میرٹھ کے ریلوے سٹیشن پر بیٹھے بھیشم ساہنی نے سوچا کیسے سب کچھ بکھر گیا۔ اس کا بھائی بلراج بمبئی میں تھا‘ ماں اور بیوی سری نگر میں تھی اور والد راولپنڈی والے گھر میں تھا۔ گاڑیوں کی آمدو رفت بند ہو چکی تھی۔ اسے اپنے والد کی کوئی خبر نہ تھی‘ اس نے والد کو تار بھیجا‘ خط لکھے لیکن اُدھر سے مکمل خاموشی تھی۔ وہ بمبئی آگیا جہاں اس کا بھائی بلراج پہلے سے موجود تھا۔ بلراج کے دل میں اُمید کا دیا جل رہا تھا کہ جلد حالات معمول پر آجائیں گے اور سب واپس راولپنڈی والے گھر میں چلے جائیں گے۔ اس کے والد کا کہنا تھا کہ تقسیم کے بعد حکومت بدل جائے گی لیکن وہ راولپنڈی کو نہیں چھوڑیں گے۔ یہ گھر ان کے والد نے بڑے دُلار سے بنایا تھا۔ اس مکان کے ساتھ ان کی کتنی ہی یادیں وابستہ تھیں۔ دن گزرتے گئے اور رفتہ رفتہ اس کے دل میں اُمید کی کرن ماند پڑتی گئی۔ کہتے ہیں زندگی کے بارے میں سب سے اچھی چیز یہ ہے کہ یہ کبھی رکتی نہیں‘ ہر دم رواں رہتی ہے۔ اب بمبئی شہر بھیشم کا نیا ٹھکانہ تھا۔ اس کا بھائی بلراج ساہنی پہلے سے ہی ڈراموں کی دنیا سے وابستہ تھا اور IPTA (Indian People's Theatre Association) کا سرگرم رکن تھا۔ اپنے بھائی بلراج کی طرح بھیشم بھی IPTAکی تنظیم کا حصہ بن گیا۔ بھیشم کے نزدیک ڈرامے کی دنیا محض تفریح نہیں بلکہ معاشرے کے مسائل کو اُجاگر کرنے کا ذریعہ تھی۔ بھیشم نے لاہور کے گورنمنٹ کالج سے ایم اے انگلش کا امتحان پاس کیا تھا‘ وہ تعلیم کے سفر کو جاری رکھنا چاہتا تھا‘ اس نے پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا۔
بھیشم کو یاد ہے جب اس کی کہانی ''بھوت گاڑی‘‘ کو معروف افسانہ نگار خواجہ احمد عباس نے ڈرامے کے قالب میں ڈھالا تھا۔ رفتہ رفتہ بھیشم ڈرامہ نویسی سے اداکاری اور پھر ہدایت کاری کا سفر طے کرتا گیا۔ IPTAکے ساتھ وابستگی اسے بائیں بازو کے نظریے کے قریب لے آئی تھی۔ وہ عملی طور پر اپنے ملک کے مفلس اور نادار لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا تھا۔ تب اس نے بمبئی چھوڑ کر پنجاب جانے کا فیصلہ کیا جہاں اس نے انبالہ کالج میں پڑھانا شروع کر دیا۔ انبالہ کالج میں کچھ عرصہ پڑھانے کے بعدوہ خالصہ سکول آگیا۔ بھیشم پڑھانے کے ساتھ ساتھ پنجاب کالج ٹیچرز یونین کو آرگنائز کرنے میں مصروف ہو گیا۔ ایک عرصہ پنجاب میں گزارنے کے بعد 1952ء میں بھیشم دہلی کالج واپس آگیا۔ تب بھیشم کی زندگی میں ایک نیا دریچہ کھلا اور اسے روس کے شہر ماسکو میں فارن لینگوئج پبلشنگ ہاؤس میں مترجم کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا جہاں قیام کے دوران اس نے ٹالسٹائی کی کہانیوں کا ترجمہ کیا۔ بعد میں اسے ٹالسٹائی کے ناول ''Resurrection ‘‘کا ترجمہ کرنے کا بھی موقع ملا۔ یہ عرصہ بھیشم کی زندگی کا بہترین دور تھا۔ ماسکو سے واپس آکر بھیشم نے پھر سے دہلی کالج میں پڑھانا شروع کر دیا۔ اسی دوران اس نے ایک رسالہ ''نئی کہانیاں‘‘ کی ادارت سنبھالی جس میں جدید رنگ کی کہانیاں شائع ہوتی تھیں۔ ادارت کا یہ دور 1965ء سے 1967ء تک کا تھا۔ یہ 1973ء کا سال تھا جب بھیشم کا بڑا بھائی اور بالی وُڈ کا معروف اداکار بلراج ساہنی انتقال کر گیا۔ یہ بھیشم کی زندگی میں ایک بڑا المیہ تھا کیونکہ بلراج صرف اس کا بھائی ہی نہیں اس کا دوست اور اس کا مینٹور بھی تھا اور بھیشم کی ادبی‘ سیاسی اور فنی تربیت میں بلراج کا مرکزی کردار تھا۔
بھیشم کی زندگی کا سفر جاری تھی لیکن تنہائی کے اکثر لمحات میں اسے تقسیم کے وہ دن یاد آجاتے جب فسادات کی آگ نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اسے اکثر اپنا شہر راولپنڈی‘ وہاں کے گلی کُوچے‘ بچھڑے ہوئے دوست اور خوبصورت جھروکوں والا گھر یاد آتا۔ اس نے فسادات کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ ان فسادات میں کتنے ہی لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے‘ کتنے ہی زندگی بھر کے لیے اپاہج ہو گئے۔ کتنے ہی اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے‘کتنے ہی ایسے لاپتہ ہوئے کہ پھر کبھی ان کا نشان نہ ملا۔ بھیشم خواب میں یہ خون آشام مناظر دیکھتا تو ہڑبڑا کر اس کی آنکھ کھل جاتی اور پھر دیر تک اسے نیند نہ آتی۔ تب اس نے فیصلہ کیا کہ ان فسادات کے کٹے پھٹے مناظر اپنے ناول میں قلمبند کرے۔ یہ 1974ء کی بات ہے جب اس کا شاہکار ناول ''تمس‘‘ منظر عام پر آیا جو تقسیم کے حوالے سے لکھی گئی تحریروں میں ایک نمایاں تخلیق ہے۔ اس ناول پر اسے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا۔ ''تمس‘‘ کی ابتدا راولپنڈی سے ہوتی ہے‘ وہی راولپنڈی جہاں اس کے بچپن اور جوانی کے دن گزرے تھے۔ ناول کی اشاعت کے ساتھ ہی اس کی مقبولیت خاص و عام میں پھیل گئی۔ بعد میں اس کا ترجمہ متعدد زبانوں میں ہوا جن میں تامل‘ گجراتی‘ فرانسیسی‘ جرمن‘ جاپانی اور کئی اور زبانیں شامل ہیں۔ ''تمس‘‘ کو ڈرامائی شکل میں ٹی وی پر بھی پیش کیا گیا۔ بھیشم کی ایک اور کہانی ''امرتسر آگیا ہے‘‘ بھی تقسیم کے حوالے سے ایک لازوال کہانی ہے۔ کہانیوں کا ذکر چلا تو پڑھنے والوں کے لیے یہ بات دلچسپی کا باعث ہو گی کہ بھیشم کی کہانیوں کے دس مجموعے شائع ہوئے۔ کہانیوں کے علاوہ بھیشم نے چھ ناول لکھے جن میں تمس‘ جھروکے‘ بستی‘ کڑیاں‘ مایا داس کی ماڑی‘ اور نیلو‘ نیلما‘ نیلوفر ہیں۔ افسانوں‘ ناولوں اور ڈراموں کے علاوہ اس نے فلموں کے سکرین پلے بھی لکھے جن میں 1991ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''قصبہ‘‘ کا سکرین پلے بھی شامل تھا۔ بھیشم نے اپنے اداکار بھائی بلراج کے قدموں پر چلتے ہوئے فلموں میں اداکاری بھی کی۔ بطور اداکار اس کی پہلی فلم ''موہن جوشی حاضر ہو‘‘ تھی جو 1980ء میں ریلیز ہوئی اور آخری فلم Mrs. Iyreتھی جسے 2002ء میں سینما گھروں میں پیش کیا گیا۔
بھیشم نے ادب کی تقریباً ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ ڈرامہ‘ افسانہ‘ ناول اور پھر سوانح عمری اور خود نوشت۔ افسانوی ادب کے ساتھ ساتھ بھیشم نے اپنے فن کار بھائی بلراج ساہنی کے حوالے سے ایک کتاب Balraj Sahni: My Brotherلکھی جس میں بلراج ساہنی کی زندگی کے حوالے سے بہت دلچسپ معلومات ملتی ہیں۔ بھیشم نے اپنی خود نوشت بھی لکھی جس کا انگریزی ترجمہ Today's Post پینگوئن پبلشنگ ہاؤس سے شائع ہوا جو بھیشم کی زندگی کے دلچسپ گوشوں سے پردہ اٹھاتی ہے۔بھیشم کی زندگی دلچسپ اور انوکھے واقعات کا مجموعہ ہے۔ ب
ھیشم کو قدرت نے طویل زندگی عطا کی اور اُس نے اس کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے فنی تخلیقات کا ایک وسیع ذخیرہ چھوڑا۔ بھیشم کی زندگی کتنے ہی پُرشور طوفانوں سے گزر کر نکلی تھی لیکن اس کی شخصیت اور اس کے لہجے میں ایک عجیب شانتی اور ٹھہراؤ تھا۔ نرم لہجہ اور دلنشین گفتگو۔ دنیاوی پیمانے سے دیکھیں تو بھیشم کی زندگی انتہائی کامیاب تھی جس میں اسے عزت‘ دولت اور شہرت ملی لیکن پھر بھی اس کی زندگی میں ایک کمی تھی۔ جب وہ تنہا ہوتا تو اکثر تصور کی انگلی پکڑ کر اپنے دلبر شہر راولپنڈی چلا جاتا جہاں اس کا گھر تھا۔ تصور میں اپنے گھر کے ہر کمرے میں جھانکتا اور اس کا دل اداسی سے بھر جاتا۔ وہ سوچتا کاش میں ایک بار اپنے گھر واپس جا سکوں لیکن اس کی زندگی میں یہ ممکن نہ ہو سکا۔ 2003ء میں بھیشم 87برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔
مجھے راولپنڈی چھوڑے ایک عرصہ ہو گیا ہے۔ کبھی اپنے دلبر شہر راولپنڈی جاتا ہوں تو اپنی پرانی درسگاہ گورڈن کالج کو دیکھنے کالج روڈ ضرور جاتا ہوں اور پھر گھومتے گھامتے عالم خان پر نکل آتا ہوں۔ جہاں ایک گھر ہے جس کے مرکزی دروازے پر جھُکی بوگن ویلیا کے پھولوں کی بیل ہے اور جس کی شکستہ دہلیز آج بھی بلراج اور بھیشم کی راہ دیکھ رہی ہے جو اسے چھوڑ کر ایسے گئے کہ پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئے۔ (ختم)