اس دن اسلام آباد کا آسمان بادلوں سے گھرا ہواتھا۔شام ڈھلتے ہی ہلکی پھوار کا آغاز ہوگیاتھا جو جلد ہی موسلادھاربارش میں بدل گئی۔ میںنے کمرے کی کھڑکی سے پردہ ہٹاکردیکھاتو درخت تیز ہوائوں سے دہرے ہوئے جارہے تھے میں بارش کی جلترنگ میں گم تھا کہ فون کی گھنٹی بجی، رئوف کلاسرا کا فون تھاکسی تمہیدی گفتگو کے بغیر وہ بولا ''میں ایک کافی ہائوس میں بیٹھاہوں آپ بھی آ جائیں کافی بھی پئیں گے گپ شپ بھی ہوگی‘‘۔ رئوف کلاسراسے میری ملاقات تقریباً تین برس پہلے سرِراہ ہوئی بغیر کسی پیشگی پروگرام کے لیکن جمیزریڈ فیلڈ اپنی کتابCelestine Prophecy میں لکھتا ہے کوئی بھی چیز یونہی، خود بخود، سرراہ نہیںہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ کائنات میں ہونے والے سارے واقعات پہلے سے طے شدہ ہیں۔ ہم بظاہریہ سمجھتے ہیں ہماری اتفاقیہ ملاقات اصل میں کائنات کے پہلے سے طے شدہ پروگرام کاحصہ ہوتی ہے۔ رئوف کلاسراسے پہلی ملاقات میںمجھے یوں لگاجیسے اسے مدتوںسے جانتا ہوں۔ ہم میں تین چیزیں مشترک تھیں، انگریزی ادب کی باقاعدہ تعلیم، شکیل عادل زادہ کا سب رنگ اورکتابوں سے عشق۔ کتابوں سے عشق بھی عجیب عشق ہے ہمیشہ جوان رہتا ہے۔ جس کو یہ چٹک اوائل عمری میں لگی پھر وہ آخری دم تک ساتھ رہتی ہے۔ فارسی کے عظیم شاعر حافظ شیرازی کے خواب کی تکمیل ''فراغتے وکتابے و گوشۂ چمنے‘‘ سے ممکن ہے یعنی فراغت کے کچھ پل، چمن کاایک گوشہ اور کتاب۔ اسی طرح عصر حاضرکے منفردشاعر افتخار عارف اپنی ''محبت کی ایک نظم‘‘ میں کتاب کواپنی زندگی کااہم جزو بتاتے ہیں۔
''مری زندگی میں بس اک کتاب ہے اک چراغ ہے
ایک خواب ہے اورتم ہو‘‘
ترقی یافتہ ممالک میں کتاب بینی کا کلچرسکول کے ابتدائی درجوں سے متعارف کرایاجاتاہے۔ مجھے یاد جب میں پی ایچ ڈی کے لیے یونیورسٹی آف ٹورنٹومیںزیرتعلیم تھا، میری بیٹی ہاجرہ نے اپنی ابتدائی تعلیم کاآغاز ٹورنٹوکے ایک سکول سے کیا ۔ اس کے سکول میںکتب بینی(Book Reading) پرخاص توجہ دی جاتی تھی۔ ہر طالب علم کے لیے ایک Reading Logرکھی جاتی اور اس میں ان کتابوں کا اندراج ہوتا جووالدین یااساتذہ بچے کو پڑھ کرسناتے یا بچے خود پڑھتے ۔سال کے آخر میں جب ہمیں سکول بلایاگیا اورہاجرہ کی کے جی2 کی ٹیچر مسز کورٹنی نے ہمیں ہاجرہ کیReading Logدی تومجھے مسرت بھری حیرت ہوئی اس کے مطابق ایک سال میں اس نے 110کتابوں کی کہانیاں سنی یا پڑھی تھیں۔ یہ ہے وہ مضبوط بنیاد جو بچوں کوتعلیمی سفر کے ابتداہی میں فراہم کردی جاتی ہے۔
ونڈسکرین پرتیز بارش کی بوچھاڑ مجھے واپس اسلام آباد کی سڑکوں پر لے آئی۔ سڑکوں اورجگہوں کے بارے میں میری معلومات قابلِ رشک نہیں لیکن بھلاہو گوگل میپ کا جس کی مددسے میں دیئے ہوئے ایڈریس پرکافی شاپ پہنچ گیا۔ بارش کی وجہ سے اوپن ایئر میں بیٹھنے کے امکانات ختم ہوچکے تھے۔ میں کافی شاپ میں داخل ہوا تو لوگوں کا ایک ہجوم تھا۔ایک کونے کی میزپررئوف کلاسرا بیٹھا تھا، جلدہی ہماری گفتگومیں کافی کی مہک شامل ہوگئی۔ ہم جب بھی ملتے ہیں ہماری گفتگوکامحورادب ہوتاہے۔ ایسے میںوہ Netflixپردیکھی ہوئی تازہ ترین فلموں یا Seasonکے بارے میں بھی میرے علم کو Updateکرتا ہے۔ہم ایک دوسرے کو آنے والی نئی کتابوں کی خبردیتے ہیں۔ مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے وہ اخبار کے لیے باقاعدگی سے کالم بھی لکھتا ہے۔ٹی وی کے لیے شوبھی کرتا ہے، دوستوں سے ملتابھی ہے، خوشی غمی میں اپنے دورافتادہ گائوں جیسل کلاسرہ بھی جاتا ہے۔ Netflix پر تازہ ترین فلمیں بھی دیکھتا ہے پھراس کے پاس کتابیں پڑھنے کاوقت کہاں سے آجاتاہے۔مثلاً آج جب ہم Construction of Realityپرگفتگو کررہے تھے تواس نے ایک کمال فلم Vantage Pointکاحوالہ دیاجس میں ایک واقعہ سے منسلک مختلف کردار اپنے اپنے زاویہ نظرسے اس واقعے کوبیان کرتے ہیں اورہرایک کی Realityمختلف ہے۔ ہمیں باتیں کرتے ایک گھنٹہ گزر گیا۔ ہم اٹھ کھڑے ہوئے، دروازہ کھولاتوبارش اسی رفتارسے جاری تھی۔ ہماری اگلی منزل سعیدبک بنک تھی۔ گاڑی سے اترکربک شاپ تک پہنچتے پہنچتے بارش نے اپنارنگ دکھا دیا۔ وہ تو بھلا ہودکان کے مالک احمدسعید صاحب کا جوہمیشہ کی طرح لپک کرآئے، حال احوال پوچھا اور فوراً کافی کاآرڈر دیا۔ اب ہمارے چاروں طرف کتابیں ہی کتابیں تھیں، بہت دیرتک ہم کتابوں کودیکھتے ، الٹتے پلٹتے رہے اور پھر بہت سی کتابیں خریدلیں۔ رئوف کلاسرا نے اپنا پسندیدہ ناولThe Readerمجھے گفٹ کیا،اس ناول پرفلم بھی بن چکی ہے۔ ناول کی ہیروئن لکھناپڑھنانہیں جانتی لیکن اسے لکھنے پڑھنے کی اہمیت کااحساس ہے۔بالکل اس کی والدہ کی طرح جنہوں نے کسی سکول سے تعلیم توحاصل نہیں کی تھی لیکن تعلیم کی اہمیت سے آشناتھیں اوراپنی بیٹی سے اخبار کے کالم اوررسالوںسے کہانیاں سنتی تھیں اورجنہوں نے ساری عمر خودمحنت اورمشقت کی اوراپنے بچوں کوتعلیم سے آراستہ کیا۔ کہتے ہیںاچھا ادب زمان ومکاں کی پابندیوں سے آزاد ہوتا ہے۔ قاری کو اچھا ادب پڑھتے ہوئے ایک Pleasure of Recognitionمحسوس ہوتی ہے ''میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘۔ ہم نے بہت ساری کتابیں خریدکر گاڑی کی پچھلی سیٹ پررکھ لیں۔ بارش تھی کہ لگاتار برس رہی تھی۔ ہماری اگلی منزل ایک Pizza Shopتھی۔ تیزبارش اورتاریکی میں ڈرائیونگ مشکل تھی اورپھر پارکنگ کے لیے جگہ کی تلاش۔ آخر ایک خالی جگہ نظرآئی جہاں گاڑی پارک کی گئی۔ کتابوں کاایک شاپراٹھایا اور ریسٹورنٹ کی اوپروالی منزل پربیٹھ کرہم نے میزپرنئی کتابیں پھیلادیں۔نئی کتابوں کی اپنی خوشبو ہوتی ہے۔ دورِحاضرمیں ڈیجیٹل کتابوں کا رواج عام ہوگیا ہے۔ کتابیں Kindle IPad پرپڑھی جارہی ہیں خاص کر ہمارے بچے اوربچیاں سکرین پرکتابیں زیادہ سہولت سے پڑھتے ہیں لیکن ہماری نسل کے لوگ کتابوں کے لمس اور خوشبو کے بغیر کتاب خوانی کوادھورا سمجھتے ہیں۔گلزار کی نظم ''کتابیں‘‘ اسی کھوئے ہوئے رومانوی تجربے پرلکھی گئی ہے جو ڈیجیٹل کتابوں کی نذرہوگیاہے۔
''کتابوں سے جوذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
کبھی سینے پر رکھ کر لیٹ جاتے تھے
کبھی گھٹنوں کواپنے رحل کی صورت بناکر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے
چھوتے تھے جبیں سے‘‘
ہماری نئی خریدی جانے والی کتابوں میں ایک ہندوستان میں برطانوی حکومت کے عہدریلوے کے حوالے سے تھی۔ اس کے جستہ جستہ اقتباسات پڑھے گئے۔ نئی کتابوں کی مہورت کے بعد ہم نے کتابوں کودوبارہ شاپرمیں ڈالا اور برستی بارش میں گاڑی تک پہنچے۔
واپسی پر ہم یہی بات کرتے رہے کہ ہم اپنے بچوں میں مطالعے کی عادت کوکیسے فروغ دے سکتے ہیں، اس میں سارے سماجی ادارے، خاندان، سکول، میڈیا اپنا کرداراداکرسکتے ہیں جس گھر میںکتابیں ہوں گی والدین مطالعے کی حوصلہ افزائی کریں گے وہاں بچے کتاب کی طرف مائل ہوں گے۔یونہی سکول میںاساتذہ اپنے طلباء میں مطالعے کاشوق پیداکرسکتے ہیں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ خود بھی مطالعے کی عادت پیداکریں‘ اسی طرح میڈیاپر کتابوں اورکتب بینی کے حوالے سے پروگرام ہونے چاہئیں۔اس روز میں گھر پہنچا توبارش کاسلسلہ ہنوز جاری تھا میں نے کافی کاکپ تیار کیا، کھڑکی کاپردہ ہٹایا اورThe Readerناول کا پہلا صفحہ کھولا۔ بارش، کافی اورکتاب۔ میرے خواب کے تینوں رنگ یکجاہوگئے تھے۔