منٹو دہلی ریڈیو سے بمبئی کے فلمستان میں آگیا تھا۔ یہ ایک بالکل نئی دنیا تھی۔ رنگ و نور میں ڈوبی ہوئی دنیا۔ بمبئی کے آسمان پر فلمی ستاروں کی جگمگاتی کہکشاں تھی۔ منٹو کے دوستوں میں ادیب بھی تھے‘ شاعر بھی اور فلمی ستارے بھی۔ انہی میں اشوک کمار بھی تھا۔ اشوک کمار اداکار بھی تھا اور فلموں کا ہدایت کار بھی۔ اس نئی جگہ اور نئے ماحول میں کھنکھناتے قہقہوں کے پیچھے ایک مصنوعی پن تھا۔ ایسے میں اسے اپنے پنجابی دوست راجہ مہدی علی خان کی یاد آئی جو دہلی میں اس کی محفلوں کا شریک تھا۔ جس کی صبحیں اور شامیں اس کے ساتھ گزرتی تھیں۔ جس کے بلند قہقہے تھوڑی دیر کے لیے زندگی کے سارے غم بھلا دیتے تھے۔ منٹو نے سوچا کیا ہی اچھا ہو اگر راجہ بمبئی آجائے اور ایک بار پھر اس کی صبحوں اور شاموں میں شریک ہو جائے۔ خیال تو اچھا تھا لیکن اس کی تعبیر کیسے ملے۔ وہ اسی سوچ بچار میں تھا کہ اچانک اسے ایک ترکیب سوجھی۔ ان دنوں منٹو اشوک کمار کے لیے ایک فلم کی کہانی لکھ رہا تھا۔ اس فلم کا نام ''آٹھ دن‘‘ تھا۔ منٹو نے اشوک کمار سے راجہ کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ ہماری فلم کے لیے اچھے مکالمے لکھ سکتا ہے۔ اشوک کمار کو یہ تجویز پسند آئی۔ یوں راجہ کی دہلی سے بمبئی آنے کی راہ ہموار ہو گئی۔ جب منٹو کا پیغام راجہ کو ملا تو اسے یوں لگا جیسے اس کے دل کی مراد بر آئی ہو۔ اس نے اسی وقت دہلی چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور بمبئی پہنچ گیا۔
فلم ''آٹھ دن‘‘ راجہ کے فلمی سفر کا پہلا سنگِ میل تھا۔ اس فلم کی کہانی منٹو اور مکالمے راجہ مہدی علی خان نے لکھے۔ اس فلم کی ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ اس میں سعادت حسن منٹو‘ راجہ مہدی علی خان اور اوپندر ناتھ اشک نے بھی اداکاری کی تھی۔ اور تو اور ایک بہت مختصر رول معروف شاعر میرا جی کا بھی تھا۔ ''آٹھ دن‘‘ 1946ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم سے بالی وڈ میں راجہ کا تعارف تو ہو ہی گیا تھا لیکن راجہ کے فن کے اصل جوہر اُس وقت کھلے جب 1947ء میں بننے والی فلم ''دو آدمی‘‘ میں راجہ کو گیت لکھنے کے لیے کہا گیا۔ شاعری راجہ کا پسندیدہ میدان تھا لیکن اس کے دل میں ایک اندیشہ سا تھا کہ فلموں میں گیت نگاری کا اس کا پہلا تجربہ کامیاب ہو گا یا نہیں۔ لیکن قسمت کی دیوی اس پر مہربان تھی۔ اس فلم میں راجہ کا پہلا ہی گیت ''میرا سندر سپنا بیت گیا‘‘ اُسے شہرت کی بلندیوں پر لے گیا۔ اتفاق سے یہ گیت گانے والی گلوکارہ گیتا دَت تھی جس نے ایک سال قبل ہی فلموں میں گائیکی کا آغاز کیا تھا۔ اس گیت کے ساتھ وہ بھی شہرت کے آسمان پر پہنچ گئی۔ اس فلم کا ایک اور گیت ''یاد کرو گے یاد کرو گے اک دن ہم کو یاد کرو گے‘‘ جو گیتا دَت کی آواز میں تھا‘ وہ بھی لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا۔ یوں راجہ نے اپنی پہلی فلم سے ہی بطور گیت نگار فلمی دنیا میں قدم جما لیے۔
کیسی دلچسپ بات ہے کہ راجہ کی کتاب ''اندازِ بیان‘‘ کی شاعری طنز و مزاح کا اعلیٰ نمونہ ہے لیکن اس کے برعکس اس کے فلموں کے لیے لکھے ہوئے گیتوں میں اداسی کا رنگ نمایاں ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ مزاح ہو یا سنجیدہ شاعری دونوں میں راجہ اپنے ادبی فنی معیار کو برقرار رکھتاہے۔ راجہ بظاہر بات بات پر قہقہے لگاتا ہوا ایک خوش باش شخص تھا۔ اس سے ایک بار ملنے والا اسے کبھی بھول نہ پاتا۔ اس کے دم سے محفلوں میں رونق ہوتی۔ لیکن کسے خبر تھی کہ راجہ کے اندر ایک گہری اداسی بُکل مارے بیٹھے تھی۔ کتنے ہی دکھوں کی آنچ رفتہ رفتہ اس کا دل پگھلا رہی تھی۔ اس کا پہلا دکھ اس کے والد کا انتقال تھا۔ اس وقت راجہ کی عمر صرف چار سال تھی۔ اس کا دوسرا دکھ اپنے آبائی علاقے وزیر آباد اور پھر لاہور سے رخصتی تھی۔ چھوڑے ہوئے راستوں کی یاد ہمیشہ اس کے ساتھ رہی۔ یوں تو وہ قیامِ پاکستان سے پہلے ہی دہلی چلا گیا تھا جہاں اسے ریڈیو میں ملازمت مل گئی تھی۔ 1947ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا لیکن راجہ بمبئی میں ہی رہ گیا۔ راجہ کا ہندوستان میں رہ جانا آسان فیصلہ نہ تھا کیونکہ اس کے سارے رشتے دار پاکستان میں تھے جن میں اس کی ماں بھی شامل تھی۔ اس فیصلے کے پیچھے بڑی وجہ اس کی بیوی طاہرہ تھی۔ طاہرہ فرخ آباد ضلع فتح گڑھ کے نواب محمود علی خان کی بیٹی تھی۔ طاہرہ خود بھی شاعرہ تھی اور مخفی تخلص کرتی تھی۔ راجہ اور طاہرہ کے گھر کوئی اولاد نہیں تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے زندہ تھے۔ راجہ کے اندر ایک خلا تھا۔ اس کے گھر میں بچوں کی آوازوں کے رنگ نہیں تھے۔ اس تنہائی کے مداوا کے لیے راجہ اور طاہرہ نے بلیاں پال رکھی تھیں۔ گھر میں مہمان آتے تو راجہ کی بلیوں کو دیکھ کر محظوظ ہوتے۔ راجہ کا فلمی سفرکامیابی سے جاری تھا۔ اس سفر میں اس وقت ایک اہم موڑ آیا جب اس کی ملاقات معروف موسیقار مدن موہن سے ہوئی۔ مدن موہن کا تعلق چکوال سے تھا۔ پہلی ملاقات ہی میں ان کے درمیان ایسی دوستی کا آغاز ہوا جس نے بالی ووڈ کو لازوال گیت دیے۔ 1951ء میں ''مدہوش‘‘ فلم میں راجہ کی شاعری اور مدن موہن کی موسیقی نے اپنا جادو جگایا۔ اس فلم میں طلعت کی آواز میں راجہ کی شاعری اور مدن موہن کی موسیقی نے مل کر ایک سدابہار گیت ''میری یاد میں تم نہ آنسو بہانا‘‘ تخلیق کیا جو نصف صدی گزرنے کے بعد بھی ترو تازہ ہے۔
راجہ مہدی علی خان اور مدن موہن کی اس جوڑی نے متعدد فلموں میں گیتوں کا جادو جگایا۔ ان فلموں میں مدہوش‘ اَن پڑھ‘ میرا سایہ‘ وہ کون تھی‘ نیلا آکاش‘ دلہن ایک رات کی اور نواب سراج الدولہ شامل ہیں۔ راجہ مہدی علی خان اور مدن موہن کا ایک اور گیت ''لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو‘‘ لتا کی آواز میں اَمر ہو گیا۔ ایک انٹرویو میں جب ہزاروں کی تعداد میں گیت گانے والی گلوکارہ سے اُس کے پسندیدہ گیت کے بارے میں پوچھا گیا تو لتا نے کہا ''لگ جا گلے‘‘۔ یہ ایک عظیم فنکارہ کا راجہ اور مدن موہن کے فن کا برملا اعتراف تھا۔
فلمی دنیا کی چکا چوند میں وہ ایک کامیاب گیت نگار تھا۔ اس نے فلمی دنیا کو ساڑھے چار سو گیت دیے‘ لیکن اس کے اندر اُداسی اور تنہائی نے ڈیرہ ڈالا ہوا تھا۔ پاکستان سے آنے کے بعد وہ صرف ایک بار اپنی بیوی طاہرہ کے ساتھ پاکستان آیا‘ باقی ساری عمر اپنے پیاروں سے دور گزار دی۔ کوئی شے اسے اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی‘ بظاہر ہنستا کھیلتا راجہ بیماری کی گرفت میں آ کر دہلی کے ماہم ہسپتال پہنچ گیا اور پھر ایک روز ہنستا کھیلتا راجہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ اُس وقت اس کی عمر صرف اکاون برس تھی۔ کیسی بے بسی تھی کہ پاکستان میں رہنے والی اس کی ضعیف ماں اس کا آخری دیدار بھی نہ کر سکی۔ راجہ کے جنازے میں اس کے دوستوں اور چاہنے والوں کی کثیر تعداد شامل تھی۔ کہتے ہیں جب اس کا جنازہ جا رہا تھا کہیں دور سے راجہ کے گیت کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ ''لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو/ شاید پھر اس جنم میں ملاقات ہو نہ ہو‘‘۔ ساری عمر لوگوں کو ہنسانے والا آج سب کو رُلا کر جا رہا تھا۔ (ختم)