فقیر نے ہائی رائز بلڈنگ کے 19ویں فلور کی گھنٹی بجائی۔ اپارٹمنٹ والا سپیکر آن ہوا۔ مالک نے پوچھا: کون؟ آواز آئی فوراً نیچے پہنچو‘ بتاتا ہوں۔ گھر کا مالک بدحواسی میں لفٹ کے بجائے سیڑھیوں کی طرف دوڑا اور اُکھڑی ہوئی سانس کے ساتھ نیچے پہنچا۔ سامنے گلے میں کشکول ڈالے فقیر کھڑا تھا۔ کہنے لگا: دے کچھ اللہ کے نام پہ۔ مالک نے گہری سانس لی اور کہا: اوپر آؤ۔ خود لفٹ پر بیٹھا اور اسے کہا: 19ویں منزل پر پہنچو۔ کافی دیر بعد بھکاری ہانپتا کانپتا19ویں منزل پر پہنچا۔ دروازے پر صاحب خانہ کو کھڑے پایا۔ گداگر نے آگے بڑھ کر اس کے سامنے پھر ہاتھ پھیلا دیا۔ اپارٹمنٹ کا مالک پہلے مسکرایا پھر بولا: معاف کرو بابا!
اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کے ساتھ بھی بالکل ایسی ہی واردات ہوئی۔ سب سے پہلے کہا گیا‘ اسلام آباد میں انتخابات کی ضرورت نہیں۔ اسی دوران حاجی صلاح الدین اور کوکب اقبال کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس نورالحق قریشی کی سربراہی میں بنچ نے وفاقی دارالحکومت کے شہریوں کے حق میں فیصلہ دیا کہ آئین کے آرٹیکل25 اور4کی رو سے وفاقی دارالحکومت میں رہنے والوں کو بلدیاتی اداروں سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ اس کے چند ماہ بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات منعقد کرانے کا حکم جاری کر دیا۔ اس کے نتیجے میں بیوروکریسی، افسر شاہی اور برسرِ اقتدار اشرافیہ کو اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا مجبوراً اعلان کرنا پڑا‘ مگر یہ اعلان انتہائی بے دلی سے کیا گیا‘ جس کا اہم ترین ثبوت یہ ہے کہ کئی بار انتخابی شیڈول دیا گیا اور پھر اسے واپس لیا گیا۔
اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے مکمل ہو جانے کے بعد اب حکومت کو خیال آیا ہے کہ وفاق میں بلدیاتی ادارے بنانے کے لیے رولز آف بزنس ہی موجود نہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس وقت اسلام آباد میں سی ڈی اے کا ادارہ بھی موجود ہے‘ جو ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے قائم ہوا۔ متعلقہ سی ڈی اے ایکٹ 1960ء کی دہائی میں معرضِ وجود میں آیا۔ تازہ بلدیاتی قانون میں نہ تو اسے ختم کیا گیا‘ نہ ہی تبدیل۔ ساتھ ہی وزارتِ کیڈ بھی موجود ہے۔ اسی لیے بلدیاتی اداروں کے الیکشن گزر جانے کے بعد وفاقی حکومت نے ایک کمیٹی بنائی‘ جو 6 ماہ سے 2 سال کے عرصے میں ان بلدیاتی اداروں کو اختیار سونپے گی۔ اس وقت تک موجودہ پارلیمنٹ اور اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت‘ دونوں آخری سانسیں لے رہی ہوں گی۔ ایسے وقت میں کہاں کی لوکل باڈیز، کون سے اختیارات اور کیسی مقامی حکومت؟
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے بطورِ وفاقی وزیرِ قانون و انصاف اسلام آباد میں مقامی قانونی اور آئینی ادارے قائم کر کے وفاقی علاقے کو دہلی اور نیو یارک کی طرح صوبہ بنانے کا کام شروع کیا تھا۔ ایک سال کے عرصہء وزارت کے دوران میں نے اسلام آباد کو صوبہ بنانے کے لیے بنیادی ڈھانچہ تشکیل دے ڈالا‘ جس کی ہلکی سی جھلک یوں ہے:
اولاً‘ ملک کی چار ہائی کورٹس میں پانچویں وفاقی ہائی کورٹ کا اضافہ کیا۔ اس کے لیے باقاعدہ آئینی ترمیم کی‘ جس کے نتیجے میں وہ اسلام آباد‘ جہاں ایک سیشن جج‘ ایک سینئر سول جج سمیت کل پانچ جج حضرات بیٹھتے تھے‘ آج وہاں عدلیہ کے ارکان کی تعداد اللہ کے فضل اور مدینے کی عطا کی وجہ سے 100 کے قریب ہے۔ پہلی دفعہ اسلام آباد وفاق کا منظر پیش کر رہا ہے۔ سول جج سے لے کر ہائی کورٹ تک چاروں صوبوں کے جج حضرات اور عملہ تعینات ہوا‘ جبکہ ضلعی عدالتوں میں بھی چاروں صوبوں سے جج حضرات لگائے گئے۔ یہ ایک علیحدہ ریکارڈ ہے کہ جتنے مقامی جج آج اسلا م آباد میں موجود ہیں‘ اتنے جج پچھلے 70 سال کے سارے عرصے میں مقامی آبادی سے نہیں لیے گئے۔
ثانیاً، ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے اسلام آباد کو دو ضلعوں میں تقسیم کیا۔ اگرچہ بیوروکریسی اس فیصلے میں ابھی تک مزاحمت کر رہی ہے‘ اور دو ڈپٹی کمشنر تعینات نہیں کیے گئے‘ لیکن ضلع شرقی اور ضلع غربی بنا کر عدلیہ میں دو سیشن جج لگا دیے گئے۔ وہ وقت دور نہیں جب اسلام آباد کے شہری علاقوں کے دو ایم این اے اور دیہی علاقوں کے بھی دو ایم این اے منتخب ہوں گے‘ اور 12 ارکان پر مشتمل صوبائی اسمبلی اسلام آباد کو عالمی معیار کا وفاقی دارالحکومت بنائے گی۔
ثالثاً، اسلام آباد میں دو درجن کے قریب خصوصی عدالتیں قائم ہوئیں‘ جس کے ذریعے وفاقی دارالحکومت کو پہلی بار علیحدہ مکمل نظامِ انصاف مہیا ہوا۔ اسی طرح اسلام آباد میں علیحدہ بار کونسل معرضِ وجود میں آئی‘ جس کا نمائندہ اس ہفتے پاکستان بار کونسل میں بھی بطور رکن شامل ہو جائے گا۔
مزید تفصیل زیادہ طویل ہو جائے گی‘ اس میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اتنا کہنا کافی ہے کہ صوبے کا وہ ڈھانچہ جس کی فاٹا اور وفاق میں ضرورت تھی‘ وفاق میں قائم ہو چکا۔ اس پر سُپر سٹرکچر لازماً بنے گا۔ یہ میرا عزم ہی نہیں بلکہ ارادہ اور پختہ یقین بھی ہے۔ اسلام آباد کے بلدیاتی قانون میں بہت سے سقم ہیں‘ جن کے نتیجے میں ابہام اور بحران بڑھ سکتے ہیں کم نہیں ہوں گے۔ مثال کے طور پر بلدیاتی اداروں میں اقلیتوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ سی ڈی اے کے ادارے اور 20 ہزار ملازمین کا مستقبل اپنی جگہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی طے ہے کہ ملک کے سب سے اچھے پلاٹستان، پلازہ اِزم اور لینڈ مافیا دارالحکومت کے اختیار پر قبضہ کیوں چھوڑیں؟ لنگڑے لولے، مجبور انویسٹر، پراپرٹی ڈیلر کسی بلدیاتی ادارے میں ہوں یا آئینی ادارے میں‘ وہ عوام کی نمائندگی نہیں کر سکتے‘ بلکہ ان کا تاریخی رول طاقت ور اشرافیہ کے ''ٹاؤٹ‘‘ کے علاوہ کچھ نہیں۔
جن صوبوں میں بلدیاتی ادارے پہلے قائم ہوئے‘ حلف لے لیا‘ وہاں عوام کی زندگی میں کیا انقلاب آیا؟ اس لیے اسلام آباد پر نجی سرکاری، غیر سرکاری، مقدس اور غیر مقدس مافیاز کا قبضہ تھا‘ اور قبضہ رہے گا۔ اگر الیکشن کمیشن کے پاس وقت ہوتا تو 90 فیصد امیدوار نااہل ٹھہرتے۔ تبدیلی، انقلاب اور طاقت کا سرچشمہ کمیشن ایجنٹ کب سے ہوئے۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے‘ جس شہر میں واپڈا، او جی ڈی سی ایل، ایپکا، سیکرٹریٹ ملازمین جیسی انتہائی مضبوط ٹریڈ یونینز موجود ہیں‘ سب سے بڑی طاقت محنت کش اور مزدور‘ بلدیاتی اداروں میں ان کا سِرے سے کوئی کردار ہی نہیں۔ جو چھوٹے موٹے چور اُچکے مال بنانے کی امید میں آئے تھے۔ انہیں 19ویں منزل پر پہنچ کر امیرِ شہر کی طرف سے یہ جواب ملا: معاف کرو بابا!
پہلے اس نے مُس کہا، پھر تَق کہا، پھر بِل کہا
اس طرح ظالم نے، مستقبل کے ٹکڑے کر دیے