دسمبر کا مہینہ بڑا عجیب و غریب ہے۔ دسمبر کے عنوان سے اُردو اور انگریزی زبانوں میں بے شمار شاعری ہوتی آئی ہے۔ دسمبر بہت سارے لوگوں کیلئے ملنے کا موسم ہے۔ کئی ایسے بھی ہیں جو اس کو بچھڑ جانے کا موسم کہتے ہیں۔ دسمبر کے 25 تاریخ حضرت عیسی ابن مریمؑ کی پیدائش کے دن طور پر منایا جاتا ہے۔ دسمبر میں سورج بھی نیا روپ دھار لیتا ہے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ دسمبر کے مہینے میں سورج شٹل کاک برقعہ پہن لیتا ہے‘ جس کی وجہ یہ ہے کہ دسمبر میں ادھر سورج نکلا اور شٹل کاک کی آنکھوں سے جھانک کر ہم سب پر ایک نگاہ ڈالی‘ دھوپ کی جھلک دکھانے کے بعد فوراً چلمن کے پیچھے چھپ گیا۔ موجودہ دسمبر کی پہلی تاریخ کو تروتازہ، شریف جمہوریت کا پھل کھا کھا کر بدہضمی کے شکار شاعر نے اپنے محبوب کو یوں مخاطب کیا:
نہیں ہے گیس، نہ بجلی، نہ پانی
مرے گھر میں سلنڈر آ گیا ہے
اُسے کہنا دسمبر آ گیا ہے...
1971ء اور 2016ء کے دسمبر میں بہت مماثلت بھی ہے اور بڑا فر ق بھی۔ 1971ء کے دسمبر نے پاکستانی قوم کو سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ دیا۔ 2016ء کا دسمبر اے پی ایس پشاور کے بچوں اور شہید طلبا و طالبات کے والدین، دوستوں اور خاندان کیلئے لہو رنگ دسمبر ہے۔ دسمبر 2016ء کے آغاز میں بھارت کی ہندوتوا حکومت کے وزیر داخلہ شری راجناتھ نے (خدانخواستہ) دس ٹکڑوں تقسیم کرنے کی بڑھک لگائی۔ ظاہر ہے راجناتھ مذاق نہیں کر رہا تھا۔ اُسے معلوم ہے کہ اس کی بات انڈیا کی ریاست کا سرکاری موقف ہے اور اس موقف کی گونج امریکہ بہادر سے لے کر اقوام متحدہ تک پہنچی ہے۔ بھارتی ریاست کے اس اعلان کے جواب میں وزیر اعظم نواز شریف نے جنگلے اور سریے سے بھرپور تقرری مہم کا اگلا مرحلہ شروع کر دیا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے بھارت نے کیسا سوال اٹھایا اور ہمارے وزیر اعظم نے کیسا جواب تلاش کر لیا؟ اسی بات سے 1971ء اور 2016ء کا فرق واضح ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں چند نکات صحیح صورت حال سمجھنے کیلئے کافی ہیں۔
پہلا:1971ء میں بھارت بنگلا دیش بنانے کا اعلان کر رہا تھا‘ دوسری جانب یحییٰ خان کیف و مستی میں غرق تھا۔ آج پھر بھارت پاکستان کے ٹکڑے کرنے کی راہ پر گامزن ہے‘ جس کے مقابلے میں ہمارے حکمران نئے جہاز، نئے ہیلی کاپٹر، نئے باتھ روم، نئے کپڑے اور میگا کرپشن کے بچے پیدا کرنے والے نئے نئے منصوبے سوچ رہے ہیں۔ نہ وزارت خارجہ‘ نہ کابینہ اور نہ ہی وزیر اعظم کے اردگرد کوئی ایسا تھنک ٹینک موجود ہے‘ جو گہری نظر سے ہندوستان کے ارادوں کا تجزیہ کرے، جوابی حکمتِ عملی بنائے یا دفاعی حکمتِ عملی مرتب کر سکے۔
دوسرا: بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی نئی لہر میں پاکستانی عوام محکوم کشمیریوں کے ساتھ ہیں‘ کشمیریوں کے دوست ہیں بلکہ ان کے بھائی بھی۔ دوسری جانب آج کے حکمران مودی کے یار ہیں‘ بلکہ بھارت کے ساتھ ہر قیمت پر یکطرفہ دوستی کی طلب گار بھی۔ ایسے میں قوم بھارت کو جواب دینے کیلئے کدھر دیکھے؟ 'ویٹنگ فار اللہ‘ والی فارن پالیسی کی طرف یا ریلیکسڈ اور انجوائے والی وفاقی کابینہ کی طرف۔
تیسرا: بھارت نے جس بھی کشمیری رہنما کو گرفتار کرتا ہے‘ چاہے وہ افضل گرو ہو یا مشتاق وانی‘ اُس کو عدالتی طور پر قتل کر دیتا ہے یا ماوراے عدالت یعنی پولیس مقابلے میں مار دیتا ہے۔ دوسری جانب ہمارے آج کے حکمران ہیں، جن کے سامنے سینہ تان کر کیمرے اور ویڈیو کے ذریعے کل بھوشن یادیو پاکستان میں دہشتگری کا اعتراف جرم کرتا ہے‘ مگر اس کے خلاف ابھی تک نہ ایف آئی آر درج کی گئی‘ اور نہ ہی اس کا ٹرائل شروع ہو سکا۔ ملک کا عام آدمی سوچتا ہے کہ کیا کوئی قانون و انصاف کا ادارہ ایسا نہیں جو کلبھوشن کا نوٹس لے سکے۔
چوتھا: 1971ء میں جنوبی ایشیا کے خطے میں بھارت تنہا تھا۔ آج پاکستان کے چاروں طرف بھارت کے ہمنوا موجود ہیں۔ اس صورت حال کے باوجود حکومت پارلیمنٹ کی مشترکہ قومی سلامتی کمیٹی تک بنانے کیلئے تیار نہیں۔ باقی زمینی حقائق بھی سب کے سامنے ہیں۔ مثلاً یہی کہ 1971ء میں جو بنگالی اسلام آباد آتا تھا‘ اس کو اسلام آباد کی سڑکوں میں سے پٹ سن کی بُو آتی تھی۔ آج جو پاکستانی لاہور پہنچتا ہے‘ اور جاتی امرا کی طرف جاتی ہوئی سڑک پر نیلی پیلی سرخ سفید رنگین مرکری لائٹس کو دیکھتا ہے‘ تو اسے پاناما یاد آ جاتا ہے۔ آئین حکمرانوں کے سامنے بے بس ہے اور انصاف موم کی ناک۔ قانون مجبور اور معذور ہے۔ قومی وسائل ایک خاندان کے کاروبار کی ترقی پر خرچ ہو رہے ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ موٹروے کو پنڈی سے لاہور لے جانے کیلئے 100 کلومیٹر کا فاصلہ بڑھ گیا اور بے چاری M-2 راستہ بھول کر سیدھی رائیونڈ جا پہنچی؟ آپ اسے حسنِ اتفاق کہہ لیں کہ میں موٹروے کرپشن ریفرنس میں نواز حکومت کے وفاقی وزیر مواصلات جناب اعظم خان ہوتی کا وکیل رہا ہوں۔ اس ریفرنس کا ٹرائل مغلِ اعظم کے بنائے ہوئے اٹک کے قلعے میں ہوا تھا۔ پنڈی، لاہور موٹروے کے پہلے بلیو پرنٹ کے مطابق یہ موٹروے ٹیکسلا سے روات اور پھر روات سے اور شرقی گجر خان سے گزر کر سیدھی لاہور ایئرپورٹ پہنچنا تھی۔ پہلے اس وقت کے مشہور جج نے اس موٹروے کا بازو مروڑا‘کیونکہ اس نے اٹک اور پنڈی کو ملانے والے کھیری مورت کے پہاڑ کو ہزار‘ دو ہزار روپے فی کنال کے حساب سے خرید رکھا تھا۔ موٹروے کوہ نمک تک جا پہنچی‘ جہاں ایک معروف ڈپٹی کمشنر نے حکمرانوں کو خریداری کروائی‘ اور یوں M-2 جی ٹی روڈ کی طرف سے مشرق کی بجائے جرنیلی سڑک کے مغرب میں ٹرانسفر ہو گئی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کو ویلفیئر ریاست بنانے کیلئے دفاعی اخراجات ختم کر دینے چاہئیں۔ یہ لوگ بیس کروڑ میں ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔ ان کا سپانسرڈ ایجنڈا مقامی نہیں عالمی ہے۔ ان کے سارے دلائل کا جواب لیبیا، لبنان، شام، عراق اور تیونس سے ملتا ہے۔ کیا ان ملکوں نے فوج ختم ہو جانے کے بعد ترقی کر لی یا پھر یہ کھنڈر بن چکے ہیں؟
میرے عزیز ہم وطنو! اور شریف جمہوریت کے لذیز ہم وطنو! گھبرانے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ ہم ایٹمی قوت ہیں‘ پاکستان ایک منظم ریاست ہے‘ قوم جاگ رہی ہے جبکہ حکمرانوں کے خراٹے اور خرمستیاں جاری ہیں۔ سری پائے، کھد، تافتان، مغز سے خالی ہوتے ہیں۔ یہ سرزمین ہماری ماں ہے۔ اس کے سر کے آنچل کو بچانے کے لیے بھارت نواز تاجر کچھ نہیں کریں گے۔ مشیر کاظمی نے ایسے تاجروں کے منہ پر تمانچے رسید کیے:
پھول لے کر گیا، آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آ رہی تھی صدا
یہ وطن مجھ کو آدھا گوارا نہیں
سرنگوں قبر پہ تھا منارِ وطن
کہہ رہا تھا کہ اے تاجدارِ وطن
جس کی خاطر کٹے قوم کے مرد و زن
یہ تصور تو ہرگز ہمارا نہیں
کیا فسانہ کہوں ماضی و حال کا
شیر تھا میں بھی اک ارض بنگال کا
شرق سے غرب تک میری پرواز تھی
ایک شاہیں تھا میں ذہن اقبال کا
ایک بازو پہ اُڑتا ہوں میں آج کل
دوسر ا دشمنوں کو گوارا نہیں
کچھ تمہاری سیاست کی مجبوریاں
کچھ ہماری شرافت کی مجبوریاں
تم نے روکے محبت کے خود راستے
اس طرح ہم میں بڑھتی گئی دوریاں
کھول تو دوں میں رازِ محبت مگر
تیری رسوائیاں بھی گوارا نہیں