"SBA" (space) message & send to 7575

پرواز سے جلتا ہے زمانہ…؟

راجہ بازار کو ٹوکیو، گڑھی شاہو کو پیرس، لیاری کو واشنگٹن، قصہ خوانی بازار کو سنٹرل لندن اور پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے بعد ہماری گڈ گورننس کی پرواز سے جلتا ہے زمانہ!
دنیا کی ''اول نمبر‘‘ گڈ گورننس کا تازہ نمونہ پیشِ خدمت ہے۔ اس بہترین حکمرانی کو رول ماڈل بنا کر انڈونیشیا سے آسٹریلیا اور کینیڈا سے برطانیہ تک سب کا قبلہ درست ہو سکتا ہے۔ یہ ہے 34 ملکی اتحاد میں ہماری ''شمولیت‘‘ کی داستان۔ اس کہانی کے آغاز پر ہی انجام سامنے آ گیا، وہ بھی وزارتِ خارجہ کے سیکرٹری اعزاز احمد چوہدری کے بیان کی شکل میں۔ ہمارے سیکرٹری خارجہ نے حکومتِ پاکستان کی طرف سے پہلا ردِ عمل یہ ظاہر کیا کہ اس اتحاد کے بارے میں ہمیں کچھ پتا نہیں، اس لیے ہمارا اس سے تعلق کیسا؟ اتحادی جانیں اور ان کا کام! اس بیان پر ردِ عمل وزیر اعظم ہاؤس کے بینر تلے برآمد ہوا جس میں حکومت نے اتحاد کے تابع فرمان کے طور پر وہی کردار ادا کیا‘ جو قومی پارلیمان میں ہماری اپوزیشن چوہدری نثار علی خان کی حکومت کے لیے ادا کرتی ہے۔ مختصر ترین لفظوں میں حکومت نے تین باتیں کہہ ڈالیں:
نمبر ایک، یہ اتحاد مسلم ملکوں میں بدامنی کے خاتمے کی ضمانت ہے۔ نمبر دو، اتحاد میں پاکستان کو جو کردار بھی ملے اہلاً و سہلاً کہیں گے۔ نمبر تین، ہم اتحادیوں کے لیے ہر ''خدمت‘‘ انجام دینے کو تیار ہیں۔ پاکستان نے جس اتحاد میں ''شامل‘‘ ہونے کا فیصلہ کیا ہے، اس حوالے سے چند اہم سوالات سامنے آئے جو یہ ہیں:
34 ملکوں کے اتحاد کا ماڈل کہاں تیار ہوا؟ کس نے یہ منصوبہ پیش کیا؟ کس کے سامنے یہ منصوبہ پیش ہوا؟ اس پر غور و فکر کب اور کہاں ہوا؟ پاکستان کو اس اتحاد میں شمولیت کی دعوت کس نے دی؟ ظاہر ہے، اتحاد قائم ہونے سے پہلے اس کے تصور اور خد و خال پر بحث مباحثہ ہوا ہو گا۔ اس کی تفصیل کیا ہے؟ 34 ملکوں کے درمیان سفارتی رابطہ کار کون تھا؟ پاکستان کے ساتھ اتحاد کے اعلان سے پہلے کس نے رابطہ قائم کیا؟ پاکستان کی طرف سے اتحاد میں شامل ہونے کے لیے ہاں کس نے کی؟ پاکستان کی جانب سے اتحاد کے قیام کے لیے ہونے والی گفتگو میں ملک کی نمائندگی کس نے کی؟ اور 34 ممالک کے اس اتحاد میں شامل ہونے کی منظوری کس نے دی اورکب دی؟ اس اتحاد میں شامل ہونے کی منظوری سے پہلے کس سیاسی جماعت اور پارلیمانی ایکٹر سے مشورہ کیا گیا‘ اور کس ایمرجنسی کی وجہ سے وفاقی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو بائی پاس کرنے کی ضرورت پیش آئی؟
یہ سوالات تو اتحاد کے قیام کے بارے میں تھے۔ اب آئیے کچھ دوسرے نکات کی جانب جو اس اتحاد کے اعلان کے چوتھے دن ہونے والی اہم ترین بین الاقوامی پیش رفت سے سامنے آئے‘ اور وہ یہ کہ عالمی منظرنامے پر عرب سپرنگ (2011ء) سے لے کر 2015ء تک کا اہم ترین واقعہ رونما ہو رہا تھا، جس کی تفصیلات گزشتہ جمعہ کو منظر عام پر آ گئیں۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے بھرپور ترین اجلاس میں پہلی بار کونسل کے مستقل ارکان نے متفقہ قرارداد پاس کر دی۔ اس قرارداد کو عربستان میں جاری ''امّ الحرب‘‘ کے لیے گیم چینجر کہا جا سکتا ہے۔ اس کے نکات آپ بھی دیکھ لیں۔
نمبر ایک: شام میں جنوری کے مہینے سے عارضی جنگ بندی یا فائر بندی کروائی جائے گی، جس کے بعد دمشق کی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات ہوں گے۔
نمبر دو: پہلی مرتبہ اقوامِ متحدہ یا کسی عالمی فورم پر شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف کچھ نہیں کہا گیا۔ اقوامِ متحدہ کی موجودہ قرارداد شامی صدر کے بارے میں مکمل طور پر خاموش رہی۔
نمبر تین: قرارداد میں تین لاکھ شامیوں کے قتلِ عام کو وجہ قرار دیتے ہوئے قرارداد کہتی ہے کہ اب مذاکرات ہی شامی بحران سے نجات کا راستہ ہے۔
نمبر چار: قرارداد کے ڈرافٹ اور تکمیل میں 17 ممالک کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے۔پانچ گھنٹے سے زیادہ طویل مباحثہ کے بعد روس قرارداد کے مندرجات پر رضامند ہوا۔ کونسل کے مستقل ارکان کے ہمراہ آئے ہوئے سفارت کاروں کی ٹیموں نے قرارداد کو فائنل کیا۔ ساتھ ہی کہا، یہ قرارداد شامی عوام کے لیے پانچ سالہ جنگ کے درمیان امن کا اصل موقع ہے۔ قرارداد کے آخری نکتے کی رُو سے فائر بندی کے 6 ماہ بعد دمشق میں عبوری حکومت قائم ہو گی‘ جو جنگ سے تباہ حال شامیوںکو الیکشن کے ذریعے حکومت منتخب کرنے میں مدد دے گی۔ قرارداد کے ذریعے شامی صدر بشارالاسد اور ان کی سیاسی جماعت کے الیکشن لڑنے پر کسی طرح سے کوئی پابندی عائد نہیں ہو گی۔
اب ذرا رک کر ٹھنڈی سانس لیں‘ اور مِڈل ایسٹ کے تناظر میں اس عالمی پیش رفت کا جائزہ بھی۔ پھر سوچیں، ایک طرف خطے میں بمباری کرنے والے مغربی ملکوں نے مسلمانوں کی فرقہ وارانہ تقسیم اور دنیا میں روسی و امریکی لابی کی تفریق سے بالاتر ہو کر امن کے لیے روڈ میپ بنایا‘ اور دوسری جانب مشرق کے مسلمان ملکوں نے مسلک کی بنیاد پر اکٹھ بنا ڈالا۔ ہماری وزارتِ خارجہ دونوں سے بے خبر رہی۔ نہ تو اسے یہ معلوم ہو سکا کہ عالمی منظرنامے پر قرارداد سامنے آئے گی‘ اور نہ ہی اسے یہ پتا چلا کہ ریاض میں علاقائی اتحاد بنایا جا رہا ہے۔ آپ ہفتہ اور اتوار کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں، کسی جگہ ہماری وزارتِ خارجہ نے یو این سلامتی کونسل کی قرارداد کا خیر مقدم کیا‘ نہ اسے مسترد۔ یوں لگتا ہے جیسے پہلی بار صیحح معنوں میں پاکستان 100 فیصد بنانا ری پبلک بن چکا۔ چھلکے کے اندر کے حصے کو معلوم نہیں کیلے کے باہر کیا ہو رہا ہے!
جس دن ہمارے کچھ اخبارات نے (زیادہ تر انگریزی) یو این ایس سی کی شامی قرارداد والی خبر ہلکی پھلکی ''ٹیل سٹوری‘‘ کے طور پر شائع کی، عین اسی دن پاکستان کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا: ''کرپشن معاشرے میں دیمک کی طرح پھیل گئی‘‘۔ آنریبل چیف جسٹس صاحب! میں آپ سے مکمل اتفاق کرتا ہوں، لیکن میری ڈکشنری میں کرپشن کی تعریف ذرا وسیع ہے۔ اس کے مطابق کرپشن کا مطلب صرف سیاسی مخالفت، نفرت اور انتقام کی آگ میں بنائے گئے مقدمات نہیں ہیں، اس میں پہلے نمبر پر قومی مفادات سے غفلت آتی ہے۔ روم جل رہا ہو اور نیرو بانسری بجائے تو صرف اسے نااہل نہ کہا جائے، اس کی بانسری کی آواز میں تخت، تاج اور مراعات، عوام کے گلے کاٹ کر لوٹے گئے ٹیکس سے چل رہے ہوں تو اسے لازماًََ کرپٹ کہا جائے گا۔
ایک پوٹھوہاری مقولہ یوں ہے... سَس مَت آکھو، سَپ آکھو (ساس مت کہو بلکہ سانپ کہو) شکریہ چیف جسٹس صاحب! کوئی تو ہے جو کرپشن کے پَھن پھیلائے سانپ کے آگے ہاتھ جوڑ کر ناگ منی کی پرستش نہیں کرتا بلکہ اسے سانپ کہہ کر قوم کو زہریلے ناگ سے بچانے کی'' بانگِ دَرا‘‘ بلند کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔
فیصلہ آپ خود کر لیں،کِس کی پرواز سے جلتا ہے زمانہ... کرپشن کا اڑنے والا سانپ یا گورننس کی پَر کٹی اندھی چڑیا سے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں