فرداورمعاشرے کے مابین تعلق کی بحث نئی نہیں۔ اس تعلق کی نوعیت مختلف سیاسی نظاموں میں مختلف رہتی ہے۔ فرد اور معاشرے کے تعلق کی نوعیت شخصی آزادی (Personal Freedom) پر اثر انداز ہوتی ہے۔ شخصی آزادی کی نوعیت اور سطح کے تعین میں کئی عوامل کار فرماہوتے ہیں جن میں جنس، نسل، سماجی طبقات اورقومیت شامل ہیں‘نتیجتاً آزادی کا تصور طاقت(Power)کے تصورسے جڑاہواہے۔ دوسرے لفظوں میں زیادہ طاقت فردکی آزادیٔ کار میں اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ طاقت اورآزادی کیسے ہاتھوں میںہاتھ ڈال کرچلتی ہیں‘ اس کے لئے ہمیں طاقت کے تصور کاجائزہ لینا ہوگا اوریہ بھی دیکھناہوگا کہ معاشرے میں ایک فرد کی طاقت کے کون سے ذرائع ہیں۔
فرانسیسی ماہرعمرانیات بورڈ یو(Bourdieu)نے تصورِ سرمایہ (Concept of Capital) کے ذریعے طاقت کے تصور کی تفہیم کی ہے۔بورڈیوکے مطابق معاشی(Economic)معاشرتی(Social) اور ثقافتی (Cultural) سرمائے کسی بھی فرد کی معاشرے میں طاقت کاتعین کرتے ہیں۔معاشی سرمائے (Economic Capital)سے مراد معاشی املاک ہیں جن میں نقد رقم اورجائیداد شامل ہیں معاشرتی (Social Capital)سے مراد فرد کے معاشرے میں اہم لوگوں سے تعلقات (Soical Network) شامل ہیں اگرکسی فرد کے تعلقات معاشرے میں نمایاں اور بااثر افراد کے ساتھ ہیں تواس کا مطلب یہ ہے کہ وہ معاشرتی طورپر زیادہ معقول اورطاقتورہے۔ ثقافتی سرمائے (Cultrual Capital)سے مراد فرد کی معاشرے کے طے کردہ باوقار (Prestigious) اداروں سے تعلق ہے مثلاً اگر ایک فرد کسی ممتاز تعلیمی ادارے سے وابستہ رہاہے یااس نے کسی ممتاز ادارے میں کام کیاہے تو معاشرے میں اس کامقام افضل ہوتا ہے۔ اہم نقطہ یہ ہے کہ بعض اوقات ایک سرمایہ دوسرے سرمائے میں تبدیل (Convert) ہو سکتا ہے۔ مثلاً اگرکسی کے پاس معاشی سرمایہ ہے تو اسے ثقافتی سرمائے کے حصول میں آسانی ہوگی اسی طرح ثقافتی سرمائے کے حامل افراد کومعاشرتی سرمائے کے حصول میں دقت نہیں ہوتی۔
سرمایوں(Capitals)کے حوالے سے طاقت(Power)اورآزادی کے تعین کے ساتھ ساتھ مختلف سماجی ادارے بھی آزادی کی تشکیل کرتے ہیں۔ ان معاشرتی اداروں میں خاندان، تعلیمی ادارے، مذہب اورمیڈیا ہیں۔ صنعتی اورٹیکنالوجی کی ترقی کے تناظر میں یہ سمجھا گیا ہے کہ آج کاانسان ماضی کی نسبت بہت زیادہ آزاد ہے۔ لیکن نہایت افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ عہدید جدیدمیں سب کچھ اس کے برعکس ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر جس کے پاس مارکیٹنگ کیلئے فنڈز کی وافرمقدار موجود ہے یعنی یہ سیکٹر اپنے سرمائے کی مددسے لوگوں کی خواہشات اور ضروریات کا تعین کررہاہے۔اگرچہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے فیصلوں میں خودمختار ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ انفرادی آزادی پر بھی طاقتور اشتہارات بہت موثر اور طاقتور انداز میں اثرانداز ہوتے ہیں۔جرمن فلاسفر اور ماہر سماجیات ایڈورنو(Adorno) کا کہنا ہے کہ ''جدید دورمیں شخصی آزادی کی جگہ کارپوریٹ منطق (Carurate Logic)نے لے لی ہے‘‘۔
تعلیم جوکہ ایک اہم معاشرتی ادارہ ہے اس کا ایک مقصد لوگوں کی آزادی کی طرف رہنمائی ہے ۔آزادی جو کہ تعلیم کا پہلا بنیادی مقصد ہے وہ عام سکولوں کے بچوں کو اس طرح میسر نہیں جس طرح یہ اشرافیہ کے سکولوں میں بچوں کو میسر ہے۔ یہ بنیادی طورپر اسی وجہ سے ہے کہ غریبوں کے عام سکولوں میںجانے والے بچوں کو بنیادی سہولیات تک میسر نہیں ہیں۔ان بنیادی سہولیات میں باقاعدہ عمارت پینے کاپانی اورٹائلٹ وغیرہ ہیںاسی طرح سکولوں میں ایسے اساتذہ اور متحرک قسم کے کمرہ جماعت ہی نہیں ہیں۔ ایسے حالات میں عام سکولوں کے بچے سوال تک پوچھنے اور اپنے نظریات کے اظہار کی آزادی تک نہیں رکھتے۔ آزادی کاوہ تصور جوبچوں کے اذہان میں نقش ہوناچاہیے عام سکولوں کے بچوں میں تقریباً معدوم ہے۔ آئیں ایک اور معاشرتی ادارے کے کردار کاجائزہ لیتے ہیں۔ جس کانام میڈیاہے۔ میڈیا ایک اہم اور موثرادارے کے طورپر ابھرا ہے، سامعین پراثرکے حوالے سے میڈیا کا کردار دیگر تمام اداروں سے بہت زیادہ ہے۔ ہم سب اس بات پرپختہ یقین رکھتے ہیں کہ میڈیا قارئین اور سامعین کومختلف موضوعات پر وسیع ترمعلومات فراہم کرتاہے۔ میڈیا جومعلومات اور علم فراہم کرتا ہے اس کی بدولت لوگوں کوزیادہ طاقتورہوناچاہیے اوراسی طرح میڈیا کولوگوں کی شخصی آزادی کونکھارناچاہیے۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ارد گرد کی دنیا میںایسا ہورہاہے اس سوال کاجواب تلاش کرنے کیلئے ہمیں نمائندگی کی سیاست (Politics of Representation) کو سمجھناچاہیے اورمیڈیا اس تصورِ نمائندگی کابہت بڑا حامی ہے جیساکہ فوکوکی رائے ہے کہ طاقت اور علم کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے وہ لوگ جن کے پاس طاقت کا منبع اورسرچشمہ ہے وہ مخصوص قسم کے بیانیے کی آبیاری کرتے ہیں۔ اوریہی بیانیہ معاشرتی حقیقت کی تعمیر کرتاہے۔میڈیا یہ سارا کام دواہم تکنیکوں پرائمنگ (Priming) اور فریمنگ(Framing) کے ذریعے کرتا ہے۔ یہ تصورات گرامچی (Gramsci) کے تصور بالادستی کے قریب قریب ہیں۔ اس طرح میڈیا ایک ایسے ادارے کے طورپر ابھرا ہے جو اپنی مرضی کے تابع لوگوں کی سوچ تشکیل دیتاہے۔ قارئین ،سامعین اور ناظرین جوکہ آزادی کے زعم میں مبتلا ہیں دراصل انہی چیزوں کاچنائوکرپاتے ہیںجوکہ میڈیا نے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق اُن کے لیے چن لی ہوتی ہیں۔ گرامچی اس سارے عمل کو یعنی (Spontaneous Consent) کا نام دیتا ہے جہاں پرمخصوص طبقہ لوگوں کے تصورات کو اپنی خواہش اورمرضی کے مطابق لبادہ پہناتاہے۔چومسکی کی رضاکارانہ مرضی (Spontaneous Consent)دراصل تعمیرشدہ مرضی(Manufactured Consent)ہی ہے۔
مرضی کی تعمیر کایہ عمل ایجنڈاکی بنیاد پرقائم شدہ مختلف حقیقتوں کی بنیادپرہوتا ہے۔ جوکہ زبان کی مددسے مرض وجود میںآتاہے۔ اس تصورکو فیئر کلوف نے اپنی بنیادی کتاب Language and Powerمیں واضح طورپر بیان کیا ہے۔ جب آپ ایک ہی واقعے کی مختلف نیوز چینل کی کوریج دیکھیں گے تو آپ کوخاصی حیرانی ہوگی۔ مثال کے طورپر اگرہم عراق کی جنگ کی کوریج کا جائزہ لیں تو ہم پر یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ اس ایک ہی واقعہ کو (Fox News)''فوکس نیوز‘‘، CNNاور الجزیرہ نے بہت ہی مختلف انداز میں اپنی ترجیحات کے مطابق پیش کیاہے اور یہ سب ایک ہی واقع کے مختلف تناظر(Perspectives) اور نقطہ ہائے نظر ہیں۔ یعنی ناظرین کسی چیز کے حوالے سے رائے قائم کرنے میں آزاد نہیں بلکہ اس کے برعکس معاشرتی ادارے خصوصاً میڈیا باقاعدہ بنیادوں پراس رائے کی تعمیرکرتے رہتے ہیں۔
جوں جوں ترقی ہورہی ہے آزادی اسی قدر گریزپا ہوتی جارہی ہے۔ فوکو (Foucault) اپنی کتاب (Discipline and Punish) میں بتاتا ہے کہ کیسے جسمانی سزا کاعمل اب ذہنی اذیت میں بدل رہاہے ۔ باالفاظ دیگر ذہنی سزا جسمانی اذیت کی جگہ لے رہی ہے۔ فوکو کا مجموعی نگرانی (Panoptic Surveillance)کاتصور یہ واضح کرتا ہے کہ جدیدیت نے کیسے لوگوں کی خلوت اور انفرادی آزادی کومتاثرکیاہے۔آج کی جدید دنیامیں ہمارے فون کالز، فون پر پیغامات،انٹرنیٹ پر ہماری سرگرمیوں کی مکمل Trackingنے ہماری شخصی آزادی کو بری طرح متاثر کیاہے۔ دفتروں،گھروںاورسیرگاہوں میں ہمہ وقت ہمیں اس کااحساس رہتاہے کہ کوئی ہماری سرگرمیوں پرنظررکھے ہوئے ہے۔ یوں ہم عہدِ جدید میں شخصی طورپرآزادنہیں بلکہ مستقل نگرانی کے سائے تلے جی رہے ہیں۔