ہمارے معاشرے میں عدم رواداری اور برداشت کے فقدان کے حوالے سے مختلف حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ عدم رواداری اور انتہا پسندی کا میل (Nexus) بعض اوقات تشدد کے رویے کو جنم دیتا ہے۔ انتہا پسندی اور تشدد کی کارروائیوں کے خاتمے کے لیے بعض اوقات طاقت کا استعمال ناگزیر ہو جاتا ہے‘ لیکن معاشرے سے اس ناسور کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے اگر عسکری آپریشن کا حصہ تیس فیصد ہے تو ستر فیصد ذمہ داری سول سوسائٹی پر عائد ہوتی ہے جو ذہن سازی کے ذریعے عدم رواداری‘ انتہا پسندی اور متشدد سوچ کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے جس پر تمام سماجی اداروں کو غور کرنا چاہیے۔ ان سماجی اداروں‘ خاندان‘ تعلیمی اداروں اور میڈیا کا اہم کردار ہے۔ معاشرے میں رواداری‘ برداشت‘ صبر اور یگانگت جیسی اقدارکو نظامِ تعلیم کا حصہ ہونا چاہیے۔ ایک زمانہ تھا جب تعلیم اور تربیت ایک دوسرے کے بغیر نامکمل تھے لیکن پچھلی کچھ دہائیوں سے تعلیم نے تربیت سے ہاتھ چھڑا لیا ہے۔ اس کا بڑا سبب معیشت کا وہ نیو لبرل ماڈل (Neoliberal Model) ہے جس کا بنیادی ہدف زیادہ سے زیادہ نفع کمانا ہے اور جہاں اقدار (Values) کی کوئی گنجائش نہیں۔ تعلیم کا یہ ماڈل Laissez-faire میں پروان چڑھتا ہے‘ جس میں حکومت کی مداخلت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ نیو لبرل ماڈل تعلیم کے نجی شعبہ میں زیادہ مقبول ہے۔ یوں تعلیم کا یہ ماڈل صرف منافع کے اردگرد گھومتا ہے اس لیے تعلیمی اداروں میں صرف وہی مضامین پڑھائے جاتے ہیں جو منافع بخش ہوتے ہیں۔ اس ماڈل میں ہیومینیٹیز کے مضامین کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ یہ مضامین عرفِ عام میں کمائی کرنے والے مضامین نہیں۔ نتیجتاً ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں وظائف اور نوکری کے معاملے میں ہیومینیٹیز کے مضامین کو زیادہ مرتبہ و مقام نہیں ملتا۔
وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں Humanities کے مضامین کا احیا کیا جائے‘ خاص طور پر ادب (Literature) کی تعلیم کو عام کیا جائے۔ یہ ادب ہی کی تعلیم ہے جو غیر محسوس انداز میں اپنے قارئین کو مختلف اصنافِ ادب کے ذریعے‘ مختلف کرداروں اور تحریروں سے روشناس کرتی ہے۔ اسی طرح ادب بُرد باری‘ ہمددری‘ حساسیت‘ تفہیم اور رواداری جیسی خوبصورت اقدار کو پروان چڑھاتا اور ان میں نکھار کا باعث بنتا ہے۔ یہ پڑھنے والوں میں مختلف عقائد اور آرا کو برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ ادب کی معاشرے پر اثر پذیری پر گفتگو سے پہلے ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ادبی تحریر کیسے تشکیل پاتی ہے۔ کیا موضوع کا انتخاب ادبی تحریر کو جنم دیتا ہے؟ ماضی میں یہ تاثر بڑا عام تھا کہ ارفع (Lofty) قسم کے موضوعات ہی ادب کی تشکیل کا باعث بنتے ہیں۔ اس طرح کے ادب کی مثالیں Divine Comedy اور Paradise Lost ہیں؛ تاہم اس اصول کی اس وقت نفی ہونا شروع ہو گئی جب عام سے عنوانات پر لکھی ہوئی تحریروں کو اتنی ہی پذیرائی ملی جتنی کہ غیر معمولی قسم کے موضوعات والی تحریروں کو ملتی تھی۔ اس ضمن میں ایک اور سوال ابھرتا ہے کہ کیا کسی تحریر کو ادب کی صنف بنانے کے لیے اس میں موجود کرداروں کا معاشرتی رتبہ بہت ارفع ہونا ضروری ہے؟ ماضی کے ادب میں ہم نے بادشاہوں‘ شہزادوں اور نامور لوگوں کے حوالوں سے تحریریں دیکھی ہیں۔ شیکسپیئر کا ڈرامہ King Lear یا ہومر کی Illiad ایسی تحریروں کی کچھ مثالیں ہیں۔ اس قسم کی تحریریں اب قصۂ پارینہ بن چکی ہیں کیونکہ اب عام سمجھی جانے والی تحریریں بھی خاصی مقبول ہو چکی ہیں۔ ولیم ورڈز ورتھ کی Leech Gatherer اور Solitary Reaper اور اس طرح کی تحریروں کی کچھ مثالیں ہیں۔ تو کیا پھر ایک مخصوص اندازِ زبان و بیان کسی تحریرکو ادب کے درجے پر فائز کرتا ہے؟ ماضی میں تو اس بات پر ایمان کی حد تک یقین کیا جاتا تھا کہ ادب کی زبان اور عام استعمال کی زبان قطعی الگ اور مختلف ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ادبی تحریروں میں خاصی مشکل زبان استعمال کی جاتی تھی لیکن اس قدیم تاثر کی اس وقت نفی ہو گئی جب ہم نے ادبی تحریروں میں سادہ اور عام فہم زبان کا استعمال دیکھا‘ جس کی بہترین مثال ارنسٹ ہیمنگوے کی شاہکار تحریر ''The Old Man and the Sea‘‘ ہے۔
ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا قاری پرکسی تحریر کا تاثر اور اس کی تاثیر کی شدت اسے ادب کا مقام عطا کرتی ہے؟ اگر اس کا جواب ہاں میں ہے تو ہمیں پھر ایسی ترکیب کا سراغ لگانا ہو گا جو کسی تحریر کو ادب بناتی ہے۔ دراصل ایک جزو یا مختلف اجزا کی ترکیب ادب کی تخلیق کا باعث نہیں بنتی بلکہ تحریر کے تاثر کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کیسے لکھاری مختلف اجزا کو یکجا کرکے تحریر کو پُراثر بناتا ہے۔ اب ہم ادب کے حوالے سے تین اہم مکاتبِ فکر کا جائزہ لیتے ہیں۔ ماہرین کے ایک گروہ کا خیال ہے کہ ادب کا سب سے اہم مقصد لطفِ طبع (Enjoyment) ہے‘ لہٰذا قارئین کو ادب تفریح کے حصول کے لیے پڑھنا چاہیے۔ ان ماہرینِ ادب کے مطابق ادب دراصل حقیقی زندگی کے تمام معاملات اور پہلوؤں سے دوری کا دوسرا نام ہے۔ ماہرینِ ادب کا ایک اور طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ ادب کی جڑ معاشرے سے ہے اور اسے حقیقی معنوں میں معاشرے کا عکاس ہونا چاہیے۔ دانشورانِ ادب کا ایک تیسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ ادب کا مقصد تفننِ طبع یا محض معاشرے کی عکاسی نہیں بلکہ اسے معاشرے میں تبدیلی کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ اس گروہ کا خیال ہے کہ ادب ایک غیرجانبدار فعل یا سرگرمی نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا آلہ ہے جس کا سیاست اور طاقت سے گہرا ربط ہے۔ ایڈورڈ سعید (Edward Said) اپنی کتاب Orientatalism میں یہ بتاتا ہے کہ ادب کو سامراجی طاقتیں نمائندگی کی سیاست کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ وہ اپنی شناخت کو برتر اور ''دوسروں‘‘ کو کم تر دکھاتی ہیں۔ یوں یہ ادب کے استعمال سے سامراجی آباد کاروں کو اعلیٰ و ارفع اور محکوموں کو کم تر بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس افریقی ناول نگار Ngugi wa Thiong'o کا خیال ہے کہ ادب کو معاشرے کے طاقتور گروہوں کے خلاف مزاحمت کے آلۂ کار کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ادب خام پروپیگنڈے سے یکسر مختلف ہے اور ترغیبی و تجویزی انداز میں شبہات و استعارات کا سہارا لیتا ہے۔ ادب کی یہ خاصیت طلبہ میں دوسرں کے لیے تحمل‘ برداشت‘ توجہ‘ احساس اور ہمدردی جیسے جذبات کو ابھارتی ہے۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے والے پروگراموں کا ازسرنو جائزہ لیا جائے۔ سائنسی علوم کے فروغ کے ساتھ ساتھ معاشرتی علوم اور ادبیات پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ مضامین شاید زیادہ منافع کی ضمانت تو نہ دے سکیں لیکن یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کی تدریس سے ایسے طلبا ضرور پیدا ہوں گے جو معاشرے کے کچھ ممنوعات (Taboos) کو چیلنج ضرور کر سکیں گے۔ تدریسِ ادب ایسے نوجوان پیدا کرنے میں مرکزی کردار ادا کر سکتی ہے جن میں مختلف نظریات و عقائد کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہو گی اور یہ نوجوان انتخابِ خیال‘ اظہارِ خیال اور آزادیٔ فکرکے داعی ہوں گے۔