اُس روزآسمان نیلے رنگ میںڈوب گیا تھا۔ ہلکی فرحت آمیز دھوپ تھی اور میرے چاروں طرف دریائے سندھ کا ہلکورے لیتاپانی ۔ ان پانیوں کے بیچوں بیچ ایک جزیرہ جس میں سنگِ مرمر سے بناہوا دو سو سال پرانا مندر جس کی سیڑھیاں سفید اورلمبی ہیں اورپانیوں تک اترتی ہیں۔ سکھرمیں آنے والے ہرسیاح کی ایک منزل یہ قدیم مندر بھی ہوتاہے جوعُرف عام میں سادھوبیلا کے نام سے جانا جاتاہے۔ یہاں تک پہنچنے کے لیے کشتیوں کااستعمال ہوتاہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے میںیہاں پہنچاہوں کشتی نے مجھے مندر کی سیڑھیوں پراتاراہے۔انہیں سیڑھیوںپر کچھ لوگ کشتی میں بیٹھ کر دوسرے کنارے پرجانے کے لیے تیارہیں۔ میں مندر کی سیڑھیوں پربیٹھ جاتاہوں۔ لوگ آجارہے ہیں میرے سامنے دریائے سندھ کے پانیوں کی لہریں ہیںجس میںڈوبتا ابھرتا آسمان کاعکس ہے۔ دھوپ میرے چاروں طرف پھیلی ہے مجھے منیرنیازی کی ایک نظم کی لائنیں یاد آرہی ہیں۔
نیلاگرم سمندر
اُوپردھوپ کاشیشہ چمکے
موتی اس کے اندر
یادآئی ہیں باتیں کتنی
بیٹھ کے اس ساحل پر
بالکل ایساہی منظرہے جس میں کتنی ہی بھولی بسری یادیں لوٹ آتی ہیں ۔سیڑھیوں پربیٹھا میں سو چ رہاہوں اس گھاٹ پر کیسے کیسے لوگ آئے ہوںگے۔سکھر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔یہ کراچی اور حیدرآباد کے بعدسندھ کا تیسرا بڑا شہرہے جودریائے سندھ کے کنارے واقع ہے۔ پرانے شہر کی قدیم تاریخ ہے۔ نیا سکھر ہندوستان میںبرطانوی حکومت کے عہدمیں تعمیر کیاگیا۔ یہ قدیم اور جدیدکاحسین امتزاج ہے۔ یہاں مسجدوں کے میناراور گنبدبھی نظرآتے ہیں اور مندروں کے کلس بھی۔ ایک طرف سکھربیراج،لنزڈائون برج، اور سرکٹ ہائوس کی عمارت ہے اوردوسری طرف بوسیدہ عمارتیں، مزار اورمقابر۔ یہاں راجہ داہر کے قلعے کے آثاربھی ہیں اور محمدبن قاسم کی بنائی ہوئی مسجد بھی۔ کہتے ہیں سکندرِ اعظم کوملتان میں زہرآلودتیرلگا اوروہ سکھر اورکراچی سے ہوتا ہوا مکران پہنچاجہاں اس کی وفات ہوئی ۔ سکھر کا ایک اورسیاحتی مرکز یہاں کی تفریح گاہ لبِ مہران ہے جہاں دریازمین سے مس کرتاگزررہاہے۔شائدیہیں بیٹھ کر ہمارے دوست اور منفردلہجے کے شاعرحارث خلیق نے' لبِ مہران ‘کے نام سے ایک خوبصورت نظم لکھی تھی۔ یہ محبت اور پیار کرنے والوں کا شہرہے۔ کیسے کیسے نام ورلوگ سکھرسے وابستہ رہے‘ چند نام یاد آرہے ہیں۔ مشہور سندھی شاعر اور دانشور شیخ ایاز کاتخلیقی دورسکھر میں گزرا، نامور مورخ رحیم داد مولائے شیدائی، پیرحسام الدین راشدی، مشہور شاعر اور وکیل فتاح ملک، سندھ کے سابق وزیراعلیٰ عبدالستار پیرزادہ، معروف وکیل حفیظ پیرزادہ، مشہور مزاحمتی کردار دین محمدوفائی اورہیموکالانی کاتعلق بھی سکھر کے ساتھ تھا۔ ہیموکالانی انگریزوں کے خلاف لڑتے لڑتے آخرکار پھانسی کے پھندے پر جھول گیا۔عہدِ موجود میںاپوزیشن لیڈر خورشیدشاہ صاحب کا تعلق بھی سکھر سے ہے۔ شاہ صاحب کی شخصیت نرم دمِ گفتگو گرم دمِ جستجو سے عبارت ہے۔ میں جن لوگوں سے بھی ملا انہیں تعلیم اور صحت کے حوالے سے شاہ صاحب کی خدمات کا معترف پایا۔
میںسکھرپہلی بار آیاتھا میری خوش قسمتی کہ یہاں میری ملاقات نوجوان صحافی ،کہانی نویس اور ڈرامہ نگار ممتازبخاری سے ہوگئی۔ ممتاز ایک معروف میڈیاگروپ کے ساتھ وابستہ ہے اورکتابوں کارسیاہے۔ سکھر شہرکے ہرکونے میں اس کے جاننے والے موجود ہیں۔ میںنے سکھربیراج دیکھنے کی خواہش کااظہار کیا توممتاز میرے ہمراہ ہولیا‘ہم سکھربیراج کے کنٹرول روم میں پہنچے تووہاں کے انچارج عبدالعزیز سومرو سے ملاقات ہوئی۔ سومرو صاحب ایک مہربان اورخلیق شخص ہیں ان کے دفترمیں دیوار پرمختلف سکرینوں پربیراج کی تازہ ترین صورتحال نظرآرہی تھی۔ سومرو صاحب نے بتایا کہ انجینئرنگ کے اس شاہکار بیراج کاتصور1868میں مسٹرفائف کے ذہن رسامیں ابھرا۔ 1923میں کام کاآغاز ہوااور1932میں اس کی تکمیل ہوئی۔ سکھربیراج اس علاقے کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتاہے۔ اس بیراج سے 8ملین ایکڑسے زیادہ علاقہ سیراب ہوتاہے۔ اس کے دائیں طرف سے تین اوربائیں طرف سے چار نہریں نکلتی ہیں۔ بیراج کے اوپر چلتے ہوئے ہوا ہمارے چہروں کومس کررہی تھی۔ میںنے پُل کی ریلنگ تھامے نیچے دوردور تک پھیلے پانیوں کودیکھا، ان پانیوںمیں مختلف جگہوں پر بھنور پڑرہے تھے اوران بھنوروں سے ڈالفن ہوامیں ابھرتیں اورقلابازی لگاکر واپس پانیوں میں اترجاتیں۔بیراج کے قریب ہی ایک میوزیم ہے جولائڈبیراج میوزیم کے نام سے جاناجاتاہے۔یہاں بیراج کاایک خوبصورت ماڈل رکھا ہے ایک شوکیس میںاُن اشیاء کے نمونے رکھے ہیںجوبیراج کی تعمیرمیں استعمال ہوئیں۔ہم نے سومرو صاحب کا شکریہ ادا کر کے رخصت لی۔
ہماری اگلی منزل ایک جزیرے میں واقع سادھو بیلا کا قدیم مندر تھا۔کشتی سے اُتر کر میں مندر کی سیڑھیوں پر دیر سے بیٹھا آسمان اور سمندر کی وسعتوں کو دیکھتا رہا۔میں جانے کب تک یہاں بیٹھا رہتا لیکن ممتاز نے کہا آئیں مندر کی عمارت دیکھتے ہیں۔ میں سیڑھیوں سے اٹھ کر سیاحوں کے ساتھ مندر کی طرف چل پڑتاہوں۔ ایک وسیع محراب نما دروازے کے اوپرایک بڑی گھنٹی لٹکی ہوئی ہے۔ مندر کی عمارت خوبصورت سنگِ مرمر سے بنی ہے جس میں مہارت سے کندہ کاری کی گئی ہے۔ہر سال جون کے مہینے میں یہاں میلہ لگتا ہے جس میں دور دور سے لوگ شرکت کرتے ہیں۔یہاں بھی ممتاز بخاری کاحلقۂ رفاقت کام آیا۔ مندر کاپجاری راجیش کمار اس کاجاننے والا نکل آیا۔راجیش نے بتایا کہ یہ مندر بن کھنڈی مہاراج سے منسوب ہے جو1763میں یہاں آئے اور چالیس سال تک یہاں عبادت میں مصروف رہے۔ انہوں نے ساری عمرشادی نہیں کی۔ ایک ہال میںبھنڈارا تقسیم ہورہاتھا۔ مندر کا ایک حصہ کونج گلی کہلاتا ہے۔آخرمیں ہم لائبریری میں گئے جہاںالماریوں میںبوسیدہ کتابیں پڑی تھیں۔ راجیش نے مہمانوں کی کتاب میرے سامنے رکھ دی۔ میں نے دیکھایہاں بہت سے نام ور لوگوں کے تاثرات درج تھے۔ سندھ حکومت کا محکمہ داد کے قابل ہے کہ اس مندر کی دیکھ بھال بہت اچھے طریقے سے ہورہی ہے۔مندر کے احاطے میں قدیم درخت موجود ہیں جو نہ جانے کتنے سالوں سے یہاں آنے جانے والے لوگوں کو دیکھ رہے ہیں۔اب ہم پھر کشتی کے انتظار میں مندر کی سیڑھیو ںپر بیٹھ جاتے ہیں۔ دریا کا پانی ہمارے پائوں کو چھوتا ہوا گزر رہا ہے۔دور ایک کشتی ہمارے طرف آرہی ہے۔ جو کچھ مسافروں کو یہاں اتارے گی اور ہمیں دوسرے کنارے پر لے جائے گی۔میں نے نیلے آسمان پر نگاہ کی جس کی نیلاہٹ میں اب اضافہ ہو گیا تھا۔کچھ ہی دیر کی بات ہے یہ لمحے بھی ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔ مجھے منیر نیازی کی نظم کی آخری سطریں یاد آنے لگیں۔
یہ منظر بھی یاد آئے گا
اور کسی موسم میں
اور کسی دریا کے کنارے
اور کسی عالم میں