اجازت کا لفظ جس قدر پاکستان کی سیاست، اقتدار، پولیس اور انتظامیہ استعمال کرتی ہے‘ اس کی دوسری مثال پوری دنیا میں موجود نہیں۔ مثال کے طور پر آئندہ مہنگائی کی اجازت نہیں ہو گی (وزیر اعلیٰ)۔ آئندہ عوام کو لوٹنے کی اجازت نہیں دیں گے (وزیراعظم)۔ آئندہ جعلی پاسپورٹ جاری نہیں ہوں گے (محکمہ امیگریشن)۔ آئندہ افغانوں کو پاکستانی شناختی کارڈ نہیں ملے گا (نادرا)۔ آئندہ بجلی کے بِلوں میں گڑ بڑ کی اجازت نہیں دیں گے (نیپرا)۔ سستی پٹرولیم مصنوعات مہنگی بیچنے کی اجازت نہیں دیں گے (اوگرا)۔ آئندہ بچوں کے خلاف جرائم کی اجازت نہیں دیں گے (آئی جی پنجاب)۔ آئندہ مغربی بارڈر سے اسلحہ کے سمگلروں کو بدامنی کی اجازت نہیں دیں گے (پی اے فاٹا)۔ آئندہ کسی اور کو جنگلہ لگانے کی اجازت نہیں ہو گی (اتفاقیہ سٹیل)۔ آئندہ پارلیمنٹ کی بے عزتی کی اجازت نہیں دیں گے (جنرل ضیاالحق اور جنرل مشرف کی ارکانِ کابینہ کا مشترکہ بیان)۔
آئندہ اجازت نامے دینے یا نہ دینے کا سلسلہ بہت طویل ہے، جس کا آخری آئندہ ہمیشہ کچھ یوں ہوتا ہے۔ آئندہ اظہارِ رائے اور پریس کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں ہو گا (اطلاعا ت وغیرہ وغیرہ وغیرہ)۔
تازہ غیر سیاسی ویڈیو‘ جس میں ایک سیاسی وزیر کی عوام میں ''پذیرائی‘‘ دکھائی گئی ہے‘ گزشتہ چار دن سے سوشل میڈیا پر کھڑکی توڑ فوٹیج ثابت ہوئی ہے۔ اس سے پہلے کراچی ایئرپورٹ کی ہی ایک ویڈیو نے دھوم مچائی تھی‘ جس میں رنگ برنگی زلفوں والا ایک وزیر دو چار گھنٹے تاخیر سے جہاز پر سوار ہونے آیا اور پھر مسافروں نے اس کی ''تقریبِ پذیرائی‘‘ کر دی۔
اب آئیے تقریب پذیرائی کی حقیقت کی طرف۔ اس کا پہلا مفہوم ادبی ہے۔ دوسرا عوامی، سیاسی اور جوڈیشل بھی۔ ادبی مفہوم میں جب کوئی لکھاری یا ادیب قلم اور ادب کا کوئی معرکہ سَر کرتا ہے‘ تو اس کے چاہنے والے یا پروموٹر ادیب کے اعزاز میں پذیرائی کا جلسہ منعقد کرتے ہیں‘ جہاں اُسے ''داد‘‘ دی جاتی ہے۔ اگر دوست سرمایہ دار ہوں یا صنعتکار تو پھر امداد بھی ملتی ہے۔ عوامی، سیاسی اور جوڈیشل تقریب پذیرائی کا ایک سچا واقعہ خطہء پوٹھوہار میں نئی تاریخ بنا گیا۔ 1985ء میں اسمبلیوں کے انتخابات غیر سیاسی اور غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد ہوئے تھے۔ یہ ضیاء آمریت کا دور تھا۔ اس غیر سیاسی اور غیر جماعتی الیکشن کے نتیجے میں موجودہ نون لیگ منظر عام پر آئی۔ اسے تاریخ کی ستم ظریفی کہیے یا حسنِ اتفاق کراچی ایئرپورٹ کا تازہ واقعہ نون لیگ کابینہ کے ایک لیڈنگ وزیر کے ساتھ پیش آیا۔
ذکر ہو رہا تھا پوٹھوہار کی تقریب پذیرائی کا‘ جس کے میزبان راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے ممبر تھے‘ اور ایک ریٹائرڈ فوجی میجر بھی۔ میجر صاحب مرحوم کا تعلق تحصیل راولپنڈی کے معروف گاؤں گِرجا کے علاقے سے تھا۔ وہ صاحب جائیداد اور امیر کبیر آدمی تھے۔ گاؤں والوں کے مشورے سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار بن گئے۔ انہوں نے لاکھوں روپے الیکشن مہم پر اُڑا دیے۔ گاؤں میں ان کی دو حویلیاں تھیں‘ جن میں پوری انتخابی مہم کے دوران دیگیں پکتی رہیں اور کھابے چلتے رہے۔ میجر صاحب کو چند سو ووٹ ملے‘ جس کے بعد انہوں نے اپنے چیف سپورٹر حضرات کو بڑی حویلی میں تقریب پذیرائی کے لیے بلایا۔ ساتھ والی چھوٹی حویلی میں دیگیں پکوا دیں۔ سیاسی معززین علاقہ اور چیف سپورٹر کھانے والی حویلی میں آئے۔ جو بھی معزز علاقہ کھانے سے فارغ ہوتا‘ میجر صاحب کے پاس اسے ون آن ون ملاقات کے لیے لے جایا جاتا‘ جہاں میجر صاحب کے گارڈ اسے بازوؤں سے قابو کرتے‘ اور میجر صاحب پاپوش سے مُہر لگا کر تقریب پذیرائی میں شریک ممبر کو جوتا کلب کی رکنیت عطا کرتے۔ ایک ٹھیکیدار صاحب‘ جن کا پیٹ خراب تھا‘ کھانا کھائے بغیر، تقریب پذیرائی والی حویلی میں جا گُھسے۔ جوتا کلب کا ممبر بننے سے پہلے ہی شور مچا دیا‘ اور وہاں موجود مہمانوں کو بتایا کہ کلب کے ممبروں کی کس طرح سے ''پذیرائی‘‘ ہو رہی ہے۔
کراچی کی تازہ ترین ویڈیو سرکار کی سنسرشپ کا شکار ہو گئی‘ لیکن سوشل میڈیا ایک ایسی ایجاد ہے‘ جس نے ہر طرح کی سنسرشپ کو ''بیلنس‘‘ کر کے رکھ دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ علمی پنڈت جو اپنے فن خطابت یا فنِ کتابت کے ذریعے آزادیء اظہار اور آزادیٔ زبان و بیان کے ڈونگرے برساتے رہتے ہیں‘ ان کے چہرے بھی بے نقاب ہو گئے‘ کیونکہ ان پنڈتوں کے لشکر ہر روز سچائی تک رسائی اور اندر کی خبر لانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ دنیا کے جس کونے میں جہاں بھی تقریب پذیرائی منعقد ہوئی اس کی پوری تفصیل دکھاتے، سناتے اور چلاتے ہیں‘ لیکن ان لشکریوں نے معصوم پارٹی کے انتہائی معصوم لیڈر کے ساتھ کھلی واردات کو بھی سات پردوں میں چھپانے کے لیے ''گونگا پہلوان‘‘ کا کردار ادا کیا۔ ایسے خود اختیاری گونگے پَن کو ہی سنسرشپ کہا جاتا ہے‘ جس پر کسی شاعر نے مک مکا جمہوریت اور آزادیء اظہار کی یوں دھجیاں اڑائیں ہیں۔ ؎
کاٹ کر زباں میری کہہ رہا ہے وہ ظالم
اب تمہیں اجازت ہے حالِ دل سنانے کی
تقریب پذیرائی کا جوڈیشل واقعہ بھی موجود ہے‘ جو 1997ء میں سیاسی احتساب کے دوران پیش آیا۔ اس مقدمے میں مرحوم حفیظ پیرزادہ ایڈووکیٹ صاحب سابق صدر آصف زرداری کے وکیل، جبکہ میں شہید بینظیر بھٹو کا وکیل صفائی تھا۔ ایک بیوروکریٹ گواہ نے اس دلیری، بے شرمی اور بے رحمی سے جھوٹ بولا کہ عدالت کے اندر موجود ایک خاتون چُپ نہ رہ سکیں۔ انہوں نے اپنے پرس سے سیاہی کی بوتل نکالی۔ وہ عدالت کے روسٹرم تک پہنچیں‘ پھر گواہ سے کہا: تیرے جھوٹ پر اگلے جہان اللہ کے حضور تیرا منہ کالا ہو گا‘ دنیا میں یہ کام میں کر دیتی ہوں۔ اور پھر خاتون نے گواہ کا منہ کالا شاہ کالا کر دیا۔
پاکستان دنیا کا سب سے بڑا طبقاتی معاشرہ ہے‘ جس میں صرف امیر اور غریب طبقے کی ہی تقسیم نہیں‘ بلکہ خوش قسمت قاتل اور بدبخت قاتل‘ لکی ڈاکو اور بدقسمت جیب کترے‘ منی لانڈرنگ کا اعترافِ جرم کرنے والے معززین اور دس روپے کی روٹی اٹھا کر بھاگنے والے سنگین ترین جرم کے مرتکب ملزم کی تقسیم بھی موجود ہے۔ اس تقسیم کا اظہار تب ہوتا ہے جب سچ کی دکانداری پر ''آن ڈیوٹی‘‘ پرچون فروش سیاسی حکومتوں سے اپنا حصہ وصولتے ہیں۔ لفافہ تو اب ماضی کا قصہ بن گیا ہے۔ تازہ وارداتیں سیاسی عہدوں پر میرٹ کے بغیر ہونے والی بھرتیاں ہیں۔
سچ جابر سلطان کے سامنے ہو یا میرا سلطان کے رُوبرو‘ اب صرف سلطان سے پوچھ کر سچ بولنے کا دور ہے۔ شاید اسی لیے شعر بھی آزردہ ہو گئے ہیں اور ادب پژمردہ۔
جذبہ جذبہ آزردہ، لمحہ لمحہ افسردہ
اٹھ نہ جائے دنیا سے، رسم مسکرانے کی
لوگ چاہتے ہیں اب، داد غم سنانے کی
کتنی تاجرانہ ہے، ذہنیت زمانے کی
سینکڑوں چراغوں کو ہم سے اب شکایت ہے
ہم نے یہ سزا پائی، اِک دیا جلانے کی