راجہ مہدی علی خان کی مزاحیہ اور طنزیہ شاعری ان کی شخصیت کا ایک رنگ ہے۔ انہوں نے سنجیدہ شاعری بھی کی۔ ان کی شاعری کی ایک کتاب ''مضراب‘‘ میں ان کی شاعری کے دونوں رنگ موجود ہیں۔ اس کتاب کا انتساب میجر فیض احمد فیضؔ کے نام ہے۔ یاد رہے یہ وہ زمانہ تھا جب دوسری عالمی جنگ میں بہت سے ادیبوں اور شاعروں کو فوج میں اطلاعات کے محکمہ میں ملازمت دی گئی تھی۔ فیض احمد فیضؔ بھی ان میں شامل تھے۔ اس سے پہلے کہ ہم راجہ مہدی علی خان کی شخصیت کے دوسرے دلفریب رنگوں کا ذکر کریں جن میں ایک نمایاں رنگ ان کی فلمی شاعری ہے‘ ہمیں ان کی زندگی کے سفر پر ایک نظر ڈالنی ہو گی۔
راجہ کی زندگی کو دیکھیں تو یہ کسی افسانے سے کم نہیں جس میں کئی غیر متوقع موڑ آتے ہیں۔ وہ پنجاب کے علاقے وزیر آباد کے گاوں کرم آباد میں 23 ستمبر1915ء کو پیدا ہوئے۔یاد رہے کہ یہ گاؤں ان کے نانا کرم الٰہی صاحب کے نام پر آباد ہوا تھا جو علاقے کے بڑے جاگیردار تھے۔ ان کے والد ریاست بہاولپور میں ایک اعلیٰ حکومتی عہدے پر فائز تھے اور شعرو ادب کا ذوق رکھتے تھے‘ اور ان کی والدہ اردو کے معروف شاعر‘ ادیب‘ صحافی اور مقرر مولانا ظفر علی خان کی بہن تھیں۔ وہ خود بھی ایک معروف ادیبہ اور شاعرہ تھیں اور ح‘ب‘ صاحبہ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ ''نوائے حرمـ‘‘بھی شائع ہو چکا تھا۔یوں راجہ مہدی علی خان نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جس میں علم و ادب کا دور دورہ تھا۔ یہ ایک خوشحال گھرانا تھا اوران کی زندگی خوبصورت رنگوں سے عبارت تھی لیکن کہتے ہیں کہ زندگی کے راستے ٹیڑھے میڑھے ہوتے ہیں‘ہر وقت دھڑکا سا لگا رہتا ہے نجانے کس وقت‘ کہاں پر‘ کون سا موڑ آجائے۔ ایک دن ایسا ہی ایک غیر متو قع موڑ راجہ کی زندگی میں بھی آیا جس نے سب کچھ بدل دیا۔
وہ چار سال کا تھا کہ اس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اب زندگی کی طویل شاہراہ تھی اور دہکتی دھوپ میں باپ کا سایہ اس کے سر سے ہٹ چکا تھا۔ ایسے میں اس کی بہادر والدہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کے ماموں ظفر علی خان نے انہیں اپنی پناہ میں لے لیا۔ راجہ نے ہوش سنبھالا تو شعرو ادب کی دنیا ہی میں اپنی دلچسپی کا سامان پایا۔یوں اوائلِ عمری میں ہی راجہ نے کئی رسالوں میں ادارتی فرائض سرانجام دیے جن میں ماہنامہ عالمگیر‘ ہفت روزہ خیام‘ پھول اور تہذیبِ نسواں شامل ہیں۔ کچھ عرصے کے لیے انہوں نے اپنے ماموں مولانا ظفر علی خان کے اس وقت کے معروف اخبار ''زمیندار‘‘ میں بھی بطور سب ایڈیٹر کام کیا۔ مولانا ظفر علی خان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ زبان و بیان پر کبھی سمجھوتا نہ کرتے اور اس حوالے سے کسی رعایت کے قائل نہ تھے۔ ایک بار یوں ہوا کہ کسی کے انتقال کی خبر کے حوالے سے راجہ مہدی علی خان نے زمیندار اخبار میں '' فوتیدگی‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ مولانا ظفر علی خان کی اس پر نظر پڑی تو ان کا غصہ انتہاؤں کو چھونے لگا‘ انہوں نے اسی وقت اپنے بھانجے راجہ مہدی علی خان کو طلب کیا اور ان کی سخت الفاظ میں سرزنش کی۔ زمیندار اخبار میں وہ دن راجہ مہدی علی خان کا آخری دن ثابت ہوا۔ کہتے ہیں ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے۔ اگر وہ زمیندار سے نہ نکلتے تو باقی عمر صحافت میں ہی گزار دیتے اور ہم اس راجہ مہدی علی خان سے کبھی نہ مل پاتے جس نے فلمی دنیا کو یادگار گیت دیے۔
لاہور سے نکل کر کہاں جایا جائے؟ راجہ نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ تب اس کے ذہن میں آل انڈیا ریڈیو دہلی کا خیال آیا جہاں پہلے سے اس کے کئی جاننے والے موجود تھے۔ انہی میں سعادت حسن منٹو بھی تھا۔ یوں جب راجہ مہدی علی خان آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ ہوا تو وہاں معروف ادیبوں اور شاعروں کی کہکشاں تھی۔ یہ دہلی میں تیس ہزاری کا علاقہ تھا جہاں ان ادیبوں اور شاعروں کے گھر تھے جو آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ تھے۔ ان میں کرشن چندر‘ اوپندر ناتھ اشک‘ سعادت حسن منٹو‘ ن۔م راشد‘ چراغ حسن حسرت اور راجہ مہدی علی خان شامل تھے۔ ان سب میں راجہ منٹو کو اپنا جگری یار مانتا تھا۔ راجہ منٹو کو اپنا محسن سمجھتا تھا اور اس کی خود دار طبیعت کا معترف تھا۔ منٹو پر لکھے گئے خاکوں میں راجہ مہدی علی خان کا خاکہ خاصے کی چیز ہے۔ یوں راجہ اور منٹو دہلی کی صبحوں اور شاموں کے ساتھی بن گئے۔ لاہور کے زمیندار اخبار کے مقابلے میں راجہ کے لیے دہلی ریڈیو کے ماحول میں سیکھنے کے بہت سے امکانات تھے۔ یہاں اسے شاعری کے علاوہ نثر لکھنے کے مواقع ملے۔ یوں راجہ کی فنی زندگی میں شاعری اور صحافت کے ساتھ نثر کے رنگ شامل ہو گئے۔ لیکن ہر تخلیقی شخصیت کی طرح وہ نئے جہانوں کی تلاش میں رہتا تھا۔ اسی طرح کا ایک تازہ جہان ترجمہ کی دنیا تھی۔ ان میں ستارۂ صبح کے نام سے مغربی افسانوں کا ترجمہ اور بنگالی زبان کے ناول ''کملا‘‘ کا اردو ترجمہ شامل ہیں۔ راجہ کی زندگی میں ایک خوبصورت موڑ اس وقت آیا جب اس کی شادی طاہرہ سلطانہ مخفی سے ہوئی۔ اس سے راجہ کی متلاطم زندگی میں ایک ٹھہراؤ آیا۔ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ محبت کا یہ رشتہ تا عمر باقی رہا۔ راجہ اور طاہرہ کی کوئی اولاد نہیں تھی لیکن اس کمی کا راجہ نے اس طرح پورا کیا کہ اس نے بچوں کے لیے کہانیاں لکھنا شروع کر دیں۔اس طرح وہ بچوں سے اپنی تحریروں کے ذریعے باتیں کرتا تھا۔ یوں شاعری‘ نثر‘ صحافت‘ ریڈیو اورترجمے کے بعد راجہ نے اپنی تخلیق کے اظہار کے لیے ایک اور جزیرہ بچوں کا ادب تھا۔ اس نے بچوں کے لیے جو کتابیں لکھیں ان میں بونوں کا قلعہ‘ پری کا تحفہ‘ راج کماری چنپاشامل ہیں۔
لاہور میں زمیندار اخبار کی تنگنائے کے بعد راجہ اب آل انڈیا ریڈیو کے دلچسپ اور بارونق ماحول میں آچکا تھا۔ دن کو اس کی ملاقات اپنے فن کے ماہر آرٹسٹوں سے ہوتی اور شام کو اس کا وقت تیس ہزاری میں ادیبوں اور شاعروں کی بستی میں وقت گزرتا۔ اسی دوران راجہ کو معلوم ہوا کہ پیشہ ورانہ رقابت کسے کہتے ہیں‘ خاص کر سعادت حسن منٹو اور اوپندرناتھ اشک کی باہمی چپقلش تو بہت نمایاں تھی۔ بہت عرصہ پہلے میں نے معروف ادبی رسالے ''نقوش‘‘ میں اوپندر کا ایک طویل مضمون ''منٹو: میرا دوست‘ میرا دشمن‘‘ پڑھا جو اوپندر اور منٹو کی کھٹی میٹھی دوستی کا دلچسپ احوال تھا۔ یہ دوسری عالمی جنگ کا زمانہ تھا جب شعرو ادب کے بہترین دماغ صحافتی مورچہ سنبھالے ہوئے تھے۔ سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ اچانک ایک دن سعادت حسن منٹو نے اسے ایسی خبر سنائی کہ راجہ کا دل دھڑکنا بھول گیا۔ منٹو نے بتایا کہ وہ دلی چھوڑ کر بمبئی جا رہا ہے جہاں اسے فلموں کے مشہور ادارے ''فلمستان‘‘ میں کام کی پیشکش ہوئی تھی۔ منٹو کے جانے کے بعد راجہ کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ بھرے میلے میں اکیلا رہ گیا ہے۔ کہنے کو تو سب کچھ ویسا ہی تھا لیکن شاید سب کچھ ویسا نہیں تھا۔ راجہ کو یوں لگ رہا تھا کہ اس کی زندگی میں ایک گہرا خلا آگیا۔ اس کی بیوی طاہرہ نے بھی محسوس کیا کہ راجہ کی شگفتہ شخصیت جیسے بجھ کے رہ گئی ہے۔ وہ جانتی تھی راجہ منٹو کے لیے اداس ہے۔ راجہ معمول کے مطابق ہر روز ریڈیو جاتا‘ اپنا کام نپٹاتا اور واپس آجاتا‘ لیکن اس معمول میں منٹو کی رس بھری باتوں اور قہقہوں کی کمی تھی۔ تب ایک روز اچانک اسے منٹو کا پیغام ملا۔ منٹو نے اسے بمبئی بلایا تھا۔ پیغام پا کر راجہ کا جی چاہا کہ اس کے پر لگ جائیں اور وہ اُڑ کر بمبئی پہنچ جائے۔ (جاری)