نبی اکرمﷺ کی عمر مبارک 20 برس کے لگ بھگ تھی‘ اور ابھی آپﷺ نے اعلانِ نبوت نہیں فرمایا تھا کہ جب قریش اور بنی قیس کے بیچ 590عیسوی میں ہونے والے ایک معاہدے (حلف الفضول) میں شرکت کی‘ جو بنیادی طور پر امن و امان کے قیام اور مظلوموں کی مدد کیلئے کیا گیا تھا۔ نبی کریمﷺ اس معاہدے پر بعد میں بھی فخر فرمایاکرتے تھے۔ فرمایا کہ اس معاہدے کے بدلے میں مجھے سرخ اونٹ بھی دیے جاتے تو میں نہ لیتا‘ اور اگر اب بھی شرکت کیلئے بلایا جائے تو میں اسے قبول کروں گا۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے آپﷺ نے کسی اور معاہدے کی کبھی اتنی تحسین نہیں فرمائی۔ آپﷺ امن اور صلح کے پیامبر تھے اور یہ معاہدہ بھی اس کا داعی تھا۔ گویا یہ بتا دیا گیا کہ قوموں کے درمیان کچھ معاہدے ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر قیمت سے بالا تر ہوتے ہیں۔
پاکستان اور سعودی عرب کے بیچ جو غیرمعمولی باہمی دفاعی معاہدہ‘ SMDAکے نام سے ہوا ہے‘ وہ بھی ہر قیمت سے بالا تر ہے۔ حرمین شریفین کا محافظ بلکہ دربان بن جانا اتنی بڑی سعادت ہے کہ اس کے بدلے میں سرخ اونٹ بھی قبول نہیں کیے جا سکتے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب دنیا تیزی سے ایک بڑی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تیزی سے دو گروہوں میں تقسیم ہو رہی ہے اور اس غیرمعمولی جنگ کا میدان تیار ہو رہا ہے جسے صحائف میں ملحمۃ الکبریٰ یا Armageddon کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مسلمان یقین رکھتے ہیں کہ اس دور میں حرمین پر دشمنوں کی طرف سے فوج کشی کی جائے گی اور یہ نہایت کڑا وقت ہوگا۔ اگر یہ وقت قریب ہے تب بھی‘ اور اگر اس میں بہت ماہ و سال باقی ہیں تب بھی‘ حرمین شریفین کی حفاظت ایک ایسا منصب ہے جس پر فخر اور ناز کیا جا سکتا ہے۔ ہم مسلمان تو اس پر بھی فخر کیا کرتے ہیں کہ انہیں حرمِ کعبہ اور حرم نبوی کی جاروب کشی کی سعادت ملی‘ تو اس تاریخی معاہدے پر کیوں ناز نہ کیا جائے کہ 57 مسلم ملکوں اور دو ارب کے لگ بھگ مسلمانوں میں پاکستان کو چنا گیا کہ وہ حرمین شریفین سمیت ارضِ مقدس کے دیگر مقامات کا دفاع کرے۔
لیکن یہ معاہدہ صرف دینی جذبے کے لحاظ ہی سے اہم نہیں‘ سعودی عرب پر اور خود پاکستان کیلئے اس کے بہت سے غیرمعمولی اثرات ہوں گے‘ اور دیگر عرب ممالک پر بھی۔ سعودی عرب کے اس معاہدے کے اثرات قطر اور یو اے ای پر لازماً پڑیں گے اور یہ اہم خلیجی ممالک‘ جو سعودی عرب کی نسبت کم تر دفاعی قوت رکھتے ہیں‘ ایسے ہی اہم فیصلے کرنے پر مجبور ہوں گے۔ بہت ممکن ہے کہ آئندہ کچھ عرصے میں اہم خلیجی ممالک کے ساتھ دیگر عرب ملکوں کو بھی پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے معاہدے کرنا پڑیں۔ نکالنے والا ہر شر میں سے بھی کوئی خیر کا پہلو نکال لیتا ہے۔ قطر پر اسرائیلی حملے کا ایک نتیجہ یہ نظر آتا ہے کہ ایک طرف تو گریٹر اسرائیل کا خوف عربوں کے ذہنوں میں راسخ ہو گیا اور انہیں اپنی اپنی سلامتی کی فکر زیادہ سنگین صورت میں لاحق ہو گئی۔ دوسرا یہ صاف نظر آنے لگا کہ امریکہ کو بحری اور زمینی اڈے دیے جانے کے باوجود اور یورپ کو خوش کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ قابلِ اعتبار نہیں ہیں۔ خاص طور پر اسرائیلی خطرے کی صورت میں۔ ایک خواب جس کے نشے میں عرب سوئے پڑے تھے‘ ایک چھناکے سے چکنا چور ہوا تو پہلی سنگین حقیقت یہ آشکار ہوئی کہ عرب ممالک خاص طور پر دولتمند ملک‘ مکمل غیر محفوظ ہیں۔ یخ بستہ فضا سے نکلتے ہی کڑی دھوپ اس طرح جسموں کو جھلسانے لگی کہ سائے کی تلاش پہلی ترجیح بن گئی۔ قطر پر اسرائیلی حملے سے پہلے بھی بڑے عرب ممالک میں بے چینی موجود تھی اور اسی عدم تحفظ نے انہیں امریکہ اور یورپ کی چھتری تلے جانے پر مجبور کیا تھا لیکن قطر پر حالیہ حملہ اور اس میں امریکی مدد اونٹ پر آخری تنکا تھا۔ نیتن یاہو کے اعلان نے مزید سراسیمگی پھیلا دی‘ جس میں اس حملے کے ذمہ داری نہ صرف قبول کی بلکہ اسے مکمل جائز بھی قرار دیا اور آئندہ بھی اپنے مخالفین پر حملوں کی دھمکیاں دیں۔ یہ صاف نظر آنے لگا کہ امریکہ یقین دہانیاں بے معنی ہیں اور اسرائیل کا ہر مخالف ملک جب تک بھرپور دفاعی طاقت نہیں رکھتا‘ مکمل غیرمحفوظ ہے۔ سعودی عرب‘ جس کا دفاعی بجٹ 78 ارب ڈالر سالانہ ہے اور وہ حالیہ کچھ سالوں میں امریکہ سے 110 ارب ڈالر کا دفاعی سامان خرید چکا ہے۔ یورپ سے خریداریاں الگ ہیں۔ لیکن حالت یہ ہے کہ امریکی کانگریس میں وہ دفاعی معاہدہ معلق ہے جس کے تحت امریکہ اور سعودی عرب ایک دفاعی بندھن میں بندھنے تھے۔ دونوں ملکوں کے درمیان اب تک کوئی دفاعی معاہدہ نہیں ہے۔ سنگین تریہ صورتحال سعودی عرب کو پاکستان سے فوری دفاعی معاہدے کی طرف لائی ہے۔
میں نہیں سمجھتا کہ قطر پر حالیہ حملے کے بعد چند دنوں میں اس دفاعی معاہدے کی تفصیلات طے ہوئی ہیں۔ سعودی عرب کو یہ ضرورت بہت مدت سے محسوس ہورہی تھی اور خاموشی سے پاکستان اور سعودیہ کے درمیان اس کی تفصیلات پر بھی کام جاری تھا لیکن قطر کا واقعہ فوری محرک بن گیا۔ ویسے تو پاکستان کی طرف سے سعودی عرب کیلئے فوجی تربیت‘ ساز و سامان سمیت بہت سے تعاون کئی عشروں سے جاری تھے لیکن یہ پہلا دفاعی معاہدہ ہے جو سربراہانِ مملکت میں اس طرح طے پایا ہے۔ ''دونوں ممالک میں کسی ایک پر حملہ دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا‘‘ جیسے الفاظ بھی غیرمعمولی ہیں اور عالمی خبر رساں ایجنسی نے سعودی عرب کے ایک عہدیدار سے ایک سوال کا جواب بھی شامل کیا ہے۔ پوچھا گیا کہ کیا اس معاہدے میں ایٹمی صلاحیت اور چھتری بھی شامل ہے؟ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر عہدیدار نے کہا کہ ''یہ مکمل جامع ترین معاہدہ ہے جو تمام تر فوجی وسائل پر محیط ہے‘‘۔
دیکھا جائے تو امریکہ اور یورپ سے نظریں ہٹا لینے کے بعد سعودیہ کے پاس کون سا ملک بچا تھا جس پر اعتبار کیا جا سکے اور جو فوجی طاقت بھی ہو۔ ترکیہ بڑی طاقت ضرور ہے لیکن ایک صدی سے زیادہ مدت سے ترکوں اور عربوں کے مسائل اس رشتے کی جڑوں میں ہیں۔ مصر اتنی بڑی فوجی طاقت نہیں رہا کہ دوسرے ملک کو مدد دے سکے۔ ایران سے عرب ممالک کی لڑائیاں ایک کھلی حقیقت ہیں۔ حرمین شریفین سعودی عرب کیلئے بڑی طاقت ہیں لیکن مذہبی شرائط کسی غیرمسلم ملک کو بہت سے مقامات سے دور رکھتی ہیں۔ بنیادی طور پر تمام تر جدید بننے کی کوششوں کے باوجود سعودی عرب روایتی مسلم عرب معاشرہ ہے۔ غیرمسلم اثر و رسوخ ایک حد سے زیادہ قبول کیا جانا مشکل ہے۔ دوسری طرف شہزادہ محمد بن سلمان کے ویژن 2030ء کے منصوبے دفاعی طور پر مضبوط ہوئے بغیر مکمل نہیں کیے جا سکتے۔ اس لیے سعودیہ حکومت کیلئے پاکستان ہی واحد آپشن تھا۔
یہ پاکستان کیلئے بڑے شرف کی بات تو ہے ہی لیکن یہ اسکی طاقت اور اعلیٰ فوجی صلاحیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ روایتی فوجی طاقت کیساتھ جوہری طاقت پاکستان کو وہ واحد ملک بناتی ہے جو عرب ممالک کیلئے قابلِ اعتبار بھی ہے اور جس نے بارہا سخت بین الاقوامی دباؤ جھیلنے کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ اس میں مئی 2025ء کی پاک بھارت جنگ اور معرکۂ حق بھی ہے جس میں پاک فضائیہ نے غیرمعمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں پوری فوج نے دشمن کو سخت جواب دیا۔ دنیا بھر نے دیکھا کہ کس طرح بھارت کا بڑا ہونے اور علاقائی برتری کا نشہ پاکستان نے دو دن میں ہوا کردیا۔ اس استقامت کی برکت اس وقت پورا ملک دیکھ رہا ہے۔ وہ ملک جو پاکستان سے کہہ رہے تھے کہ بھارت کو جواب نہ دیا جائے‘ اب پاکستان سے معاہدے کر رہے ہیں۔ سفارتی طور پر بھی اسکے بعد پاکستان کو بہت سی کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں اور سفارتی نیز ملٹری ڈپلومیسی نے دنیا کے سامنے پاکستان کا تاثر بدل کر رکھ دیا ہے۔ یہ کامیابیاں اسکے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی تھیں کہ فوجی اور سول قیادت یکجا ہوکر کام کرے۔ اسی یکجائی نے اس معاہدے تک پہنچایا ہے جو ہمارے لیے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔