عوامی جمہوریہ چین کے موجودہ سفیر سن وائیڈانگ کے والد بھی پاکستان میں سفیر رہے۔ یہ چو این لائی کے زمانے کی بات ہے‘ جو چین کے صدر تھے اور جنہوں نے پاکستان کا دورہ کیا۔ موجودہ چینی حکومت اور چینی سفیر کا فوکس سی پیک کو جلد از جلد مکمل کرنے پر ہے‘ اور مصدقہ ذرائع کے مطابق چین کے انتہائی اعلیٰ سطحی اور حساس ترین حلقے پاکستانی حکمرانوں کے رویے پر شاکی ہیں۔ ان کی یہ ناخوشی جائز ہے اور انتہائی معقو ل بھی۔ وہ ایسے کہ سی پیک کے خلاف مخصوص پاکستانی میڈیا اور سیاستدانوں کے ایک حصے میں مسلسل مہم چلائی گئی۔ اس مخالفانہ مہم پر موجودہ حکمرانوں کی غفلت چین کی ناخوشی کی اصل وجہ ہے۔
کون نہیں جانتا کہ ریاستوں کے درمیان تعلق میں لفظ 'ناراضی‘ استعمال نہیں ہوتا۔ اس کے لیے سفارتی آداب سے بھرپور اصطلاح ناخوشی (Displeasure) استعمال کی جاتی ہے۔ بہرحال، صورتحال کو سمجھنے کے لیے کچھ ابتدائی باتیں پیشِ نظر رکھنا ہوں گی۔
اوّل: چین پاکستان کے ساتھ سی پیک کی فوراً تکمیل چاہتا ہے۔ ایسا ہی ثبوت پاکستان کے دوست پڑوسی نے عطا آباد جھیل کے حوالے سے بھی دیا تھا۔ چار سال پہلے جب عطا آباد جھیل پیدا ہوئی تو چین کے سوست بارڈر سے ہمارا رابطہ تقریباً منقطع ہو چلا تھا۔ ساتھ ہی شاہراہ ریشم پر ترقی کے سفر کو بھی بریک لگتی گئی۔ چین آگے بڑھا اور عطا آباد جھیل کا راستہ ترک کرکے ایک متبادل شاہراہ بنانے کی ٹھانی؛ چنانچہ چار فلک بوس پہاڑوں کا سینہ چیر کر چار سرنگیں بنا دی گئیں۔ اس کے لیے مشینری، تکنیکی سپورٹ اور ماہرین چین سے آئے‘ جس کے نتیجے میں یہ متبادل راستہ بنا اور جلد ہی کھل بھی گیا۔
دوئم: چین کی یہ شکایت جائز ہے کہ سویلین سرکار کے بڑے سی پیک پر امریکی اور بھارت کے سپانسرڈ پروپیگنڈے کا ادراک کر سکے‘ نہ مؤثر دفاع‘ نہ ہی من گھرٹ اور نام نہاد ''خدشات‘‘ کا بھرپور جواب دے پائے۔
سوئم : یہ کہ سی پیک کی جو ذمہ داری فوج کے حوالے ہوئی‘ اس سے چین مطمئن اور خوش ہے۔ جنرل راحیل شریف نے سی پیک کے تخفظ پر نعرے نہیں لگائے بلکہ سی پیک سپیشل سکیورٹی ڈویژن تشکیل دے ڈالا۔ حکومت کا ایک وزیر 100 فیصد مضحکہ خیز انداز میں سی پیک سے متعلقہ بریفنگ کے دوران لوگوں کو مسلسل ناراض اور منتشر کرتا پایا گیا‘ لہٰذا چین سی پیک کے بڑے سٹیک ہولڈر کے طور پر حکمرانوں سے جس سنجیدگی کی توقع کر رہا تھا وہ پوری نہ ہو پائی۔
چہارم: کئی مہینوں سے عسکری قیادت اس بات پر زور دیتی پائی گئی کہ فوری طور پر سی پیک اتھارٹی بنائی جائے۔ فوج کی یہ سوچ اور مطالبہ جائز ہے۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ پاکستان میں ہاؤسنگ کے چھوٹے چھوٹے پروجیکٹ بنانے کے لیے بھی اتھارٹی قائم کی گئی ہیں۔ ثبوت کے طور پر چند نام یہ ہیں: کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی، پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی‘ حتیٰ کہ ملیر اتھارٹی اور پنجاب میں باغات کی اتھارٹی سالوں پہلے سے کام کر رہی ہیں۔
گزشتہ روز سی پیک کے ایک روحِ رواں عہدے دار سے دو گھنٹے سے زیادہ کی نشست ہوئی۔ موصوف کرم فرمائی کرکے میرے گھر تشریف لائے۔ انتہائی دکھی لہجے میں کہا: چھوٹے موٹے کلیریکل کام کے لیے بھی ہر روز آدھا درجن دفتروں کے چکر لگانا پڑتے ہیں‘ کچھ دفاتر پنڈی میں ہیں جبکہ کچھ اسلام آباد میں‘ کچھ دوسرے پاک سیکرٹریٹ کے اندر واقع ہیں‘ اور کئی دفاتر پشاور روڈ پر‘ لہٰذا سی پیک منصوبے کی جلد تکمیل کے لیے کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے‘ جو ''ون ونڈو‘‘ کا کام دے سکے۔ دوسری جانب عسکری قیادت چاہتی ہے کہ جلد از جلد سی پیک اتھارٹی تشکیل دی جائے‘ اور سی پیک کے تخفظ کے سپیشل سکیورٹی ڈویژن سمیت متعلقہ افراد اور ادارے اس اتھارٹی کے ماتحت کر دیے جائیں۔
چین سی پیک کے حوالے سے کس قدر سنجیدہ ہے اس کا تازہ ثبوت چین کے حالیہ سرکاری اعلامیہ سے بھی ملتا ہے‘ جس میں بتایا گیا کہ سی پیک پر عملدرآمد کس مرحلے پر ہے‘ اور اس کے ساتھ اہم ترقیاتی اشاریے بھی پبلک کیے گئے۔ ہماری وفاقی حکومت کی ترجیحات دوسری ہیں۔ ان میں سرِفہرست پاناما لیکس بچاؤ مہم آتی ہے۔ دوسرے نمبر پر احتساب سے بچنے کے لیے ''ہوم میڈ‘‘ قانون۔ تیسری ترجیح الیکٹرانک کرائم بل کے ذریعے مخالفین کے منہ بند کرنا ہے۔ پھر ذاتی کاروبار۔ اس کے بعد اپنے بچے، سمدھی اور ان کے بچے اور سمدھی‘ اور پھر ان کے سمدھی اور ان کے بچوں کا مستقبل اور اثاثے ہیں۔
اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ دنیا کی اس قدر انوکھی طرزِ جمہوریت کی ترجیحات کے ٹیبل پر سی پیک اتھارٹی جیسے غیر ضروری کام کی گنجائش کہاں ہے؟ چین نے بیجنگ سے جو تازہ اعلامیہ جاری کیا ہے‘ اس میں سی پیک کے لیے روڈ اور انفراسٹرکچر کے بعد صنعتی اور تجارتی زون آتے ہیں۔ نواز سرکار اپنے آپ کو نوازنے میں اس قدر مصروف ہے کہ ابھی تک کسی جگہ کسی صنعتی شہر کا نام و نشان نہیں۔ اس کی بڑی وجہ سی پیک میں چین کی فیزیکل موجودگی ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے سی پیک کے میگا پروجیکٹ سے وہ فوائد حاصل نہیں ہو سکتے‘ جو قائد اعظم سولر پارک اور پنجاب کے ناکام ترین بجلی کے منصوبوں سے ہوئے ہیں۔ چین کے اعلامیہ میں تیسرا نکتہ سی پیک کو جلد از جلد دوڑتے دیکھنے کے حوالے سے ہے۔ چین کے پیشِ نظر ایران کی بندرگاہ چاہ بہار بھی ہے‘ اور اس سے پہلے گوادر، پسنی اور سی پیک کی ''ٹائمنگ‘‘ بھی۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وفاقی حکومت سی پیک اتھارٹی کے قیام سے خوفزدہ کیوں ہے؟ اس حوالے سے وفاقی حکومت کا بڑا خوف یہی ہے اگر سی پیک اتھارٹی بن گئی‘ فوج کا سکیورٹی ڈویژن سی پیک کا حصہ بن گیا‘ چین عملی طور پر اس میں شریک ہوا تو پھر اس میگا پروجیکٹ سے کِک بیک اور جمہوریت کے ''پھل فروٹ‘ نکالنا ناممکن ہو جائے گا۔ ساتھ ہی حکومت کو یہ خدشہ بھی کھائے جا رہا ہے کہ اگر سی پیک اتھارٹی کی تشکیل ہو گئی تو پھر ان کے کمپیوٹر بردار وزیر کا کیا بنے گا؟ جس کے بیرونی دورے اور اندرونی بریفنگ‘ چلتے ہی سی پیک کے دم سے ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ حکومت اور کمپیوٹر بردار وزیر دونوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ سی پیک کس رفتار سے چلے اور کس رفتار سے اس کی تکمیل ہو۔
سی پیک کے تناظر میں جس قدر امید افزا احکامات اور بیانات جنرل راحیل شریف نے جاری کیے اس کے ہزارویں حصے کے برابر بھی نہ وفاقی حکومت بولی‘ نہ وزیر اعظم‘ نہ کابینہ۔ 'بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘ وہ یہ کہ گوادر پورٹ کے دوسری جانب تین برادر اسلامی ملک سی پیک کو ناپسند کرتے ہیں۔ یہ ناپسندیدگی مخالفت میں ڈھل چکی ہے۔ مشرقی بارڈر پر ہندوستان اور مغربی بارڈر پر افغانستان پاکستان اور چین کے اس شاہکار منصوبے کے خلاف ہم آواز بھی ہیں اور ہم خیال بھی۔
سی پیک سے متعلقہ پاکستانی ادارے صرف ایک ہی طریقے سے یکسو ہوں گے کہ سی پیک اتھارٹی فوری طور پر قائم کی جائے اور اسے متحرک کیا جائے۔ یہ ایسا منصوبہ نہیں جسے ٹھیکیداروں کی فرمائش کے مطابق عشروں اور سالوں تک چلنے دیا جائے۔