"SUC" (space) message & send to 7575

چین کا جرم کیا ہے؟

دنیا میں جدھر دیکھیے ایک ہی بات چل رہی ہے اور وہ یہ کہ اب دنیا میں دو بڑی طاقتیں ہیں‘ امریکہ اور چین‘ اور اب دونوں میں پنجہ کشی چل رہی ہے۔ دنیا کے دو بڑے پہلوانوں میں ایک تو پرانا اور جانا مانا پہلوان امریکہ ہے۔ دوسرا پہلوان یعنی چین نیا اُبھرا ہے اور اس کی طاقت پرانے پہلوان کو غصہ بھی دلاتی ہے اور اسے فکر مند بھی کر رہی ہے۔ تیسرے بڑے پہلوان روس کو کئی جگہ زخم لگے ہیں اور اب وہ برابری کی سطح پر نہیں تو اس نے حل یہ نکالا ہے کہ نئے پہلوان سے ہاتھ ملا کر اس کی حمایت شروع کردی ہے۔ مجھے اس سوال کا جواب کبھی نہیں مل سکا اور آج بھی میں اسکی تلاش میں ہوں کہ چین نے ایسا کیا کِیا ہے جس کی وجہ سے امریکہ اب اس کا مخالف ہے اور اسے پچھاڑنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتا رہتا ہے؟ چین کا جرم ہے کیا؟
اگر آپ درست جواب کی تلاش میں ہیں تو وہ ایک ہی ہے۔ امریکہ دنیا میں اپنی واحد سپر طاقت ہونے کی پوزیشن سے محروم نہیں ہونا چاہتا۔ وہ عالمی ممالک پر اپنے تسلط میں کمی نہیں دیکھنا چاہتا اور ہرگز برداشت نہیں کرتا کہ دنیا کے ممالک اس کی سرداری کے دائرے سے باہر نکلیں۔ اس ایک جواب کے سوا آپ کو کوئی دوسرا جواب نہیں مل سکتا۔ امریکہ کو یہ سوچ بدلنی چاہیے کہ یہ خود امریکی فائدے میں ہو گی۔ ماضی میں روس کا معاملہ مختلف تھا۔ وہاں بھی جنگ سرداری کی تھی‘ لیکن اس کیساتھ اضافہ یہ بھی تھا کہ سوشلسٹ اور سرمایہ دارانہ نظاموں کی انتہاؤں پر پہنچے ہوئے یہ ملک اپنے اپنے نظریات دنیا پر لاگو کرنا چاہتے تھے۔ نظریاتی بنیادوں پر ہی روس نے سوشلسٹ بلاک قائم کیے ہوئے تھے۔ ان ملکوں میں وہی نظام تھا جو روس میں موجود ہے۔ روس میں کٹر سوشلسٹ نظریات کے سرخیل نہ صرف موجود تھے بلکہ وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنے نظریات کو مسلسل دنیا میں پھیلتے دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ بات امریکہ اور اس کے حلیف سرمایہ دارانہ نظام کے ممالک کو قبول نہیں تھی اور یہ ممالک مغربی دنیا میں تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اس کشمکش میں امریکہ نے مختلف دفاعی معاہدوں مثلاً سیٹو اور سینٹو کے ذریعے اپنے پروں کے نیچے چھوٹے ملک اکٹھے کر لیے تھے۔ ایک طاقت کا حامی ہو جانا دوسرے کی مخالفت تھا اور امریکی کیمپ کے ملک کو روسی کیمپ میں مخالف نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان متضاد نظاموں کا ایک رُخ مذہب‘ روایتی اقدار اور ثقافت بھی تھا۔ دنیا میں عام طور پر یہ تاثر تھا کہ روس کا سخت گیر نظام اسکے زیر اثر ملکوں میں بھی مذہبی‘ ثقافتی اور روایتی اقدار کی آزادی قائم رہنے نہیں دے گا۔ زبان بندی کا کڑا نظام جو روس میں تھا‘ اسکے حلیف ممالک میں بھی قائم ہوجائے گا۔ یہ بات غلط بھی نہیں تھی‘ لیکن مغربی ممالک نے اس منفی رُخ کو بہت مبالغے کیساتھ بڑھا چڑھا کر ایک عفریت کی شکل میں پیش کیا۔ دنیا کے مشرقی ممالک جن میں برصغیر بھی تھا‘ اپنے مذاہب‘ روایت اور ثقافت کے خوگر تھے اور روسی حلیف بننے کی صورت میں ان سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں تھے‘ چنانچہ جغرافیائی قربت کے باوجود مشرقی ممالک نے روس سے فاصلہ رکھا۔ وہ روسی طاقت سے ڈرتے بھی تھے لیکن اس کے قریب جانے سے بھی خائف تھے۔ پاکستان بھی‘ جو روس کے قریبی ہمسایوں میں شامل تھا‘ اسی کشمکش کا شکار ہوا۔ اور بالآخر امریکہ کو روس پر ترجیح دے کر امریکی اتحادی بنا۔ ستر کی دہائی میں جب روس اور امریکہ کی شدید سرد جنگ جاری تھی‘ امریکہ نے روس کو شکست دینے کیلئے چین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا اور پاکستان نے اس رابطے کے سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ الگ بات کہ اتحادی ہونے کے باوجود امریکہ خاموشی سے مشرقی پاکستان کو الگ ہوتے دیکھتا رہا۔ اور پاکستان کو سب سے بڑا زخم لگنے دیا۔ اور یہ پہلی امریکی بے وفائی نہیں تھی۔
ماضی سے حال کی طرف سفر کرتے ہیں۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہیں کہ عالمی قوانین اور اخلاقیات کی رو سے چین نے ایسا کیا کِیا ہے کہ اب امریکہ روس کو بھول کر اسکے درپے ہے؟ کیا چین نے کسی ملک کی سرحدوں پر حملہ کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ 1962ء کی ہند چینی جنگ کے بعد سے چین کسی لڑائی میں اُلجھا ہی نہیں۔ چنانچہ اس 63سالہ تاریخ میں چین دنیا کے کسی بھی خطے میں جنگ میں براہِ راست شامل نہیں ہوا۔ اسلئے اس پر یہ الزام بھی نہیں لگایا جا سکتا کہ اس نے فلاں ملک کی سرحدیں پامال کی ہیں۔ اگلی بات نظریات کی ہے۔ چین اپنے کمیونسٹ نظام پر عمل پیرا سہی لیکن اس نظام میں گزشتہ عشروں میں بے شمار تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اور اسکی سختیوں کو اندر سے بدلا بھی گیا ہے۔ کروڑوں چینیوں کو غربت کی نچلی لکیر سے اٹھا کر اوپر لے جایا گیا ہے‘ معاشرے میں بھی وہ بے چینی نہیں پائی جاتی جو پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں دیکھی جا سکتی تھی۔ اس لیے یہ جواز بھی پیش نہیں کیا جا سکتا کہ چین اپنے شہریوں اور عام طبقات کو ظلم کی چکی میں پیس رہا ہے۔ امریکہ اور مغرب کے سب سے بڑے جواز اور ذہنوں میں موجود خطرے کو بھی چین نے بہت پہلے بھانپ لیا تھا اور وہ یہ کہ چین اپنے کمیونسٹ نظام کو دنیا میں پھیلائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ چین نے نظریاتی جنگ اور اپنے نظام کی توسیع اس طرح کی ہی نہیں جیسی کسی زمانے میں روس نے کی تھی۔ چین جانتا ہے کہ نظریاتی پھیلاؤ پر اقدامات دنیا کے ممالک کو خوف زدہ کریں گے۔ چنانچہ چین نے دنیا کے تمام ممالک کو اپنا حلیف بناتے ہوئے انہیں ان کے مذاہب‘ روایات اور اقدار میں آزاد رہنے دیا۔ اس بات نے چین کو بے حد فائدہ پہنچایا۔ ایک طرف دنیا کے ممالک بے خوف ہو کر اس کے زیر اثر آتے چلے گئے اور دوسری طرف امریکہ سمیت سرمایہ دارانہ نظام کے ممالک کو یہ موقع نہیں مل سکا کہ وہ چین سے دنیا کو خوف زدہ کر سکے۔ نظریات کی برآمد سے گریز کا یہ نکتہ روس کو بھی دیر سے سہی‘ لیکن سمجھ آ گیا اور اب آپ دیکھتے ہیں کہ روس کئی دہائیوں سے اپنے نظریات کی برآمد نہیں کر رہا۔ چنانچہ مغرب کو چین مخالفت کا یہ جواز بھی نہیں مل سکا۔
جس پالیسی نے چین کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچایا وہ عالمی طور پر تمام ممالک کی برابری اور باہمی فلاح و بہبود کا نظریہ تھا۔ یہ دنیا میں امریکہ اور مغرب کے اس نظریے پر کاری ضرب تھی جس کے تحت کچھ ممالک چھوٹے ہیں اور کچھ بڑے۔ دونوں میں برابری نہیں ہے۔ چین کے برابری کے نظریے نے اسے بے شمار ممالک کے قریب لانے میں نہایت مدد کی۔ چینی بیلٹ اینڈ روڈ کے نہایت دور رس اقدام نے چھوٹے اور غریب ملکوں میں فلاح و بہبودکے وہ دروازے کھول دیے جس کیلئے وہ کسی معجزے کا انتظار کرتے تھے۔ ان کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ وہ اپنی سڑکیں‘ ڈیم‘ کارخانے اور دیگر نظام بنا سکیں۔ چین نے بے شمار ممالک میں انفرا سٹرکچر بنانے کا کام اپنے ذمے لے کر ان ممالک کی تقدیر بدل دی۔ قدرتی طور پر ان کی رضا مندی کے ساتھ اہم بندرگاہوں‘ اہم راستوں تک چین پہنچ گیا۔ یہ ایسا کام تھا جس کی مخالفت مغربی ممالک اور امریکہ نہیں کر سکتے تھے حالانکہ وہ اس کے نتائج اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔ اس کی مخالفت اخلاقی لحاظ سے مغرب کو مہنگی پڑتی۔ آ پ یہ دیکھیے کہ 80سے زیادہ ممالک میں اس وقت امریکہ کے 750 فوجی اڈے موجود ہیں۔ روس کے 21سے زائد فوجی اڈے دنیا میں بتائے جاتے ہیں۔ جبکہ کچھ جگہوں پر ہوائی اڈوں کو استعمال کرنے کے معاہدے ضرور ہیں لیکن چین کا کوئی بھی فوجی اڈہ دنیا بھر میں موجود نہیں ہے۔ اس کے باوجود چین کا اثر و رسوخ اہم ترین ممالک میں امریکہ سے زیادہ ہو چکا ہے۔ اور کئی اہم بندرگاہیں اور بحری راستے چین کے زیر انتظام ہیں۔ تیسری طرف چین نے صنعت اور ٹیکنالوجی میں خاموشی سے کام جاری رکھا اور اب 2025ء میں دنیا کو حیران کر رہا ہے۔
خلاصہ یہ کہ چین نے امریکہ اور مغرب کو گزشتہ 50سال میں کوئی اخلاقی جواز فراہم نہیں کیا کہ وہ دنیا کو اس کے جرم دکھا سکیں۔ اور یہ چین کی بہت دانش مندانہ حکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تو چین کا جرم ہے کیا؟ کیا آپ اس واحد جواب کے سوا کوئی جواب ڈھونڈ سکتے ہیں؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں