"SSC" (space) message & send to 7575

جلیانوالہ باغ اور اُدھم سنگھ کا وعدہ

تاریخ میں جلیانوالہ باغ اور اُدھم سنگھ کا نام ساتھ ساتھ آتا ہے۔ جب لیفٹیننٹ گورنر مائیکل اوڈائر کے حکم پر کرنل ڈائر نے اندھادھند فائرنگ کر کے سینکڑوں شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا‘ اُدھم سنگھ جلیانوالہ باغ میں موجود تھا۔مرنے والوں میں سکھ‘ ہندو اور مسلمان سب شامل تھے۔ اُس روز قیامت کا سماں تھا‘ ہر طرف چیخ و پکار تھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بچے‘ بوڑھے اور جوان فرنگیوں کی گولیوں سے کٹے ہوئے درختوں کی طرح گر رہے تھے۔ اُدھم سنگھ کے دل میں نفرت اور غصے کا طوفان امڈ آیا تھا۔تب اُدھم سنگھ نے جلیانوالہ کی خون آلود مٹی کو مٹھی میں بند کیا اور اپنی پوری قوت جمع کرکے چیخ کر کہا : میں اس خونِ ناحق کا بدلہ لوں گا۔یہ اس کا وعدہ تھا خود سے اور جلیانوالہ کے شہیدوں کے خون سے۔
ادھم سنگھ 26 دسمبر 1899ء کو پنجاب کے ایک گاؤں سونم میں پیدا ہوا۔ بچپن ہی میں اس کے ماں باپ انتقال کرگئے۔ اس نے سکول کی تعلیم حاصل کرلی تھی۔ ملک میں سیاسی ہلچل شروع ہوگئی تھی۔ لوگ فرنگیوں کے راج کے خلاف اُٹھ رہے تھے۔ پنجاب میں لوگوں کی آواز دبانے کیلئے تشدد کے سارے ہتھکنڈے استعمال ہو رہے تھے۔ ان سب اقدامات کے پیچھے گورنر اوڈائر کا ہاتھ تھا جو اُس وقت پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر تھا۔ یہ بات اہم ہے کہ اوڈائر اور ڈائر دو علیحدہ شخصیات تھیں۔ اوڈائر پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر تھا جبکہ ڈائر جس نے جلیانوالہ باغ میں فائرنگ کا حکم دیا‘ برطانوی فوج کا کرنل اور گورنر اوڈائر کا ماتحت تھا اور اس کے احکامات پر عمل کر رہا تھا۔گورنر اوڈائر نے جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام کے بعد اپنے ماتحت کرنل ڈائر کے اقدام کا دفاع کیا اور اسے حق بجانب قرار دیا تھا۔ سیاسی معاملات کی ذرا بھی سوجھ بوجھ رکھنے والے جانتے تھے کہ پنجاب میں ظالمانہ اقدامات کی وجہ وہاں کا لیفٹیننٹ گورنر اوڈائر ہے۔ جلیانوالہ باغ کے واقعے کے بعد شائع ہونے والی اپنی کتاب India as I Knew It میں اوڈائر نے پنجاب کے حوالے سے لکھا کہ اُس وقت دہشت گردی کے واقعات ہو رہے تھے‘ اور سیاسی ایجی ٹیشن کی فضا تھی۔ مئی 1913ء میں جب اوڈائرنے پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر کا عہدہ سنبھالا تو اسے اُس وقت کے وائسرائے نے خبردار کیا تھاکہ پنجاب وہ صوبہ ہے جس کے بارے میں حکومت سب سے زیادہ فکرمند ہے‘ یہاں کی صورتحال آتش گیر مادے کی طرح ہے‘ اگر ہمیں دھماکے سے بچنا ہے تو صورتحال سے محتاط طریقے سے نمٹنا ہو گا۔ یوں اوڈائر کے دل ودماغ میں ابتدا ہی سے یہ ڈر جگہ پاچکا تھا کہ پنجاب کے لوگ کسی وقت بھی اس کی حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کرسکتے ہیں۔ان کو روکنے کا واحد طریقہ ایسے سخت اقدامات تھے جن سے انتظامیہ کو قانونی سپورٹ بھی میسر ہو۔ اس کیلئے 1918ء میں ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ نافذ کیا گیا جس کے تحت حکومت کو سپیشل ٹربیونلز قائم کرنے کی اجازت مل گئی‘ جن کے فیصلوں کے خلاف اپیل نہیں کی جاسکتی‘ یعنی نہ اپیل‘ نہ دلیل‘ نہ وکیل۔ ان سب اقدامات کا مقصد انقلابیوں کو سرگرمیوں سے روکنا تھا۔
ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کی تیاری اورنفاذ میں لیفٹیننٹ گورنر پنجاب اوڈائر کا اہم کردار تھا۔ یہ ایکٹ ان انقلابی سرگرمیوں کو روکنے کی کوشش تھے جنہوں نے پنجاب اور بنگال میں فرنگیوں کی نیندیں اُڑا دی تھیں۔ ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کے بعد ایک اور ظالمانہ ایکٹ رولٹ ایکٹ (Rowlatt Act) کا نفاذ تھا جس کے تحت رہی سہی شخصی آزادی بھی ختم ہو گئی۔ اس پر پنجاب میں شدید ردِعمل آیا۔ لوگ ہزاروں کی تعداد میں مظاہروں میں شرکت کرنے لگے۔
مائیکل اوڈائر‘ جس کے ذہن میں پہلے ہی انقلابیوں کا خوف بیٹھا ہوا تھا‘ کو یقین ہو گیاکہ 1857ء کی تاریخ اپنے آپ کو دہرانے لگی ہے اور اگر اس تحریک کو ابھی سے نہ روکا گیا تو برصغیر میں ان کی حکومت ختم ہوسکتی ہے۔ اوڈائر کے لیے یہ صورتحال تشویشناک تھی۔ اس کا پرانا خوف پھر سے تازہ ہوگیا‘ اس نے اپنے آپ سے عہد کیا کہ وہ ایسا ہرگز نہیں ہونے دے گا۔ اگلے ہی روز اُس نے ہر قسم کی سیاسی سرگرمی پر پابندی لگا دی اور پھر 13 اپریل 1919ء کا دن آگیا جب لیفٹیننٹ گورنر اوڈائر کے ماتحت کرنل ڈائر نے نہتے لوگوں پر فائرنگ کا حکم دیا‘ جس کے نتیجے میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے اور 1500 کے قریب زخمی ہوئے۔ اُس دن نوجوان اُدھم سنگھ کی آنکھوں میں یہ سارا منظر محفوظ ہوگیا تھا۔ اب اس کی زندگی کا مقصد ایک ہی تھا‘ اس فائرنگ کے ذمہ داروں سے نہتے لوگوں کے خون کا بدلہ لینا۔
دولوگ اس کے ٹارگٹ تھے پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنراوڈائر اور جلیانوالہ باغ میں فائرنگ کا حکم دینے والا کرنل ڈائر۔ اس نے اپنی زندگی اس کام کیلئے وقف کر دی۔ وہ افریقہ اورامریکہ سمیت کئی ممالک میں گیا۔ 1924ء میں اُس نے '' غدر پارٹی‘‘ میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرلی۔ اُس پارٹی میں زیادہ تر پنجاب سے تعلق رکھنے والے وہ سکھ شامل تھے جو وطن سے دور بیٹھے ہندوستان کی آزادی کیلئے جدوجہد کررہے تھے۔ 1927ء میں خبر ملی کہ کرنل ڈائر طبعی مو ت مر گیا ہے۔ اب اس کا ایک ہی ٹارگٹ تھا: پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر اوڈائر جس کی خواہش اور مرضی سے تشدد کے واقعات ہوئے تھے۔ اوڈائر ہندوستان میں اپنی ملازمت پوری کرنے کے بعد برطانیہ جا چکا تھا اور اپنی ریٹائرڈ زندگی سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ 1927ء میں اُدھم سنگھ ہندوستان آگیا لیکن اسی سال اسے غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے جرم میں گرفتارکر لیا گیا۔ وہ 1931ء میں جیل سے رہا ہوا۔ 1934ء میں اُدھم سنگھ لندن پہنچ گیا۔ وہیں ایک روز اسے اطلاع ملی کہ مائیکل اوڈائر ایسٹ انڈین ایسوسی ایشن اور سنٹرل انڈین سوسائٹی کے ایک اجلاس میں شرکت کرے گا۔ یہ اجلاس 13 مارچ 1940ء کو Caxton Hall میں ہورہا تھا۔ آخرکار وہ دن آگیا جس کا اُدھم سنگھ کو اکیس سال سے انتظار تھا۔آج وعدہ پورا کرنے کا دن آ گیا تھا۔ اُدھم سنگھ اوورکوٹ پہنے اور ہاتھ میں ایک کتاب لیے لندن کے Caxton Hallپہنچ گیا۔ ایک روایت یہ ہے کہ اس نے ریوالورکو بڑے سائز کی کتاب میں چھپارکھا تھا۔ دوسری روایت کے مطابق ریوالور اس کے اوورکوٹ کی اندرونی جیب میں تھا۔ اُدھم سنگھ ہال میں جاکر پچھلی کرسیوں پر بیٹھ گیا۔ اب اوڈائر سٹیج پر آگیا تھا۔ اُدھم سنگھ کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ اس کے کانوں میں جلیانوالہ باغ کے زخمیوں کی چیخیں گونجنے لگیں۔ وہ اپنی کرسی سے اُٹھا‘ اطمینان سے چلتا ہوا سٹیج کی طرف گیا اور نشانہ لے کر تین گولیاں مائیکل اوڈائر کے جسم میں اتار دیں۔ مرتے وقت اوڈائر کی آنکھوں میں حیرت تھی۔
اُدھم سنگھ نے بھاگنے کی کوشش نہیں کی اور اپنے آپ کو گرفتاری کیلئے پیش کردیا۔ دودن کا ٹرائل ہوا جس میں اُدھم سنگھ نے واضح طور پر کہا کہ اس نے اوڈائر کو مارکر جلیانوالہ میں مرنے والوں کی روحوں سے اپنا دیرینہ وعدہ پورا کیا ہے۔ اُسے اپنے اقدام پر کوئی شرمندگی نہیں تھی۔اُدھم سنگھ نے جیل میں پابندیوں کے خلاف 42دن کی طویل بھوک ہڑتال کی آخر 31 جولائی 1940ء کو اسے Pentvilleجیل میں پھانسی دے دی گئی۔ اُدھم کی پھانسی نے مزاحمت کے سفرکو اور تیز کردیا اوراس کے سات سال بعد1947ء میں فرنگیوں کوہندوستان سے رخصت ہونا پڑا۔ جلیانوالہ باغ کا خون رنگ لے آیا اور ادھم سنگھ کا آزاد وطن کا خواب پورا ہو گیا۔ 1974ء میں ادھم سنگھ کا جسدِ خاکی لندن سے بھارت لایا گیا اور اس کے بدن کی راکھ ستلج کی لہروں کے سپرد کر دی گئی۔وہی لہریں جن میں بھگت سنگھ‘ سکھ دیو اور راج گرو کی راکھ بھی شامل تھی‘ جنہوں نے اپنی جوانیاں صبحِ آزادی کیلئے قربان کر دی تھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں