راجہ مہدی علی خان سے میرا تعارف اس وقت ہوا جب میں پرائمری سکول میں پڑھتا تھا اور ہم اس وقت راولپنڈی کے ایک پرانے علاقے مریڑ حسن میں رہتے تھے۔ ہمارے گھر کے ماحول میں کتابوں اور کتب بینی کی مرکزی اہمیت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ میں اوائلِ عمری سے ہی کتابیں پڑھنے کی طرف راغب ہوا۔ بچپن سے مطالعے کی یہ عادت اب تک میرے ہمراہ چل رہی ہے۔ ہمارے گھر میں ایک لائبریری ہوا کرتی تھی جس میں مختلف موضوعات پر کتابیں تھیں۔ ایک دن ہماری لائبریری میں ایک نئی کتاب کا اضافہ ہوا جو آتے ہی چھوٹوں بڑوں میں مقبول ہو گئی۔ یہ راجہ مہدی علی خان کی مزاحیہ شاعری کی کتاب ''اندازِ بیاں اور‘‘ تھی۔ ''اندازِ بیاں اور‘‘ ایک ایسی کتاب تھی جس کی کئی پرتیں تھیں اور جسے ہر عمر میں پسند کرنے کی اپنی وجوہات ہیں۔ یہ ان چند کتابوں میں شامل تھی جسے عمر کی کئی منزلیں طے کرتے ہوئے میں نے کئی بار پڑھا اور ہر دفعہ لطف اندوز ہونے کے ساتھ معانی کے نئے پہلو میرے سامنے آئے۔ کتاب میں شامل کئی نظمیں ان ممنوعہ موضوعات پر ہیں جن پر گفتگو کے لیے جرأت چاہیے۔ اسی طرح ایسی رسومات کو نظموں کا موضوع بنایا گیا ہے جن کی تہہ میں منافقت کا بسیرا ہے۔ نظموں کی سطح پر اندازِ بیان اتنا دلچسپ اور پُر لطف ہے کہ پڑھنے والا اس سے حظ اٹھاتا ہے۔ لیکن قہقہوں کی زیریں سطح پر سنجیدہ تنقید ہے جو شاعر کی فرسودہ روایات سے بیزاری سے پھوٹتی ہے۔ ''اندازِ بیاں اور‘‘ دہلی اور پھر لاہور سے 1960ء کی دہائی میں شائع ہوئی اور اس کا دیباچہ معروف ادیب‘ شاعر‘ نقاد اور ادبی رسالے اوراق کے مدیر ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا۔ یہ وہی وزیر آغا ہیں جنہوں نے راجہ مہدی علی خان کا حوصلہ بڑھایا اور مسلسل انہیں نظمیں لکھنے کی تلقین کرتے رہے۔ وزیر آغا کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں ''اس میں زندگی اور اس کی کروٹوں کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی وہ روش ہی نہیں ملتی جو بچپن کا طرۂ امتیاز ہے بلکہ زندگی سے مسرت اخذ کرنے کا وہ رجحان بھی ملتا ہے جو بچے سے مخصوص ہے‘‘۔
''انداز بیاں اور‘‘ کی اکثر نظموں کا اسلوب مکالمے کا ہے۔ سادہ زبان اور مکالماتی آہنگ کے ساتھ ان نظموں میں زندگی دھڑکتی نظر آتی ہے۔ کتاب میں شامل نظموں کے عنوانات سے پتا چلتا ہے کہ یہ عام ڈگر سے ہٹ کر کس قدر مختلف نظمیں ہیں۔ چند نظموں کے عنوانات ملاحظہ کریں: چور کا خواب‘ نگوڑا‘ مولوی کا خواب‘ ایک اور ضرورت‘ رشتہ تقدیر پر‘ دو ہمسائیاں‘ مثنوی قہرِ البیان‘ مثنوی قہرِ عشق‘ ایک چہلم پر‘ میں اور شیطاں دیکھ رہے تھے‘ جہنم کے غنڈے‘ جب جنت میں شام ہوئی‘ شاعر خدا کے دربار میں وغیرہ۔
ایک نظم ''بچوں کی توبہ‘‘ ہے جس میں بچوں کو معصوم شرارتوں سے سختی سے منع کیا جاتا ہے۔ پوری نظم میں ان شرارتوں کا ذکر ہے‘ جنہیں بچوں نے اب ترک کر دیا ہے۔ ان شرارتوں کی عدم موجودگی میں گھر کی دنیا میں ایک عجیب سی یاسیت چھا گئی ہے۔ نظم کا اختتام اس شعر پر ہوتا ہے:
ہے گھر کی فضا سہمی سہمی غمگین ہیں بچوں کے چہرے
کب ہنس کے کہو گی اے بچوکیوں ہم کو ستانا چھوڑ دیا
''دو ہمسائیاں‘‘ نظم میں معمولی باتوں پر پڑوسنوں میں آپس کی بے وجہ تکرار کو موضوع بنایا ہے۔ نظم کے چند اشعار ملاحظہ کریں:
تمہارے بچے ہماری بلی کی دُم پکڑتے ہیں ان کو روکو
تمہارے مرغے ہماری چھت پر اذان دیتے ہیں ان کو روکو
تمہارا بکرا ہمارے آنگن میں آ گھسا ہے ہلا کے ڈاڑھی
دو ہتڑوں سے اسے بھگایا وہ جا رہا تھا اٹھا کے ساڑھی
ایک زمانہ تھا کہ تکیوں پر اشعار کی کشیدہ کاری کا رواج عام تھا۔ نظم ''میرے تکیے پر لکھے اشعار‘‘ کا ایک شعر ملاحظہ کریں:
یہ آرزو ہے کہ سوتا رہوں ہزاروں سال/ قیامت آئے تو بیگم مجھے جگا دینا
نظم ''بورڈ آف انٹرویو‘‘ میں انٹرویو میں پوچھے جانے والے بے معنی سوالات کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ انٹرویو میں پوچھے جانے والے چند سوالات ملاحظہ فرمائیں:
کتا کیوں اپنی دم ہلاتا ہے/ کتنے میں ایک بندر آتا ہے
آسماں پر ستارے کتنے ہیں/ شہر میں غم کے مارے کتنے ہیں
ذوق کتنے رو پے کماتا ہے/ اپنی بیوی سے کیوں چھپاتا ہے
راجہ مہدی علی خان کا قلم ایک ڈاکٹر کے نشتر کی طرح فرسودہ روایات کا پوسٹ مارٹم کرتا ہے۔ '' چہلم‘‘ نظم میں ایک خاتون جمیلہ کے شوہر کے چہلم کی تقریب کا احوال ہے جس میں شریک ایک عورت بظاہر اپنے ''غم‘‘ کا اظہار کر رہی ہے لیکن دراصل اس کی نظر چہلم میں ملنے والے کھانوں پر ہے۔ یہ نظم ہمارے معاشرے میں سفاکانہ منافقت کا پردہ چاک کرتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں جو چہلم کی تقریب میں منافقت کے دونوں روپ دکھاتے ہیں۔
جمیلہ اٹھو اب نہ آنسو بہائو/ نہیں وقت رونے کا دریاں بچھاؤ
بہت خوبصورت بہت نیک تھا وہ/ ہزاروں جوانوں میں بس ایک تھا وہ
رضیہ ذرا گرم چاول تو لانا/ ذکیہ ذرا ٹھنڈ پانی پلانا
بہت خوب صورت بہت نیک تھا وہ/ ہزاروں جوانوں میں بس ایک تھا وہ
جمیلہ مجھے روغنی نان دینا/ وہ فرنی اٹھانا وہ پکوان دینا
جدائی میں اس کی ہوا دل دوانا/ کہ لگتا ہے اچھا نہ پینا نہ کھانا
اری بوٹیاں تین سالن میں تیرے/ یہ چھچھڑا لکھا تھا مقدر میں میرے
بہت خوب صورت بہت نیک تھا وہ/ ہزاروں جوانوں میں بس ایک تھا وہ
راجہ مہدی علی خان Myths کو چیلنج کرتے ہوئے خاص طرح کی مسرت محسوس کرتے ہیں اور ہمیں بھی لطف کشید کرنے کے اس عمل میں شریک کرتے ہیں۔ اندازِ بیاں اور میں ایک نظم ''میں اور شیطاں دیکھ رہے تھے‘‘ شامل ہے۔ آئیے اس نظم کی چند سطریں دیکھیں اور اس دلچسپ منظر کا حصہ بن جائیں:
میں اور شیطاں دیکھ رہے تھے/ جو نہ کبھی ہم نے دیکھا تھا/ ہوکر حیراں دیکھ رہے تھے
ایک اور نظم ''جہنم کے غنڈے‘‘ میں راجہ مہدی علی خاں‘ کرشن چندر اور سعادت حسن منٹو دوزخ میں جاکر ہلڑ بازی کرتے ہیں اور دوزخ کے باشندوں کے پیچھے لٹھ لے کر بھاگتے ہیں‘ اس کے نتیجے میں انہیں دوزخ سے دخل انداز کرکے جنت کی طرف بھیج دیا جاتا ہے۔ ''اندازِ بیاں اور‘‘ میں ایک دلچسپ مثنوی ''قہر البیان‘‘ شامل ہے جو اردو میں میر حسن دہلوی کی معروف مثنوی سحر البیان کی پیروڈی ہے۔ یہ پیروڈی ایک مفلوک الحال شاعر کی محبت کی کہانی ہے۔ یہ محبت کچھ عرصے بعد شادی میں بدل حاتی ہے‘ شروع کے دن تو ہنسی خوشی گزر جاتے ہیں لیکن جوں جوں مال وسائل ختم ہوتے جاتے ہیں ان کی زندگی میں جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔ مثنوی کا وہ حصہ ملاحظہ فرمائیں جب ناراض بیوی اپنے شوہر راجہ مہدی علی خان کی شاعری پر تبصرہ کرتی ہے۔ یہ تبصرہ دراصل سماج میں شاعری کی مقبولیت کے پیمانوں پر ایک بلیغ طنز ہے:
نہ ان میں سرگرانی اور نہ ابہام/ نہ ہے کچھ قوم کے ہی نام پیغام
غریبی ہے نہ ہے مزور ان میں/ سیاست ہے نہ کوہِ طور ان میں
''اندازِ بیاں اور‘‘ میرے لیے راجہ مہدی علی خان کا پہلا تعارف تھا۔ تب مجھے اندازہ نہ تھا کہ ان کی شخصیت کے کتنے ہی اور رنگ ہیں جو مجھ پر جلد منکشف ہونے والے ہیں۔ (جاری)