خریدنے کا فیصلہ کس نے کیا تھا؟ کیا یہ فیصلہ کسی اور نے کیا تھا؟ اس فیصلے کی داد کیوں نہیں دیتے۔ پھر جے ایف تھنڈر بلاک تھری تو پاکستان ساختہ جہاز ہے جو ہم دوسرے ملکوں کو فروخت بھی کرتے ہیں۔ یہ جہاز بنانے کے فیصلہ سازوں کو داد کیوں نہیں دیتے۔ پی ایل 15 بیشک خریدا ہوا میزائل ہے لیکن اُن میزائلوں کی بات کیوں نہیں ہوتی جو پاکستان نے خود بنائے ہیں اور نہایت کامیاب ہیں۔ میں ایئر مارشل (ر) ارشد ملک کی گفتگو سن رہا تھا۔ ایئر مارشل صاحب جے ایف تھنڈر کے پروجیکٹ میں شامل رہے اورکامرہ ایرو ناٹیکل کمپلیکس کی سربراہی بھی کر چکے ہیں۔ جناب ارشد ملک کی گفتگو میں یہ بات ہمیشہ بہت اچھی لگتی ہے کہ وہ پاک فضائیہ کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے منکسر المزاج رہتے ہوئے اللہ کی مہربانیوں کا بار بار ذکر کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ پاک فضائیہ کی دفاعی صلاحیتیں بیشتر خانہ ساز ہیں‘ جن میں سائبر ٹیکنالوجی بھی شامل ہے۔ انہوں نے ایک اور چونکا دینے والا انکشاف یہ کیا کہ چھ اور سات کی درمیانی رات سات بھارتی طیارے تو گرانا یقینی ہے لیکن غالب امکان یہ بھی ہے کہ بھارت کے کئی اور جہاز بھی جنگ میں بری طرح مجروح ہوئے‘ تاہم وہ اپنے ہوائی اڈے پہنچنے میں کامیاب رہے۔ یہ بات اضافی ہے‘ تاہم اگر درست ہے تو یہ بات بھی دعووں میں شامل ہونی چاہیے۔
اپنے شہزادوں کے ہار غیروں کو پہناتے ہو۔ بندوق کے گلے میں ہار ڈالتے ہو اور اس آدمی کو نظرا نداز کرتے ہو جس نے بندوق اٹھائی ہوئی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں