میرے ساتھ پوری فیملی تھی۔ ایک عرب ملک کے ایک شہر کی ہائی سٹریٹ کا معروف شاپنگ مال۔ اگر آپ بچوں کے ساتھ شاپنگ کرنے کے لئے نہیں نکلے تو آپ کو پتہ نہیں لگ سکتا کہ واس کو ڈے گامانے کس مشکل سے امریکہ دریافت کیا ہو گا۔ خاص طور پر جمہوری گھرانوں میں ون مین ون ووٹ کا اصول رائج ہے۔ اس کے باوجود تھکے ہوئے قافلے میں کافی پینے پر اتفاق رائے ہو گیا۔ شاپنگ سینٹر کے آخری فلور پر کافی شاپ کا انتخاب ہوا۔ فیملی سائیڈ پر ٹیبل مل گیا‘ جہاں ہر ٹیبل کے ساتھ شیشہ (پنجابی حقے کاماڈرن برانڈ) رکھا تھا۔ تقریباً ہر ٹیبل پر کوئی نہ کوئی شیخ یا شیخہ‘ شیشہ پیتا نظر آئے۔ کافی شاپ کی میز پر برائون شکر، سفید چینی، نمک، مر چ کے علاوہ شیشے کے بہت سارے فلیور پڑے تھے۔ اﷲکا شکر ہے میرے گھر میں سب نان سموکر ہیںاس لیے ہم شیشے کی لذت سے محروم رہ گئے۔ مجھے خیال آیا کہ اگر شیشہ اتنا ہی مضر ِ صحت ہے تو ایسے کنٹرولڈ شہر میں اس کا کیا کام؟ جن لوگوں نے شیشہ نہیں دیکھا وہ اپنے ہاں کا روایتی حقہ دیکھ لیں۔دونوں میں صرف ایک فرق ہے ۔ ہمارے حقے میں مختلف قسم کے تمباکو استعمال ہوتے ہیں‘ جبکہ شیشہ میں آگ کے انگاروں پر مصنوعی تمباکو کے ذائقے رکھے جاتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جس طرح الیکٹرک سگریٹ اور الیکٹرک سگار، کیوبا کے سگار اور کراچی کی بیڑی کا تازہ ماڈل ہے۔
مجھے حقہ پینے کی عادت پر کوئی اعتراض نہیں‘ جس کی وجہ یہ ہے کہ میرے وسیب میں انتہائی تعلیم یافتہ، معتبر، مہذب اور صوم و صلوٰۃ کے پابند بزرگ بھی حقہ پیتے آئے ہیں۔ غالباً پاکستان کے ہر دیہی علاقے میںحقہ ہائوس ہولڈ آیٹم ہے۔ ہاں البتہ شیشے سے ہماری صحت یا معاشرے کو کون سے خطرات لاحق ہیں‘ اس بارے میں "انسداد شیشہ مہم" والے مکمل معلومات رکھتے ہوں گے۔ شایدہاںیاشایدنہیں۔
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ چین ، جاپان ، کوریا ، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور کئی دوسرے ملکوں میں اُڑنے والی پتنگوں پر پابندی کیوں نہ لگ سکی؟ پھر یہ خیال بھی آتا ہے کہ پنجاب کے سب سے بڑے تہوار پر پابندی کا ذمہ دار کون ہے؟ پتنگ اُڑانے والا، پتنگ بنانے والا یا قانون لاگو کرانے والا؟ اوپر میں نے جن ملکوں کا ذکر کیا وہاں کے پتنگ میلے ساری دنیا سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ پاکستان میں بھی دنیا بھر سے بیرون ملک مقیم پاکستانی اور غیر ملکی سیاح ڈالروں سمیت آیا کرتے تھے۔ ہمارے خدمت گزاروں کا معجزہ دیکھ لیں ہر سال ہزاروں پرچے ہوتے ہیں۔ لاکھوں چھاپے پڑتے ہیں اور کروڑوں روپے سے زیادہ کی برآمدگی ہوتی ہے۔ پہلے "زرِمُبادلہـ" سرکار کے خزانے میں جاتا تھا‘ اب ـ"زرِ مُک مُکا" تھانیدار کے خزانے میں جمع ہوتا ہے۔ پھر یہ زِر مُک مُکا ہر بڑے دربار تک حصہ بقدرِ جُثہ پہنچ جاتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پتنگ اور پتنگ بازی پر پابندی سمیت پتنگ ہر شہر ہر قصبے میں ہوا میں اُڑ رہی ہے۔
اگر کوئی کلچرل این جی او اعداد و شمار بتا سکے تو ہمیں پتہ چلے گا کہ پتنگ بازی والی لوہے کی ڈور پھر نے سے زیادہ بچے ہلاک ہوئے یا زِر مُک مُکا جمع کرنے کی مہم کے دوران زیادہ بچے چھتوں سے گِرا کر مار ڈالے گئے۔ موٹر سائیکل ایکسیڈنٹ کرتے ہیں۔ بسیں40 سے50 بندے ایک قسط میں مار دیتی ہیں۔ موٹر کار پورے پورے خاندان منٹوں میں منوں مٹی میں بھیج سکتی ہے۔ ٹرک فٹ پاتھ کو مسل دیتے ہیں۔ ہوائی جہاز کر یش کر تے ہیں۔ پلازوں میں آگ لگتی ہے۔ ساری دنیا ہوائی سفر کو محفوظ بنا رہی ہے۔ ہمارے ہاں قومی ایئر لائن کو مزید بربادکرکے خود ہی خرید لینے کی کوشش جاری ہے۔ جس طر ح بینک، ملیں اور زمینیں کوڑیوں کے بھائو قومی اثاثوں کی فروخت کے لنڈا بازارمیں رکھی گئیں‘ پھر بیچنے والوں نے خرید ار بن کر یہ قومی اثاثے خود ہی ہتھیا لئے۔ آئیے اپنی جمہوریت کے ویژن اور فیصلہ سازی کی ہلکی سی جھلک دیکھتے ہیں۔ پچھلے سال ملتان اور لاہور میں 2 بار تفریحی پارک کے اندر جُھولا گر گیا۔ فیصلہ سازوں نے فوری طور پر پورے صوبے کے پارکوں پر تالے لگا دیے۔ نا کوئی جُھولا جھولے گا‘ نہ کوئی گرے گا۔ ویسے ہی جیسے نہ پتنگ ہو گی نہ ہی قاتل ڈور بنائی جائے گی۔ مضبوط جمہوریت کا یہ ویژن اسی طرح بڑھتا رہا تو ایک دن ہوائی جہاز ، فیس بُک، ریلوے پھاٹک ، گیس سلنڈر والی ویگن ، موٹر سائیکل اور ٹرک بند ہو جائیں گے۔ ائیر سیفٹی اور روڈ سیفٹی کا اس سے بہترین فارمولا اور کیا ہو سکتا ہے؟ ہر طرف کُھوتا گاڑیاں ،گُھوڑابَگھی، بَیلُوں کی گُڈ اورڈنڈوں سے گتّکا کھیلنے کے دلفریب مناظر نظر آیا کریں گے۔
کبھی کبھی مجھے یہ بھی خیال آتا ہے کہ ہمارے ہاں "پُڑیاں " بیچنے کی سزا موت ہے۔ امریکہ کی کسی ریاست میں اس کی سزا موت نہیں۔ اس وقت جیلوں میں منشیات ٹریفکنگ کے جرم میں سزا پانے والی خواتین موجود ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ اپنے ہاں انسداد منشیات کا سی این ایس اے نامی قانون ڈی اے ای نامی امریکی ادارے کی سفارش پر بنایا گیا۔ آج تک ملک میں نہ کوئی ڈرگ لارڈپکڑا گیا نہ منشیات کا پرڈیوسر۔ اور نہ ہی ٹریفک شدہ منشیات کا مالک سامنے آیا۔ سزا پانے والے اور پکڑے جانے والے 100فی صد کارندے ہوتے ہیں۔ میں کسی کو قصور وار نہیں سمجھتا‘لیکن کیا انسدادِ جرائم کے نام پر عوامی کلچر کا گلا دبا دیناجائز ہے؟
غریب لوگوں کے ملک میں عجیب قانون گَڈ مَڈ سے ہو گئے ہیں۔ ایسے ہی دو عدد عجیب و غریب قانون قومی اسمبلی نے حالیہ سیشن میں بغیر بحث کے پاس کر دیئے۔مجھے پورا یقین ہے ۔ دونوں قانون کسی فاضل رکن اسمبلی نے سِرے سے پڑھے ہی نہیں‘ ماسوائے وزیر قانون کے۔ ان میں سے ایک قانون کمال کا ہے۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر لگتا ہے۔ یعنی آدھا سویلین اور آدھا عسکری۔آدھا تیتر اور آدھا بیٹر قانون ہو یا پرندہ اس پہ صوفی تبسم سے اچھا تبصرہ شاید ہی کوئی اور کر سکے:
ایک تھا تیتر ایک بٹیر
لڑنے میں تھے دونو ں شیر
لڑتے لڑتے ہو گئی گم
ایک کی چونچ اورایک کی دُم
پاکستان ان چند عجیب ملکوںمیں سے ایک ہے‘ جہا ں پیدائش سے قبر تک ہر چیز کا قانون مو جو د ہے۔302،اجتما عی زیا دتی،بر سرِعام بر ہنہ کر نے، اغوا براے تاوان، نابالغ کے اغوا، انسداد دہشت گردی، سنگین غداری، ایکسپلوزِو مواد کا ایکٹ،انسدادِ منشیات سمیت بہت سارے قوا نین میں موت کی سزا موجود ہے۔ جیلیں گنجائش سے زیادہ رش لے رہی ہیں۔ اپنے ہاں غریب قانون کے لیے چارہ اور سر مایہ دار کے سامنے بے چارہ۔ یہی وجہ ہے کہ عجیب قانون اور غریب لوگ ایک دوسرے کے لیے مکمل اجنبی(perfect stranger) ہیں۔
شہرِاقتدارکاتازہ لطیفہ یوںہے:
شاہراہِ دستورپر نیا سائن بورڈلگ گیا۔
ہارن بجانا منع ہے ،اندرپاناما کیس سو رہا ہے۔