وہ ایک خواب جیسا منظر تھا سفید دودھیا ٹائلوں سے بارہ دری کی طرز پر بنا ایک جپوترہ۔ اس کے اطراف میں اونچے لمبے درختوں کا ہجوم۔ فضا میں دیہاتوں کی دوپہروں کی ٹھہری ہوئی خاموشی۔ کچھ ہی فاصلے پر ایک مختصر سا گائوں‘ جھامرہ۔ جپوترے کی قبر میں محو خواب رائے احمد نواز کھرل۔ وہی رائے احمد نواز کھرل جس کے دم قدم سے ساندل بار کی بہار تھی اور جو سچ مچ جھامرہ کی پیشانی کا جھومر تھا۔ میں جپوترے کے فرش پر بیٹھ گیا اور بارہ دری کے باہرکا منظر دیکھنے لگا۔ بعض دفعہ آپ کسی منظر کو خالی نگاہوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن دل کی آنکھ آپ کوکوئی اور منظر دکھا رہی ہوتی ہے۔ یہ1857ء کا منظر ہے جب ہندوستان کے مقامی باشندے آزادی کی سب سے بڑی جنگ لڑ رہے تھے۔ اس جنگ نے انگریزوںکے خلاف ہندوستان کے مختلف طبقات کو یکجا کر دیا تھا۔ بہت سے مقامی فوجیوں نے ایسٹ انڈیا کے جبر کے خلاف بطور احتجاج فوج سے قطع تعلق کر لیا تھا۔ ایسی صورتحال میں حریت پسندوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے کمپنی کو انسانی وسائل کی اشد ضرورت تھی۔ نئے سپاہی بھرتی کرنے کے لیے کمپنی نے پنجاب کے نواحی علاقے ساہیوال میں ایک وفد بھیجا تاکہ مقامی سرداروں سے مدد حاصل ہو سکے۔ کمپنی کے وفد نے اوکاڑہ کے قریب گوگیرہ کے علاقے میں کھرل برادری کے سردار رائے احمد خان کھرل سے ملاقات کی۔ رائے احمد کھرل نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی درخواست رد کر دی اورکہا کہ وہ دہلی کے بادشاہ کے وفادار ہیں، برطانیہ کے نہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو اس جواب کی توقع نہ تھی کیونکہ انہوں نے بزورِ بازو اور بزورِ پیسہ بہت سے مقامی سرداروں اور نوابوں کو خرید لیا تھا۔
رائے احمد خان کھرل ساہیوال میں بنگلہ گوگیرہ کے قریب ایک گائوں جھامرہ میں 1785ء میں پیدا ہوا۔ وہ عظیم سیاسی بصیرت کا مالک تھا اور اس کے مختلف قبائل کے سرداروں سے بڑے گہرے مراسم تھے۔ رائے کے اس فوری انکار پر حکومت بہت برہم ہوئی اور اس پہ طرّہ یہ کہ ساہیوال کے گرد و نواح کے قبیلوں نے کمپنی کو مالیہ دینے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ یہ سراسر بغاوت تھی، کمپنی کو مقامی قبائل کی طرف سے اس طرح کی بغاوت کی قطعی توقع نہ تھی۔ یہ ساری صورت حال بھانپتے ہوئے گوگیرہ کے ایکسٹرا اسٹنٹ کمشنر برکلے کو حکم نامہ جاری کیا گیا کہ اس مزاحمتی تحریک کو ہر قیمت پر دبا دیا جائے۔ اس کو یہ کام تفویض کیا گیا کہ جن لوگوں نے مالیہ دینے سے انکار کیا ہے ان پر فوری جرمانہ عائد کیا جائے۔ نتیجتاً بہت سے باغیوں کی گرفتاری عمل میں آئی اور انہیں گوگیرہ جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان دنوں گوگیرہ ساہیوال کا مرکزی مقام تھا۔ اتنے وسیع پیمانے پر معصوم اور بے گناہ لوگوں کی گرفتاری رائے احمدکھرل کے لیے کسی طور بھی قابل قبول نہ تھی۔ اپنے ساتھیوں سے صلاح مشورہ کے بعد رائے نے لوگوں کوبرطانیہ کے چنگل سے آزاد کرانے کا حتمی فیصلہ کر لیا۔
ان حالات میں یہ ایک دلیرانہ اقدام تھا لیکن رائے کھرل تمام متوقع نتائج کے لئے ذہنی طور پر تیار تھا۔ 26 جولائی 1857ء کی رات کھرل نے گوگیرہ کی جیل پر دھاوا بول کر تمام قیدیوں کو آزاد کرا لیا۔ اس موقع پر کئی ہلاکتیں بھی ہوئیں لیکن قیدیوں کی آزادی کا مقصد بڑی کامیابی سے حاصل کر لیا گیا۔ رائے احمدکھرل موقع سے فرار ہو گیا اور گوگیرہ سے کچھ میل کے فاصلہ پر گشکوری کے جنگل میں جا چھپا۔ کھرل کا یہ اقدام کمپنی کی حکومت کے لیے کھلا چیلنج تھا لہٰذا انگریز بہادر بھی سنگین اقدامات پر اتر آیا اور دیہاتوں کو جلانا شروع کر دیا۔ احمد خان کھرل سے چھٹکارا ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہو گیا تھا کیونکہ رائے احمد ہی وہ شخص تھا جس نے عوام کو اس کے خلاف یکجا کر دیا تھا۔
حکومت نے اس کے رشتہ داروں کو گرفتار کر لیا اور انہیں قتل کرنے کی دھمکی دی۔ رائے نے اپنی والدہ اور خاندان کے دیگر افراد کی زندگی کو دائو پر لگانے کی بجائے گرفتاری پیش کر دی۔ اس گرفتاری کے ردعمل میں مختلف قبائل کے احتجاج میں تیزی آ گئی۔ اس صورتحال میں بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر حکومت نے رائے احمد کواس شرط پر رہا کر دیا کہ وہ گوگیرہ سے نہیں جائے گا۔ نتیجتاً رائے کو رہائی مل گئی لیکن اس کا مقصد قبائل کو متحدکر کے غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف سخت مزاحمتی تحریک کو ہوا دینا اور مقامیوں کو بیرونی حکومت سے آزادی دلانا تھا۔ اس سار ے تناظر میںکھرل کے قریبی دوستوں اور ہم خیالوں نے ایک خفیہ ملاقات کی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ راوی کے دونوں اطراف واقع فوجی چوکیوں پر حملہ کیا جائے۔ یہ فوجی چوکیاں دراصل علاقے میں کمپنی کی حکمرانی کی علامت تھیں۔
رائے کو گرفتار کرنا یا قتل کرنا اتنا آسان نہ تھا کیونکہ وہ علاقے کے ایک ایک چپے سے بخوبی آگاہ تھا۔ ایسے حالات میں صرف ایک ہی صورت باقی تھی کہ کسی طرح اسے پھنسا لیا جائے۔ ایسی ہی تکنیک ٹیپوسلطان اور سراج الدولہ کے خلاف بھی استعمال کی گئی تھی جس میں برطانیہ نے ان سپوتوں کے خلاف اندرونِ خانہ معلومات لے کر وفاداریاں خرید لی تھیں۔ اس عظیم رہنما کو پھنسانے کے لیے اس کے اپنے ہی دو دوست استعمال ہوئے جنہیں حکومت نے خرید لیا تھا۔ کھرل نے یہ سوچا بھی نہ ہو گا کہ معمولی سے مالی فائدے کے لیے اس کے اپنے معتمد دوست اور ساتھی دوستی جیسے عظیم رشتے کا سودا کر لیںگے اور آزادی کے عظیم مقصد کو زک پہنچائیں گے۔ سرفراز اور بیدی دونوں اُس خفیہ ملاقات کا حصہ تھے جس کا اہتمام کمپنی نے کیا تھا۔ منصوبے کے مطابق رائے کھرل کو راوی عبورکرکے اپنے ساتھیوں سے ملنا تھا۔ برکلے کو پہلے سے ہی کھرل کی نقل و حمل سے متعلق آگاہ کر دیا گیا تھا وہ کھرل کو دریا عبور کرنے سے پہلے ہی قابوکرناچاہتا تھا لیکن کھرل اس قدرمستعد تھا کہ اس نے برکلے کے آنے سے پہلے ہی دریا عبور کر لیا تھا۔
رائے احمدکھرل اور اس کے رفقا نے بڑی بہادری سے انگریزی دستے کا مقابلہ کیا اور انہیں پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ رائے احمد نے نماز پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت برکلے اور اس کی فوج زیادہ دوری پر نہ تھی جب رائے نے نماز پڑھنا شروع کی تو اس کے دوست بیدی نے ہی اس کی شناخت کی اور کچھ ذرائع کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ رائے پر پہلی گولی بیدی نے ہی فائر کی۔ یہ21 دسمبر1857ء دس محرم کا مقدس دن تھا جب عظیم حریت پسند نے جام شہادت نوش فرمایا۔
ایسٹ انڈیاکمپنی کے خلاف رائے احمد کھرل کی دلیرانہ جدوجہد تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ روشن رہے گی۔ وہ پنجاب کی مقامی شاعری کے ڈھولوں میں ایک افسانوی کردار بن چکا ہے جسے مختلف شاعروں نے تحریر کیا اور لوگوں نے گایا ہے۔ شاعر رائے کھرل کے انقلابی کردار کی مدح سرائی کرتے نظر آتے ہیں۔ رائے ہی وہ شخص تھا جو تاحیات انگریزوںکے سامنے سرنگوں نہ ہوا۔
اپنی اس فتح کا جشن منانے کے لیے کمپنی کی فوج نے باغی دیہاتوں کو آگ لگا دی۔ رائے کی شہادت اس کے دوستوں اور مقامی قبائل کے لیے ایک بہت بڑا صدمہ تھی۔ رائے کے ایک دوست مراد فتیانہ نے اپنے دوست کی شہادت کا بدلہ لینے کاوعدہ کیا اور رائے کی وفات کے ٹھیک دو دن بعد برکلے کو بھی مار دیا گیا۔
رائے احمد نواز کھرل کا سر تن سے جدا کر کے اسے گوگیرہ جیل کی منڈیر پر رکھ دیا گیا تاکہ مقامی لوگوں کوعبرت دلائی جا سکے۔ تین دن تک کٹا ہوا سر منڈیر پر پڑا رہا۔ میرے دل میں ایک خواہش نے سر اٹھایا۔ گوگیرہ جیل دیکھنے کی خواہش۔ یہ وہ جیل ہے جہاں سے رائے احمد خان نے قیدیوں کو آزاد کرا کے ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کو للکارا تھا۔ گوگیرہ پہنچتے پہنچتے اندھیرا پھیلنے لگا تھا۔ گوگیرہ جیل ایک قلعہ نماعمارت ہے جس کے چاروں کونوں کو گولائی کی شکل میں تعمیر کیا گیا ہے۔ صدر دروازے کے مہیب پھاٹک نے اس کا رابطہ باہرکی دنیا سے منقطع کر دیا ہے۔ میں نگاہ اٹھا کر عمارت کی منڈیر کو دیکھتا ہوں جہاں کبھی رائے احمد کے سرکا چراغ رکھا تھا۔ اب وہاں رات شب خون مار رہی ہے۔ مجھے آج رات ہی اسلام آباد واپس پہنچنا ہے۔ گاڑی سڑک پر رواں دواں ہے، باہر ہر طرف تاریکی کا راج ہے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے تاریکی کی چادرسے سفید دودھیا ٹائلوں سے بارہ دری کی طرز پر بنا جپوترہ ابھر آتا ہے اور جپوترے کی قبرمیں محوِ خواب رائے احمد کھرل۔ وہی رائے احمد کھرل جس کے دم قدم سے ساندل بارکی بہارتھی اور جو سچ مچ جھامرہ کی پیشانی کاجھومر تھا۔