اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں زلزلے کے حوالے سے ارشاد فرمایا:
''جب زمین پوری طرح جھنجھوڑ دی جائے گی اور اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی۔انسان کہے گا، اسے کیا ہو گیا؟اس دن زمین اپنی سب خبریںبیان کر دے گی۔‘‘(سورہ زلزال۔1:4)
دس سال پیچھے چلے جائیں تو پاکستان میں قیامِ پاکستان کے بعد تاریخ کا سب سے تباہ کن زلزلہ آیا،جس کا مرکزی شکار پاکستان کے شمالی کوہستان تھے۔ اس کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ، کروڑوں مویشی، چرند،پرنداور کئی بستیاں صفحۂ ہستی سے مٹ گئیں۔اب دس سال بعد اکتوبر 2015ء کو اس سے بھی ہولناک زلزلہ آیا جس کا نشانہ زیادہ ترپھر وہی علاقے بنے۔زلزلوں کے حوالے سے دو نظریات پائے جاتے ہیں،خاص طور پر جب سے دنیا نئے ورلڈ آرڈر کے شکنجے میں آئی ہے۔کچھ دانشور انسانیت کے اس دور کو عالمی گائوںسے تعبیر کرتے ہیں جبکہ کچھ دوسرے اسے عالمی استعمار کی صدی کہتے ہیں۔زلزلہ قدرتی آفت تو ہے ہی لیکن انٹر نیٹ پر ایسے حوالے موجود ہیں جن میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ زلزلے قدرتی بھی ہوتے ہیں اور انجینئرڈ بھی ۔اس حوالے سے تفصیلات جاننے کے خواہشمند انٹر نیٹ پر موجود کافی سارے مواد سے مزید استفادہ کر سکتے ہیں ۔آپ اوپر درج حوالوں کوفی الحال داستان نویسی کہیں یا آپ اسے سازشی تھیوری سمجھ لیں،لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ کچھ واقعات ایسے ہیں جن کی روشنی میں پاکستان کی سلامتی کے ذمہ دار آنکھیں بند کر کے بیٹھ نہیں سکتے۔جس طرح ہر تباہ کن ہتھیار یا سائنسی انکشاف یا صنعتی ایجادات یا الیکٹرونک اور سپر سونک'' اڑن کھٹولے‘‘پہلے پہل محض داستان سازشی تھیوری یا پھر خواب و خیال سمجھے جاتے تھے۔لیکن زندہ اور آگے بڑھنے کے خواہشمند معاشروں نے انہیں سازشی کہانی سمجھ کر مسترد نہیں کیا بلکہ اس پرتفتیش، تحقیق اور غوروفکر کیا،جس کے نتیجے کے طور پر ہر دن نئی نئی ایجادات کے ڈھیر لگ رہے ہیں۔ زلزلے کے بعد شہرِ اقتدار میں ایک کہانی بہت توجہ سے سنی اور سنائی جا رہی ہے۔تفصیل میں جانے سے پہلے اس سازشی کہانی کاکلائمیکس جان لیں اوروہ یہ کہ سال2005ء اور 2015ء کے دونوں زلزلے قدرتی آفت نہیں بلکہ انجینئرڈ تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد اور اس کے گردو نواح کی جغرافیائی اہمیت سٹریٹجک اثاثوں اور حسّاسیت کے پیش نظر یہ عام سوال بھی زیرِ گردش ہے کہ کیا ایٹمی اسلامی جمہوریہ کا دارالحکومت اور اس کا گردو نواح ایسے کسی تیسرے جھٹکے کو سہ سکتا ہے یا خدانخواستہ نہیں۔ اس بارے میں کچھ سنجیدہ حضرات تین حوالوں سے سوچنا شروع ہو گئے ہیں۔
پہلا حوالہ یہ کہ جو گھر ،ہائی رائز عمارتیں ،مارکیٹیں، اور سرکاری زمین پر قبضہ کر کے عبادت گاہیں وغیرہ بنائی گئی ہیں وہ8اور9کے درمیان ریکڑ سکیل والے زلزلے کا سامنا کر سکتی ہیں۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اسلام آباد سمیت ملک میں کوئی ایک بھی شہر ایسا نہیں ہے جہاں کسی ترقیاتی ادارے این ڈی ایم اے ، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی یا پلاننگ کمیشن سمیت کسی دیگر ایجنسی نے ایسے اعدادو شمار جمع کرنے کے بارے میں سوچا ہو۔لہٰذا فی الحال زلزلے کی فالٹ لائن پر واقع شہر اللہ کے سہارے چل رہے ہیں اور متوقع نقصانات کو روکنے کے لیے بنیادی ڈیٹا تک موجود نہیں۔
دوسرا حوالہ یہ کہ اسلام آباد سمیت زلزلے کی زد میں آنے والے شہروں میں تعمیرات کے سٹرکچر کا نقشہ بنانے کا سِرے سے رواج ہی نہیں۔90فیصدسے زائد مکانات اَن پڑھ مستری یا ٹھیکیدار بنا رہے ہیں ۔متعلقہ محکمے ان تعمیرات کے غیر قانونی نقشوں پر مہر لگانے کے لیے ایک ایک فٹ اور ایک ایک انچ کے حساب سے نذرانہ لیتے ہیں۔لہذا اگر کسی شہر میں ایسی خطر ناک عمارتوں کا ڈیٹا مل بھی جائے اور کوئی اتنا با ہمت حکمران ہو جو انہیں خالی کروا سکے تو پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ قائم رہے گا کہ ایسے علاقوں میں دوبارہ تعمیر ہونے والے مکان یا دوسری عمارتیںریکٹر سکیل پر8اور9 درجے کا زلزلہ سہنے کے قابل ہوں گی؟
تیسر ا حوالہ ،اسے بد قسمتی ہی کہا جا سکتا ہے یا بر سر اقتدار لوگوں اور اداروں کی بد عملی کہ سال2005ء کے تباہ کُن زلزلے کے بعد بھی کوئی سبق نہیں سیکھا گیا،اسی لیے این ڈی ایم اے والے حالیہ زلزلے کے بعد میڈیا کے رپورٹروں کو ٹیلیفون کر کے ان سے صورتحال سمجھنے کے لیے ''ٹیوشن ‘‘ اور کوچنگ حاصل کرتے رہے۔
ان ناقابلِ تردید حقائق یا زمینی صورتحال کو مد نظر رکھ کر پاکستان کی قوم کے سامنے نہیں کہا جا سکتا کہ دعاؤں کے علاوہ کوئی اور راستہ کھلا ہے۔پھر ایک اور تجربہ بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے اور وہ تھا زلزلے سے متاثرہ علاقوں کی بحالی اور تعمیر کے لیے بنایا گیا ادارہ''ایرا‘‘۔
اب یہ ہماری سوچ کا قومی برانڈ بن گیا ہے کہ پہلے ڈھول بجا کر ادارہ بنانے کا اعلان پھر اُس اِدارے کو کارپٹ کے نیچے قتل کر دیا جاتا ہے۔ ایک سچی مگر رُسوائی والی بات یہ بھی ہے کہ 2005ء کے زلزلے کے بہت سے متاثرین اب بھی بحالی کے منتظر ہیں۔ اُس وقت کے حکمرانوں نے بھی آج کے حکمرانوں جیسے فوٹو سیشن کروائے، کیمروں کی موجودگی میں ماڈلنگ کی اور پھر اُس عظیم انسانی المیے اور سانحے کو بُھلا دیا۔
2005ء اور موجودہ زلزلے کے بارے میں یہ سازشی کہانی شہرِ اقتدار میں خاصا زور پکڑ رہی ہے کہ یہ دونوں زلزلے مصنوعی تھے۔پہلے زلزلے کے بعد این جی اوز کے لبادے میں آنے والے بعض گروہوں نے پاکستان کو بذریعہ افغانستان گیس پائپ لائن کے پروجیکٹ سے محروم کیا۔اب جبکہ امن و امان کی صورتحال قابو میں آئی اورامن و امان کی بحالی کے لیے چین کے ذریعے معاشی کوریڈور بننا شروع ہوا تو زلزلہ دوبارہ پرانے روٹ پر وقوع پذیر ہوگیا۔کچھ حلقے کہتے ہیںکہHAARPلیزر میزائل اگر بارش اور مصنوعی سیلاب برپا کر سکتا ہے تو انجینئرڈزلزلہ کیوں نہیں۔کچھ دوسرے افغانستان میں استعمال کیے گئے خوفناک ترین بارودی بمباری کے ڈھیروں کو مصنوعی زلزلے کی وجہ سمجھتے ہیں۔پاکستان کے لیے جغرافیائی محلِ وقوع جتنی بڑی نعمت ہے۔ ہمارے حاسدوں اور دشمنوں کے لیے اس سے بھی بڑی زحمت اور جلن کا ذریعہ۔
حالیہ زلزلے کی لائی ہوئی بربادی کے بعد غور کرنے کے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہم نے پچھلے زلزلے سے کیا سیکھا؟