یہ شاید 2014ء کی بات ہے اُن دنوں میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں وائس چانسلر تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ یونیورسٹی کا ایک معاہدہ کیلیفورنیا کی سین ہوزے (San José)یونیورسٹی کے ساتھ ہوا تھا لیکن اس پر عمل درآمد کی رفتار بہت آہستہ ہے۔ یہ تعلیمی اور تحقیقی شراکت کاری کا ایک سنہری موقع تھا جسے تعطل کا شکار نہیں ہونا چاہیے تھا۔ میں نے سین ہوزے یونیورسٹی میں پراجیکٹ کے فوکل پرسن سے زوم (Zoom) میٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مقررہ وقت پر میرے لیپ ٹاپ کی سکرین پر ایک چہرہ نمودار ہوا جس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ اس کا نام مارک ایڈمز ہے اور وہ سین ہوزے یونیورسٹی میں اس پراجیکٹ کا فوکل پرسن ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ میں حال ہی میں اس یونیورسٹی میں آیا تو مجھے پراجیکٹ کے تعطل کے بارے میں پتا چلا۔ میٹنگ کا اختتام بہت خوشگوار تھا۔ یہ میرا مارک ایڈمز سے پہلا تعارف تھا جس میں ہم ایک دوسرے سے دوستی کے بندھن میں بندھ گئے۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ اور اس کا نرم لہجہ پہلی نظر میں ہی دل میں گھر کر جاتا تھا۔ یہ تو مجھے بہت بعد میں پتا چلا کہ اس کے چہرے پر اس شانت مسکراہٹ کا راز کیا ہے۔ اگلے ہی سال یعنی 2015ء میں مجھے اس پراجیکٹ کے سلسلے میں سین ہوزے یونیورسٹی میں دعوت دی گئی۔ اس دعوت کا محرک مارک ایڈمز ہی تھا۔
اسلام آباد سے ابوظہبی ساڑھے تین گھنٹے کا سفر تھا اور پھر ابو ظہبی سے لاس اینجلس کا سفر تقریباً سترہ گھنٹوں پر محیط تھا یوں لگتا تھا یہ سفر کبھی ختم نہیں ہو گا۔ جب جہاز ایئرپورٹ پر اُترا تو میں تھکن سے چور تھا۔ میں Luggage Hallسے اپنا سوٹ کیس لے کر باہر جانے کے لیے قدم بڑھا ہی رہا تھا کہ مجھے مارک نظر آیا۔ چہرے پر وہی مہربان مسکراہٹ۔ مارک نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔ باہر اس کی گاڑی کھڑی تھی۔ میں اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ مارک نے کہا :امید ہے آپ کا سفر اچھا گزرا ہو گا۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا: یہ ایک طویل سفر تھا لیکن یہاں پہنچ کر تھکن دور ہو گئی۔ مارک گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔ ہمارے اردگرد سبز درخت تیزی سے گزر رہے تھے اور نیلا آسمان ہمارے سروں پر تھا۔ اس کی باتوں سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ فطرت (Nature) سے کتنی محبت کرتا ہے۔ ایئرپورٹ سے ہوٹل کا فاصلہ مارک کی دلچسپ باتوں میں کٹ رہا تھا۔ اس نے سین ہوز ے شہر کے بارے میں بتایا ۔ اس نے بتایا کہ یہ کیلی فورنیا کی مشہور سیلیکان ویلی (Silicon Valley)ہے جس نے کیلی فورنیا کی شہرت میں اضافہ کیا۔ مارک کی باتوں میں وقت کٹنے کا پتا ہی نہیں چلا اور ہم ہوٹل پہنچ گئے۔ مارک نے کہا :آپ تھکے ہو ئے ہیں کمرے میں آرام کریں۔ میں شام کو آؤں گا اور پھر ہم شہر کی سیر کریں گے۔
میں بستر پر لیٹا تو فوراً نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔ چند گھنٹے سونے کے بعد تھکن کا احساس ذرا کم ہوا تو میں نے شاور لے کر کپڑے بدلے۔ اتنی دیر میں مارک آگیا۔ وہ چھٹی کا دن تھا۔ میں اور مارک ایک کیفے کے باہر رکھی کرسیوں پر جا بیٹھے۔ سرخ اینٹوں سے بنے چوڑے راستے پر لوگ آ جا رہے تھے۔ کچھ دیر میں فٹ پاتھ پر ایک شخص گٹار بجانے لگا۔ آتے جاتے لوگ اس کے پاس ایک لمحے کو رُکتے اور پھر فٹ پاتھ پر رکھے اُس کے ہیٹ میں سکے ڈال کر آگے روانہ ہو جاتے۔ اتنی دیر میں کافی آگئی اور مارک مجھے سیلیکان ویلی کے بارے میں بتانے لگا۔ باتوں باتوں میں Elon Muskکا ذکر آگیا۔ میں نے کہا: ایلان مسک کا اگلا ٹارگٹ مریخ پر کالونی بنانا ہے‘ کالونائزیشن کی خواہش نجانے کب ختم ہو گئی۔ مارک میری بات سن کر ہنسا اور کہنے لگا: مریخ کی کالونائزیشن کی اصطلاح درست نہیں۔ یوں گپ شپ میں وقت گزر گیا۔ اگلے روز پراجیکٹ کے حوالے سے یونیورسٹی کے مختلف ڈپارٹمنٹس میں بریفنگ تھی اور دن بہت مصروف گزرا۔ تیسرے روز ہمارے پاس کچھ وقت تھا ‘مارک نے کہا: آپ کہاں جانا چاہیں گے؟ میں نے کہا: میں نے سنا ہے یہاں ایلان مسک کی الیکٹرک کارز (TESLA) کا آفس ہے۔ مارک نے کہا :ضرور‘ اور پھر ہم Elon Musk کے ایک کامیاب پراجیکٹ TESLAکا شوروم دیکھ رہے تھے۔ اس کے بعد میری خواہش پر مارک نے گوگل ہیڈکوارٹرز کا دورہ رکھا تھا۔ گوگل ہیڈکوارٹرز تقریباً 26ایکڑ پر واقع ہے ۔یہاں گوگل کی مختلف عمارتوں کے جھرمٹ کو گوگل کیمپس کہتے ہیں۔ یہ اپنی وسعت اور دلچسپیوں کے لحاظ سے ایک مکمل شہر ہے۔ یہیں پر مارک نے اپنی یونیورسٹی کی ایک ہونہار طالب علم جوتی سے ملایا جو بصارت سے محروم ایک بہادر لڑکی تھی ۔ جوتی گوگل میں خصوصی افراد کیلئے سافٹ وئیر بنانے کا کام کر رہی تھی۔یہ پورا دن مارک کے ساتھ گوگل کے شہر میں گزرا۔ وہ دن اور اس سے جڑی ہوئی تفصیلات مجھے ہمیشہ یاد رہیں گی۔
اگلے روز پھر یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کا دورہ تھا۔ پراجیکٹ کے اہداف کی نوک پلک سنواری گئی۔ مارک نے کہا: آج ہم کھانے کیلئے ایک ایسے ریستوران جائیں گے جو ڈوسا (ساؤتھ انڈین ڈش ) کیلئے مشہور ہے۔ اس دن مارک اور میں نے ساؤتھ انڈین کھانے کا لطف اٹھایا۔ پاکستان جانے سے ایک روز پہلے مارک نے مجھے اپنے گھر ڈنر پر بلایا۔ یہ ایک چھوٹا سا خوبصورت گھر تھا جس کے سامنے سر سبزصحن تھا اور ذرا فاصلے پر اس کی بیگم سین ڈی (Sandee)کا سٹوڈیو تھا۔ سینڈی نے مجھے شوق سے اپنا سٹوڈیو دکھایا۔ وہ شیشوں کے ٹکڑوں کو جوڑ کر انتہائی ہنر مندی سے چیزیں تیار کرتی تھی۔ مارک کے گھر میں ایک جگہ مراقبہ (Meditation)کیلئے تھی۔ اس دن مجھے معلوم ہوا مارک بدھ مت کا پیروکار اور بدھ ازم کی ایک شاخ Zenسے منسلک تھا۔ تب مجھے پتا چلا کہ اس کے چہرے پر ہردم کھلتی شانت مسکراہٹ کا راز کیا ہے۔ اس دن دیر تک میں مار ک اور سین ڈی کھانے کی میز پر باتیں کرتے رہے۔ سین ہوزے یونیورسٹی میں چند دنوں کے قیام کے بعدمیں پاکستان آگیا لیکن مارک کی شخصیت کا ایک گہرا تاثر میرے ساتھ رہا۔ پھر کچھ عرصہ بعدمارک اور یونیورسٹی کے کچھ پروفیسر پاکستان آئے۔ پاکستان میں ان کے قیام کے چند دن پلک جھپکنے میں گزر گئے۔ یہ میری مارک سے آخری ملاقات تھی۔اس ملاقات کو آٹھ سال کا عرصہ بیت گیا۔ اس دوران فیس بک پر اس کے اِکا دُکا پیغام آئے۔ وہ اکثر Meditationکیلئے پہاڑوں اور دریاؤں کی طرف چلا جاتا۔ سکون کی تلاش اسے اکثر یہاں وہاں لیے پھرتی تھی۔ پھر میں اسلام آبادسے لاہور آگیا ۔
یہ اسی مہینے جولائی کی بات ہے کہ ایک دن میں نے مارک کے فیس بک پیج پر لکھا دیکھا کہ وہ اپنا اکاؤنٹ بند کر رہا ہے۔ میں نے اسے لکھا کہ اب کے Meditationکا دورانیہ کتنے عرصے کا ہو گا؟ مارک کا جواب پڑھ کر میں لرز گیا۔اس نے لکھا تھا:میں ایک عرصے سے کینسرکے خلاف جنگ لڑ رہا ہوں۔ میں نے اپنی مرضی سے موت کو گلے لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور 12جولائی میری زندگی کا آخری دن ہو گا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ یاد رہے کہ کچھ ممالک میں مریض کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی یا موت کا فیصلہ خود کرسکے۔ کینسر سے طویل جنگ کے بعد تھک ہار کر مارک نے یہ فیصلہ کیاتھا۔ مارک کے دوست کامپٹن نے مجھے بتایا کہ آخری دن وہ بھی دوسرے رشتہ داروں اور دوستوں کے ہمراہ مارک کے گھر موجود تھا۔ ان سب پیار کرنے والوں کی موجودگی میں مارک نے سکون سے ہمیشہ کیلئے آنکھیں بندکر لیں۔ آخری وقت بھی اس کے چہرے پر ایک شانت مسکراہٹ تھی‘ وہی شانت مسکراہٹ جو اس کی دلاآویز شخصیت کی پہچان تھی۔