انگلستان کو مہاجرین کا گڑھ سمجھا جاتا ہے جبکہ لندن کو مہاجرین کا شہر۔ برطانیہ کے ایک نوجوان تاریخ دان نے اس موضوع پر معرکۃ الآراء تحقیقی کتاب لکھی، نام رکھا ''یہ ہے لندن‘‘۔
یوں تو امریکہ کہلاتا ہی مہاجرین کا ملک ہے، جو تین کروڑ ریڈ انڈین مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل کر کے اپنے لئے نیا امریکہ دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اسے Land Of Opportunity یعنی''مواقع کی سرزمین‘‘ کا نام دیا گیا۔ لیکن امریکہ اور یورپ یا برطانیہ جانے والے تارکینِ وطن میں بہت فرق ہے۔ امریکہ جانے والے ریڈ انڈینز کی کروڑوں ایکڑ آبائی زمین پر قابض ہوئے۔گینگ آف نیو یارک کے پیٹ سے حالیہ جمہوریت برآمد ہوئی اور یہ قبضہ گروپ امریکہ کے ہی ہو کر رہ گئے۔ جبکہ یورپ اور برطانیہ جانے والے وہاں کے شہری بن کر بھی اپنی آبائی زمینوں سے ناطہ توڑنے پر تیار نہ ہوئے۔ دوہری شہریت رکھی، ہجرتی ملک سے آبائی وطن آتے جاتے رہے۔ پاکستانی تارکینِ وطن اپنے آبائی وطن کے ساتھ جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ مجھے اس کا تجربہ مانچسٹر آ کر ہوا جہاں پاکستان کمیونٹی سنٹر کے وسیع آڈیٹوریم میں کاشف سجاد کی کتاب کی تقریبِ رونمائی تھی۔ مجھے مہمانِ خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا۔ ایمبیسی کی نمائندگی کلچرل اتاشی فضا نیازی نے کی۔ سٹیج سیکرٹری نارتھ انگلستان میں پاکستانی کمیونٹی کے انتہائی مہذب اورسرگرم ای این ٹی سرجن ڈاکٹر یونس پرواز اور دو دیگر خواتین تھیں۔ معروف شاعر اوردانشور منصور آفاق نے جو مضمون پڑھا وہ میں نے وکالت نامہ کے قارئین کے لئے تقریب کے بعد ان سے مانگ لیا۔ مٹی کی محبت کی خوشبو میں دھلے ہوئے تارکینِ وطن کے یہ جذبات آپ سے شیئر کرتا ہوں۔ تقریب کی طرف پھر واپس آئیں گے، مضمون یوں ہے:
''میں نے ایک شعر کہا تھا ؎
محبت کے سفر میں چھوڑ دے تقسیم خوابوںکی
کسی بھی اک بدن کے دو وطن اچھے نہیں ہوتے
اک بدن کے دو وطن ہجرت سے جنم لیتے ہیں اور ہجرت انسانی خمیرکا حصہ ہے۔ اس کا آغاز جسم میں داخل ہونے والے گندم کے پہلے دانے سے ہوتا ہے، جسے جرم قرار دے کر آدم علیہ السلام کو جنت سے نکال دیا گیا اور زمین کی ویرانیاں بخش دی گئیں۔کہا جاتا ہے کہ سراندیپ جزیرے پر آنے کے بعد آدم علیہ السلام نے زندگی بھر اپنے پہلے وطن یعنی جنت الفردوس کو یاد رکھا۔ انسانی تاریخ میں بے شمار قوموں نے ہجرت کی۔ ان ہجرتوں کے اسباب کچھ تھے، لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ ہر مہاجر کے خواب عمر بھر اپنی آبائی سر زمین میں ہی بھٹکتے رہے۔ ہجرتِ رسولِ اقدس و اعظمﷺ سے بھی یہی دو وطن طلوع ہو رہے ہیں۔ آپؐ نے جہاں مدینہ منورہ کو اپنے وطن کے اعزاز سے سرفراز فرمایا وہاں مکہ معظمہ سے بھی آپؐ کی محبت ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ ہمارے وہ بزرگ جو انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے، عمر بھر ان کی آنکھوں میں ماضی کے عظیم الشان مزاروں کے چراغ جلتے رہے اور وہ اپنے ناموں کے ساتھ انبالوی، امرتسری، لکھنوی، حیدری وغیرہ کے سابقے اور لاحقے لگاتے رہے۔
ہم لوگ پاکستان سے برطانیہ ہجرت کر آئے ہیں، ہمارے دلوں میں پاکستان کی محبت بھی آباد ہے اور ہم نے برطانیہ کو اپنا وطن بنا لیا ہے۔ برطانیہ، جہاں ہم نے زندگی کو تابندگی میں بدلا ہے، ہم اس سے اپنی محبت سے انکار نہیں کر سکتے اور اس بات کے ثبوت کے لئے یہی کافی ہے کہ لمحہ موجود میں جب ہمارے چاروں طرف کئی قسم کے تعصب عفریت کی طرح منہ کھولے کھڑے ہیں، ہمیں اپنے برٹش ہونے پرکوئی ندامت نہیں۔ کاشف کی کتابیں بھی وطن کی مجسم محبت ہیں۔کاشف کی پہلی کتاب ''دی امیگریٹ‘‘ بھی اس وطن سے ہجرت کی کہانی ہے اور ''میری پہچان پاکستان‘‘ بھی اسی محبت کا ایک خوبصورت اظہار ہے‘‘۔
کاشف سجاد کا بنیادی موضوع ہجرت ہے۔ انسانی ہجرت کی تاریخ میں سب سے قدیم حوالہ دو سو ہزار سال پرانا ہے۔ پہلے پہلے انسانوں کی آمد کا سراغ مشرقی افریقہ کے گریٹ لیکس کے علاقے سے ملتا ہے، جنہوں نے دریائے نیل کے ساتھ ساتھ سفر کیا اور پھر شمال جنوب اور مشرق مغرب میں پھیل گئے۔ پہلی انسانی تہذیب کی بنیاد پڑی۔ یونانیوں نے دنیا کی اس پہلی تہذیب کو ''ایتھو پین‘‘ کا نام دیا۔ یہ یونانی لفظ ہے۔ یونانی زبان میں جلے ہوئے کو ایتھاس کہتے ہیں اور چہرے کے لئے ''اوپا‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ان دو لفظوں کے ملنے سے ایتھوپین بن جاتا ہے یعنی جلے ہوئے چہروں والے۔ یونانی شاعرہو مر کی ایپک کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس زمانے میں یونانی سوڈان، مصر ، عرب، فلسطین، مغربی ایشیا، انڈونیشیا اور انڈیا کے لوگوں کو ایتھوپین ہی کہتے تھے۔ بہر حال یہ لوگ افریقہ سے نکلے اور دنیا کے ایک بڑے حصے میں پھیل گئے۔ آج کسی کو یہ خبر بھی نہیں کہ ان کا اوریجن کیا تھا۔
اسی طرح آریا جن کا اصل تعلق ''اورل‘‘ کے پہاڑی علاقے سے تھا، جسے اب کرغیزستان کہا جاتا ہے۔ وہ کوہ ہندوکش اور درہ خیبر سے ہوتے ہوئے ہندوستان میں داخل ہوئے اور اس طرح اپنے ماضی سے منقطع ہوئے کہ صدیوں سے برصغیر کے لوگوں اورکرغیزستان کے لوگوں کا آپس میں کوئی واسطہ نہیں۔ یہ لوگ 2000 اور 1500 قبل مسیح میں ہندوستان آئے۔ یہ ستارہ پرست تھے۔ اس وقت تک ان کی جو چیز ہمیں برصغیر میں کہیں کہیں ملتی ہے وہ تحریمِ شمال ہے، خاص طور پر صوبہ سرحد اور پنجاب کے لوگ شمال کا احترام کرتے ہیں۔ یہ میں کہاں نکل آیا ہوں۔۔۔۔ میں تو کاشف کی کتاب ''میری پہچان پاکستان‘‘ پر کچھ لکھ رہا تھا۔
کاشف سجاد ایک خوبصورت نثر نگار ہے۔ اس کے ہر ہر لفظ سے وطن کی محبت پھوٹ رہی ہے۔ وہ پاکستان کو سوچتا ہے، پاکستان کے خواب دیکھتا ہے، پاکستان سے متعلق لکھتا ہے، پاکستان اس کا لباس بھی ہے اور اس کا وجود بھی۔ کاشف جیسے نوجوان پاکستان مردہ باد کہنے والے غداروں کے چہروں پر کسی طمانچے سے کم نہیں ہیں۔ پاکستان کو کاشف سجاد پر فخر ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اور زیادہ اپنے وطن کے لئے کام کرنے کی ہمت عطا کرے۔ اس کے راستے میں ہمیشہ روشنی اور خوشبو رہے۔ اس کے لئے چند اشعار ؎
یہ دعا کے چند حرف بس قبول ہوں
تمہارے راستے میں روشنی ہو پھول ہوں
انہیں بھی دیکھنا ضمیرِ عالمین سے
دل و دماغ کے جو طے شدہ اصول ہوں
ہوں منزلِ یقیں کے اونٹ دشتِ وقت میں
خیامِ صبر و انتظار باشمول ہوں
مانچسٹر کے پاکستان کمیونٹی سنٹر میں اس تقریب کے تین حصے تھے۔ پہلے کا کچھ احوال آپ نے سنا۔ یورپ میں نعرے کم لگتے ہیں۔ اس کتاب کی تقریبِ رونمائی کی خاص بات پاکستان زندہ باد کے مسلسل نعرے تھے بلکہ ایک طرح سے خواتین اور مردوں میں وطن کے نعرے پر جذبے کے اظہارکا مقابلہ۔ (جاری)