"SUC" (space) message & send to 7575

گورا لاہور …(2)

انگریز تاجروں نے برصغیر میں قدم رکھا اور پھر ریاستوں اور بادشاہتوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ 1849ء میں انہوں نے سکھوں سے تختِ لاہور چھینا اور 1857ء میں تختِ دہلی پر بھی براجمان ہو گئے۔ لاہور میں فصیل کے باہر انہوں نے کچھ فاصلے پر ایک جدید لاہور کی بنیادیں ڈالیں۔ لگ بھگ سات کلو میٹر لمبی مال روڈ بنیادی طور پر میاں میر کنٹونمنٹ کو انارکلی بازار سے منسلک کرنے کیلئے بنائی گئی تھی کیونکہ قدیم شہر کی آب و ہوا صحت کیلئے مضر سمجھی گئی اس لیے فوجی دستے میاں میر اور شالامار میں رکھے گئے تھے۔ 1851ء میں اس کی بنیاد رکھی گئی اور سول انجینئر لیفٹیننٹ کرنل نیپئر اس کے نقشے اور تعمیر کا ذمہ دار تھا۔ طے ہوا کہ یہ شہر کی مرکزی سڑک ہو گی۔ اسی کے دائیں بائیں گوروں نے اپنے مذہبی‘ انتظامی‘ عدالتی‘ تعلیمی اور تفریحی ادارے قائم کیے۔ یہیں گورنر ہاؤس بھی بنایا گیا۔ اس کے دائیں بائیں پھوٹنے والی سڑکیں بھی اسی نئے لاہور کا حصہ بنیں۔ لاہور ریلوے سٹیشن 1859ء میں قائم ہوا تو اسے سڑکوں کے ذریعے مال روڈ سے بھی ملایا گیا۔ اس نئے شہر سے پہلے اس سارے علاقے میں کون سے گاؤں اورکون سی آبادیاں تھیں‘ یہ تحقیق طلب کام ہے‘ فی الحال اسے چھوڑتے ہیں اور ان سڑکوں پر توجہ رکھتے ہیں جو انگریز ناموں سے منسوب کی گئیں۔ اس زمانے کی چیف کورٹ آف پنجاب (اب لاہور ہائیکورٹ) کے پہلو میں فین روڈ ہے۔ یہ سر ہنری فین (Henry Fane)کے نام سے منسوب ہے جو برٹش ہندوستان میں آئر لینڈ سے تعلق رکھنے والا کمانڈر انچیف تھا۔ فین روڈ ہائیکورٹ کی بغل میں ہونے کی وجہ سے شروع ہی سے وکلا اور ججز کی رہائش گاہوں اور چیمبرز کا مرکز تھی۔ ہائیکورٹ کے عقب میں ایک چھوٹی سڑک اب بھی ٹرنر روڈ کہلاتی ہے جو فین روڈ سے جڑ جاتی ہے۔ یہ الوائن ٹرنر (Alweyn Turner)کے نام سے منسوب ہے جو برٹش دور کا ایک نامور وکیل اور جج تھا۔ مال روڈ پر دوبارہ آئیں اور رخ اسمبلی ہال چوک کی طرف ہو تو ریگل پر بائیں ہاتھ ہالز روڈ آتی ہے جو اَب الیکٹرانکس کی بڑی مارکیٹ ہے۔ یہاں چار بڑے ہال تھے جو نمائشوں اور اجتماعات کیلئے استعمال ہوتے تھے۔ اسی لیے اس کا نام ہالز روڈ ہے۔ یہ ہال وقت کے ساتھ ختم ہوکر کمرشل عمارتوں میں تبدیل ہو چکے۔ ہالز روڈ کی بغل میں بیڈن روڈ ہے جو مال روڈ کو میکلوڈ روڈ سے ملاتی ہے۔ اس کا نام Sir Cecil Beadon کے نام پر رکھا گیا جو بنگال کا لیفٹیننٹ گورنر تھا اور جس نے بطور کمانڈر 1857ء کی بغاوت کو فرو کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ کہتے ہیں کہ سیسل بیڈن پنجابی بالکل مقامیوں کی طرح بولتا تھا اور لاہور کے ایک مشہور ہوٹل کے قیام میں بھی اس کا کردار تھا۔ مال روڈ پر چیئرنگ کراس‘ جو اَب فیصل چوک ہے‘ لندن میں واقع چیئرنگ کراس کی طرز پر بنایا گیا تھا اور نام بھی یہی رکھا گیا تھا۔ یہاں ملکہ وکٹوریہ کا مجسمہ بھی بنایا گیا تھا۔ چیئرنگ کراس کے سامنے قرطبہ چوک جانے والی سڑک بظاہر اسی مجسمے کی رعایت سے کوئنز روڈ کہلاتی ہے۔ یہاں برطانوی افسروں اور امرا کی رہائش گاہیں تھیں۔
جی پی او لاہور اور لاہور ہائیکورٹ کے مقابل مال روڈ سے ایک اور سڑک پھوٹتی ہے جسے بظاہر ریلوے سٹیشن سے ملانے کیلئے بنایا گیا تھا۔ اس سڑک کا نام میکلوڈ روڈ ہے۔ یہ نام بھی جلد لاہوریوں کی زبانوں پر چڑھ گیا۔ مجھے بچپن میں تانگوں کے کوچوان ''میکلوڈ روڈ‘ ٹیشن‘‘ کی آوازیں لگاتے اب بھی یاد ہیں۔ یہ سڑک سر ڈونالڈ فرائل میکلوڈ کے نام سے منسوب کی گئی تھی۔ کچھ مدت پہلے اس کا نام بھی بدلا گیا لیکن لوگ مانوس نہ ہو سکے۔ ڈونلڈ میکلوڈ کا آبائی تعلق ایڈنبرا‘ سکاٹ لینڈ سے تھا جس کی پیدائش فورٹ ولیم‘ کلکتہ میں ہوئی تھی۔ تعلیم کے بعد وہ برٹش انتظامی مشینری کا حصہ بنا۔ 1854ء میں وہ جب جالندھر کا کمشنر تھا تو اس پر کئی قسم کی بد عنوانیوں کے الزامات بھی لگے لیکن 1857ء کی بغاوت میں اس کے اہم کردار کے باعث اسے یہ داغ دھونے اور ترقی کرنے کا موقع مل گیا اور لیفٹیننٹ گورنر پنجاب بنا دیا گیا۔ اس نے لاہور میں کافی کام کیے۔ اورینٹل کالج کی داغ بیل بھی ڈالی اور اس کا بڑا کتب خانہ بھی اس کی موت کے بعد پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری کا حصہ بنا۔ لاہور ریلوے سٹیشن بنانے میں بھی اس کا اہم حصہ تھا اور بظاہر اسی لیے یہ سڑک اس کے نام سے منسوب ہوئی۔ میکلوڈ روڈ پر جہاں لاہور ہوٹل ہے‘ ایک سڑک نکلسن روڈ اس سے پھوٹتی ہے جو قلعہ گجر سنگھ کی طرف سے ایمپریس روڈ جاتی ہے۔ اس وقت ایک ٹیلے پر باقاعدہ ایک قلعہ‘ گجر سنگھ تھا۔ نکلسن روڈ‘ جون نکلسن کے نام سے منسوب ہوئی جو ایسٹ انڈیا کمپنی کا فوجی افسر اور آئرش تھا۔ نکلسن 1857ء کی بغاوت میں دہلی میں مارا گیا تھا۔ نکلسن روڈ پر معروف سیاستدان نوابزادہ نصر اللہ خان بھی رہتے تھے۔ ایمپریس روڈ ملکہ وکٹوریہ کے نام سے منسوب تھی اور یہ شملہ پہاڑی سے ریلوے سٹیشن کو جانے والی سڑک ہے۔ اسی پر ریلوے ہیڈ کوارٹرز بھی قائم کیے گئے تھے۔ ایجرٹن روڈ لیفٹیننٹ گورنر پنجاب سر رابرٹ ایجرٹن کے نام پر تھی۔ یہ بھی گورے دور میں اہم سڑک تھی کیونکہ گورنر ہاؤس اور مال روڈ کے بالکل قریب تھی۔ ضمناً بتاتا چلوں کہ اسی روڈ پر واقع فلیٹیز ہوٹل ایک اطالوی تاجر انڈریا فلیٹی نے 1880ء میں قائم کیا تھا۔ ان دنوں ایسے ہوٹل کی گوروں کو سخت ضرورت تھی۔ قائداعظم محمد علی جناح سمیت نامور ترین افراد مثلاً مارلن برانڈو‘ ایوا گارڈنر بھی یہاں مقیم رہے ہیں۔
ڈیوس روڈ شملہ پہاڑی سے اَپر مال روڈ کو ملاتی ہے۔ یہ لیفٹیننٹ گورنر پنجاب سر رابرٹ ہنری ڈیوس کے نام پر تھی جو 1871ء میں گورنر پنجاب تھا۔ اب اس سڑک کا نام سر آغا خان (سوئم) روڈ ہے۔ ہنری ڈیوس ویلز سے تھا اور اس نے لاہور چڑیا گھر اور میو سکول آف آرٹس (موجودہ این سی اے) کا ادارہ قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ جو 'میو‘ نام ہے یہ سر لارڈ میو کا ہے جو 1869ء سے 1872ء تک وائسرائے یعنی گورنر جنرل ہندوستان رہا۔ میو ہسپتال بھی اسی کے نام سے منسوب ہے‘ میو گارڈنز کی رہائشی آبادی بھی اور میو روڈ بھی‘ جو اَب علامہ اقبال روڈ کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔ میو روڈ ریلوے سٹیشن سے گڑھی شاہو اور نہر کو ملانے والی سڑک ہے۔ لارڈ میو کا اصل نام رچرڈ ساؤتھ ویل بورک تھا اور وہ آئر لینڈ کی میو ریاست کا چھٹا ایرل (Earl) تھا۔ انڈیمان کے دورے پر وہاں سزا کاٹنے والے ایک آفریدی پٹھان نے اسے قتل کرکے اس کے عہدے اور زندگی کا خاتمہ کیا تھا۔
تحریر کی گنجائش ختم ہورہی ہے لیکن کتنی ہی سڑکیں ابھی باقی ہیں۔ گنجان شہر میں بھی کئی نام ہیں۔ برطانوی فوجی چیمبرلین کے نام پر موجود سڑک‘ جو مسجد مائی لاڈو کو سرکلر روڈ سے ملاتی ہے‘ ڈپٹی کمشنر برانڈرتھ کے نام پر برانڈرتھ روڈ‘ سر رابرٹ منٹگمری (لیفٹیننٹ گورنر پنجاب) کے نام پر منٹگمری روڈ‘ کمشنر لاہور کے نام پر کوپر روڈ جہاں خواتین کا کالج اب بھی موجود ہے‘ چیف کمشنر پنجاب سر جون لارنس کے نام پر بنی سڑک‘ جو ریگل چوک مال روڈ سے چائنہ چوک کو ملاتی ہے اور جس پر لارنس کے نام کا لارنس گارڈن موجود ہے‘ ان اہم سڑکوں میں سے ہیں۔
ہم تو ان لوگوں کوخیر جانتے ہی نہیں لیکن آئر لینڈ‘ ویلز‘ انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ میں پھیلی ان ناموں کی موجود ہ نسلیں بھی نہ ان سڑکوں سے واقف ہوں گی نہ یہ جانتی ہوں گی کہ ان کے آباؤ اجداد نے کیا کردار ادا کیا تھا۔ آج ہم ان سڑکوں پر چلتے پھرتے ہیں جہاں شاید گوروں کے سوا کسی کا گزر نہیں تھا۔ ان کا بھی خیال یہی ہو گا کہ یہ زمین ان کی ہو چکی‘ وہ کبھی ہندوستان سے نہیں جائیں گے۔ لیکن سچ تو صرف ایک ہے ''زمین اللہ کی ہے۔ وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے عطا کردیتا ہے‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں