لاہور کے لوئر مال روڈ پر چلتے ہوئے کچہری چوک سے ایک سڑک بائیں طرف مڑتی ہے اس سڑک پر کچھ دور جائیں تو الٹے ہاتھ ایک کھلا قطعہ اراضی ہے اور اس کے بیچوں بیچ ایک بوسیدہ مگر پرشکوہ عمارت سر اٹھائے کھڑی ہے جسے ہم بریڈ لا ہال کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس کے خوب صورت فنِ تعمیر میں مشرق و مغرب کا خوبصورت امتزاج ہے۔ میں یہاں تیسری بار آیا ہوں''ایک بار دیکھا ہے دوبارہ دیکھنے کی ہوس ہے‘‘ کا عالم ہے۔ میں نے کبھی اس عمارت کو اندرسے نہیں دیکھا کیونکہ یہ کئی برسوں سے بند پڑی ہے اس کے دروازوں پر قفل پڑے ہیں۔ اس عمارت میں کیا خاص بات ہے جو ہمیں اپنی طرف بُلاتی ہے۔ اس کے لئے ہمیں وقت کی طنابیں کھینچنی ہوںگی۔ یہ 1900 کا سال ہے، اکتوبر کی 31 تاریخ اور لاہورکا ایک روشن دن، آج بریڈ لا ہال کا سنگِ بنیاد رکھا جا رہا ہے۔ سنگِ بنیاد رکھنے کے لئے کانگریس کے سینئر رہنما سریندر ناتھ بینر جی کو دعوت دی گئی ہے۔ اس عمارت کی تعمیرکا مقصد ہندوستان میں برطانوی حکومت کے خلاف مزاحمتی سیاست کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے۔ اس عمارت کا نام چارلس بریڈ لا کے نام پر رکھا گیا۔
بریڈ لا ا نگلش پارلیمنٹ کا ممبرتھا اور اپنی وضع کا واحد آدمی تھا۔ آزاد منش اورصاف گو، وہ ہندوستان کاروبار کے سلسلے میں آیا تھا لیکن جب یہاں کے لوگوں کی حالت دیکھی تو کسانوں کے ساتھ مل کر ان کی تحریکوں میںشامل ہو گیا۔ وہ صحیح معنوں میںہندوستان کی آزادی کا داعی بن گیا۔ بریڈ لا کی خواہش تھی کہ آزادی کی سرگرمیوں کو مؤثر بنانے کے لئے ایک مرکز مہیا کرنا ضروری ہے۔ اس کے لئے اس نے زمین کا وسیع قطعہ خریدا۔ ہندوستان کے انگریز حکمرانوں کو یہ کسی صورت قبول نہ تھا۔ ایک حکم کے ذریعے اسے فوراً ہندوستان کی سر زمین چھوڑنے کا حکم ملا۔ بریڈ لا ایک کشتی میں کھانے پینے کا سامان لے کر دریائے راوی میںچلا گیا کیونکہ حکومت کے حکم نامے میں لفظ ''زمین‘‘ استعمال ہوا تھا۔ اس پر بریڈ لا کو زبردستی ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ لیکن انگلستان جا کر بھی اس نے ہندوستان میں تحریکِ آزادی کی حمایت جاری رکھی اور 1889ء میں ہندوستان کے حوالے سے ایک بل پیش کیا۔ اسی سال اس نے انڈین نیشنل کانفرنس کے اجلاس میں شرکت بھی کی۔
ہندوستان سے بریڈ لا کی بے دخلی کے بعد مقامی سیاسی کارکنوں کے چندے سے بریڈ لا ہال کی تعمیر ہوئی۔ جلد ہی یہ عمارت ہندوئوں، مسلمانوں اورسکھوں کا مشترکہ مرکز بن گئی بریڈ لا ہال بیسویں صدی میں آزادی کے سرفروشوں کی آماجگاہ بنا رہا۔ کیسے کیسے لوگ اس عمارت کی رونق بڑھاتے رہے۔ قائداعظم محمد علی جناح، ابو الکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان، سید عطا اللہ شاہ بخاری، جواہر لال نہرو، لالہ لاجپت رائے، ملک برکت علی اور میاں افتخار الدین جیسے رہنما بریڈ لا ہال میں آتے رہے۔کئی سال تک یہ ہال بھگت سنگھ اور سکھدیو کی آماجگاہ رہا۔
بہت جلد بریڈ لا ہال سیاسی، ثقافتی عملی اور ادبی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ یہ انقلابی نوجوانوں کی ایک اہم تربیت گاہ تھی۔ تین اہم سیاسی تحریکیں‘ پگڑی سنبھال جٹّا، غدر پارٹی اور نوجوان بھارت سبھا کا آغاز بریڈ لا ہال سے ہوا۔ بعد میں ان تحریکوں نے عوام الناس میں آزادی کی تڑپ بیدار کی۔ گاندھی کی عدم تعاون کی تحریک جو 1920ء میں شروع ہوئی‘ میں لوگوں سے اپیل کی گئی کہ سرکاری دفتروں، تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اس اپیل کے ردعمل میں قومی تعلیم کے فروغ کے لئے مختلف متبادل تعلیمی ادارے بنائے گئے۔ لالہ لاجپت رائے جو بدیسی سرکاری تعلیم کے مقابلے میںقومی تعلیم کاحامی تھا، نے ایک قومی تعلیمی ادارہ بنانے کا ارادہ کیا۔ ایک ایسا ادارہ جہاں نوجوانوں کو قومی تعلیم دینے کے ساتھ ان میں سیاسی بیداری پیدا کی جائے۔ اس طرح بریڈ لا ہال میں 1921ء میں نیشنل کالج کا قیام عمل میں آیا۔ یہاں کوئی جامد نصاب (Fixed Curriculum) نہیں تھا۔ اساتذہ مختلف کتابوں کے حوالے دیتے، پڑھانے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو Political Activists تھے۔ یہیں پہ آزادی کے دو روشن ستارے بھگت سنگھ اور سکھ دیو نے بھی تعلیم حاصل کی، جنہوں نے انگریز سرکار کو للکارا اور جنہوں نے 23 مارچ 1931ء کو تختۂ دار پر انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگایا اور پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔
میں دو بار پہلے بھی یہاں آ چکا ہوں۔ عمارت کو دیکھتا ہوں، آزادی کے متوالوں کاتصورکرتا ہوں او مقفل دروازے دیکھ کر واپس آ جاتا ہوں لیکن آج مجھے عمارت کے اندر جانے کا موقع مل گیا۔ ایک عجیب سی کیفیت کا سامنا تھا۔ میرے سامنے ایک وسیع دلان نما ہال تھا۔ سامنے بلندی پر ایک سٹیج، دوسری منزل پر واقع کمرے جو کبھی نیشنل کالج کے کلاس رومز ہوں گے، جہاں عام تعلیم کے ساتھ ساتھ انقلاب اور آزادی پہ لیکچرز ہوتے ہوں گے، انہیں بینچوں پر بھگت سنگھ اور سکھ دیو جیسے کتنے نوجوان بیٹھتے ہوںگے، کیسے کیسے علمی اور سیاسی مباحثے ہوتے ہوں گے۔ کیسے انقلابی استاد نوجوانوں کے ذہنوں میں آزادی اور مزاحمت کا تصور جگاتے ہوں گے۔ اور اس سٹیج پر کیسی کیسی تقریبات ہوتی ہوں گی۔ مشاعرے، تقریری مقابلے اور ڈرامے۔ ان سب تقریبات کا محور آزادی اور مزاحمت کے موضوعات ہوتے۔ آزادی جس کے حسن نے نوجوانوں کے دلوں میں گھر کر لیا تھا اور پھر وہ دن آ گیا جب ہندوستان غلامی کے چنگل سے آزاد ہوا۔ پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا۔ اب نہ وہ انقلابی رہے نہ وہ تحریکیں۔ بریڈ لا ہال جو کسی وقت علمی، ادبی، ثقافتی اور سیاسی سرگرمیوں کی آماج گاہ تھا‘ یکلخت ویران ہو گیا۔ اس کے وسیع ہال کو اناج کا گودام گھر بنا دیا گیا۔ ایک زمانے میں یہ لوہے کا سٹور بھی بنایا گیا۔ پھر اس عمارت کو ملی تکنیکی ادارہ کے سپرد کر دیا۔ ادارے کے یہاں سے شفٹ ہونے کے بعد یہاں کے کمروں کو کرائے پر چڑھا دیا گیا۔ 2009ء کے بعد سے یہ عمارت کسی کے استعمال نہیں رہی۔ دروازوں پر زنگ آلود قفل ہیں، دیواروں کا رنگ و روغن ختم ہو گیا ہے۔ فرشوں کا پلستر اکھڑ گیا ہے۔ نصف صدی تک برطانوی استعمار کے خلاف سینہ سپر رہنے والی عمارت کسمپرسی کے عالم میں ہے۔ کاش کسی کی نگاہ ادھر بھی جائے۔ اب بھی وقت ہے کہ اس عمارت کو مکمل انہدام سے بچایا جا سکتا ہے۔ بریڈ لا ہال کی تاریخی اہمیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اسے ایک آزادی میوزیم بنایا جا سکتا ہے، جہاں آزادی کی تحریک کی کہانی تصویروں اور دستاویزات کی صورت میں محفوظ رہے۔ اس کا ایک حصہ لائبریری بنایا جا سکتا ہے، جہاں آزادی کے حوالے سے کتب اور آرکائیوز ہوں۔ ذرا سی محنت اورکوشش سے بریڈ لا ہال نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونِ دنیا کے لئے بھی دلچسپی کا مرکز بن سکتا ہے۔
کچھ لمحوں میں مَیں صدیوں کا سفر طے کر آیا ہوں۔ اب واپسی کا وقت ہو رہا ہے۔ میں آخری بار بریڈ لا ہال کے در و دیوار پر نظر ڈالتا ہوں۔ وہی در و دیوار جہاں کبھی آزاد ی کی ساحر نگاہیں اپنی جھلک دکھاتی تھیں اور نوجوانوں کی دلوں میں مزاحمت کی لَے اور تیز ہو جاتی تھی۔ فیض کے اشعار میری نگاہوں کا سوال بن جاتے ہیں۔
تونے دیکھی ہے وہ پیشانی‘ وہ رخسار‘ وہ ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمرگنوا دی ہم نے
اب ان ساحرآنکھوں پر ہونٹوں کے مرجان اور آنکھوں کے نیلم قربان کرنے والے باقی نہ رہے۔ ہم چاہیں بھی تو اُن کو واپس نہیں لا سکتے لیکن ہم چاہیں تو بریڈ لا ہال کو ضرور بچا سکتے ہیں جو اُن سرفروشوں کی یادگار ہے‘ جنہوں نے آزادی کی خاطر اپنی زندگیاں لُٹا دیں۔