ایک دنیاہمارے حواس کی دنیا ہے‘ جہاں کی اشیاء کوہم اپنی عقل کی کسوٹی پرجانتے اورمنطق کی میزان پرپرکھتے ہیں۔اس Physical دنیا سے ماورا ایک Metaphysical دنیا ہے۔سراسر حیرت کدہ۔ جہاں کی اشیاء نہ ہماری عقل کی کسوٹی پرجانی جاسکتی ہیں ‘نہ ہی منطق کی میزان پرپرکھی جاسکتی ہیں۔ اس دنیا کی اپنی منطق ہے ‘جو ہماری عقل سے ماورا ہے۔ ایک اسرار کی دھند ہے‘ جویہاں سے وہاں تک چھائی ہوئی ہے۔
پچھلے دنوں میں دیوان سنگھ مفتون کی سوانح عمری''ناقابل ِفراموش‘‘ پڑھ رہاتھا۔کتاب کیاہے‘ ایک آتش بجاں شخص کی شبانہ روزمحنت اورہندوستان کی ریاستوں کے راجائوں سے مسلسل آمیزش کی داستان ہے۔ دیوان سنگھ اپنے زمانے کے مشہور اخبار ریاست کاایڈیٹر رہا۔ وہ گوجرنوالہ میں پیداہوا‘ پرائمری تک تعلیم وہیںسے حاصل کی ‘لیکن پانچویں جماعت کے بعدتعلیم کاسلسلہ منقطع ہوگیا۔مفتون کے صحافتی اورادبی کارناموں کودیکھیں‘ تو یقین نہیں آتا‘ لیکن سکول کی تعلیم کی کمی کو دیوان سنگھ نے اپنی محنت‘ لگن اور ذاتی تربیت سے پورا کیا۔ ہندوستانی ریاستوں کے نازک مزاج راجائوں سے پنجہ آزمائی کے نتیجے میں وہ تمام عمرمقدمے بھگتتارہا‘کئی بار اسے ہندوستان کی مختلف جیلوں میںجانا پڑا۔
یہ بھی ان دنوں کاقصہ ہے‘ جب دیوان سنگھ مفتون دہلی جیل میں تھا‘ وہاں اُس کی دوستی سٹور کیپر سردار جاگیر سنگھ سے ہوگئی ۔وقت کاٹنے کے لیے وہ کچھ دیر کے لیے سردار جاگیر سنگھ کے پاس جابیٹھتا تھا۔ایک دن سردارجاگیرسنگھ نے جیل کے ایک اورملازم سے مفتون سنگھ کا تعارف کرایا۔ یہ ملازم بیل گاڑی چلاتاتھا۔ ریلوے سٹیشن پرمال لے جانے اورلانے کاکام کرتا تھا۔ سردار جاگیر سنگھ نے اس کے بارے میں بتایا کہ وہ شخص بھوتوں کاعلم جانتاہے اوررات بھر قبرستانوں‘ مرگھٹوں اور جنگلوں میںمارا مارا پھرتا ہے اور وہ جوشے چاہے بھوتوں سے منگوا سکتا ہے ۔مفتون سنگھ کبھی بھوتوں اورجنوں کا قائل نہیں رہا۔اس شخص کے بارے میں سن کر مفتون سنگھ کے اندر کا صحافی جاگ اٹھااور اس نے سوچا اس شخص کے بارے میں کھوج لگانا چاہیے‘ کیااس قصے میں کچھ حقیقت ہے یا محض افسانہ ہے۔مفتون نے اُس شخص سے پوچھا کہ کیاواقعی بھوتوں سے اس کارابطہ ہے اور کیایہ سچ ہے کہ وہ بھوتوں کے ذریعے کوئی چیز منگوا سکتا ہے۔ اس شخص نے ٹال دیا۔ اس پر مفتون سنگھ کاشک گہرا ہو گیا۔ اس نے اصرار کیا۔ اس شخص نے پھربات اِدھر اُدھر کردی‘ لیکن مفتون سنگھ بھی ہارماننے والا نہیں تھا اس نے سٹورکیپر جاگیر سنگھ سے بھی سفارش کرائی۔ بار بار کے اصرار اور سردار جاگیر سنگھ کے کہنے سے آخرکار وہ شخص راضی ہو گیا۔ اب آگے کا قصہ مفتون سنگھ کی زبانی سنیئے:
''گرمی کازمانہ تھا اوردوپہر کاوقت۔ اس کے جسم پرصرف ایک کرتہ اور ایک پاجامہ تھا ۔اس نے ایک چادر طلب کی‘ جوگودام میں سے ہی اس کودے دی گئی۔ وہ چادر کو لپیٹ کر بیٹھ گیا اورمنہ سے کچھ پڑھتا رہا‘ اس کے بعد اس نے کہا:کیا چاہتے ہو؟ میںنے جواب دیا: گرم اور تازہ مٹھائی منگا دو۔ جیل کے اندر مٹھائی کالانا ‘بنانا یا رکھنا قانوناً ممنوع ہے۔ میں نے اسی لیے اس سے مٹھائی منگانے کے لیے کہا؛ چنانچہ چندمنٹ کے بعداس نے چادر کواٹھایا توپتوں کے ایک بڑے دُونے میں مختلف قسم کی تازہ اورگرم مٹھائی موجود تھی۔ میںنے یہ مٹھائی نہیں کھائی‘ کیونکہ اس شخص کے قبرستان اورمرگھٹ میں راتوں کوپھیرے اور بھوتوں کے ذریعے مٹھائی لائے جانے کے باعث میرے دل میں نفرت سی پیداہوچکی تھی۔ وہاں بیٹھے ہوئے کئی قیدیوں نے یہ مٹھائی لے لی اورہمارے سامنے کھائی۔‘‘
یہ تازہ گرم مٹھائی کہاںسے آئی تھی‘ مفتون سنگھ حیرت زدہ تھا۔ اس نے ملازم سے کہا: اگرتم کوئی بھی چیزکہیں سے منگواسکتے ہوتو اس غربت کی حالت میں کیوںرہتے ہو؟ ملازم نے کہا:کوئی بھی چیزکہیں سے منگوانا میرے لئے مشکل نہیں‘ لیکن منگوائی ہوئی چیزکوواپس اسی جگہ رکھناہوتاہے اوراگر ایسانہ کیاجائے ‘تو بھوت ناراض ہوجاتے ہیں۔ یہ اصول البتہ کھانے پینے کی چیزوںپر لاگونہیں ہوتا۔اب مفتون سنگھ کی زندگی کاایک اورواقعہ۔ مفتون کاقیام دہلی میں تھا۔ دہلی میں جون کے آخری ہفتے میں بارشوں کاآغاز ہوجاتا تھا‘ لیکن اس سے پہلے کے دوہفتے شدیدگرمی کے ہوتے ۔مفتون سنگھ کامعمول تھا چھ سات جون کے قریب جب دہلی میں شدیدگرمی کاآغاز ہوتا‘وہ دوہفتے کے لیے ممبئی چلاجاتا۔ جب دہلی سے تارملتاکہ بارش کاآغازہوگیاہے ‘وہ دہلی واپس آجاتا۔ انہیں دنوں کی بات ہے۔ دہلی میں شدیدگرمی کاآغازہوچکاتھا اورمفتون بذریعہ ٹرین دہلی سے ممبئی جارہاتھا۔ آج کل بھی وہ ایک مقدمہ بھگت رہاتھا۔ سٹیشن پر اس نے ''ٹائمزآف انڈیا‘‘ کارسالہ خریدا ۔ اس میں ایک اشتہار دیکھا‘ لکھا تھا ''آئندہ کے پچھلے حالات روح کے ذریعے کاغذپر لکھے جاتے ہیں۔اشخاص سے بھی بات چیت کی جاسکتی ہے‘‘ اشتہار دینے والے کا نا م محمودبے مصری تھا۔ مفتون سنگھ نے دیئے گئے نمبرپررابطہ کیااوراگلے روز محمود بے مصری سے ملاقات کا وقت طے ہوگیا۔آگے کا احوال مفتون سنگھ کی زبانی سنیے۔
''میں اگلے روزشام کومسٹرمحمودبے کے پاس پہنچا۔انہوںنے تکلف کے ساتھ چائے کاانتظام کیاتھا اور وہ ایک خوبصورت یورپی لڑکی(جواُن کی سیکرٹری تھیں) کے ساتھ بیٹھے میرا انتظار کررہے تھے۔ میں جب پہنچا تو آپ نے میرا گرمجوشی کے ساتھ خیرمقدم کیا‘ ہم تینوں نے بیٹھ کر چائے پی مقدمہ اوراخبار کے متعلق باتیں ہوتی رہیں۔ جب ہم چائے پی چکے‘ تومیںنے کہاکہ اب میں اصل مقصد بیان کرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ کی روحانی تحریر کو دیکھوں‘ جس کا آپ نے اخبار میں اشتہار دیا ہے۔ مسٹر محمود بے نے بیرا کو آوازدی‘ چائے کی میزخالی کردی گئی اورآپ نے میرے ہاتھ میں ایک بالکل کورا کاغذ دیاا ور کہاکہ بغیران کو دکھائے اس کاغذ پر تین یا پانچ سوالات لکھ لیے جائیں اور لکھنے کے بعداس کاغذ کو تہ کردیا جائے۔ مسٹرمحمود نے یہ کہہ کراپنی سیکرٹری کے ساتھ دوسرے کمرے میں چلے گئے۔ میںنے تنہائی میں پنسل کے ساتھ یہ سوالات لکھے:
۱۔آج دہلی میں بارش ہوئی یانہیں؟
۲۔ آج امریکہ میں گندم کاکیانرخ ہے؟
۳۔ مقدمہ میں جیتوں گایاہاروں گا؟
ان سوالات کولکھ کرمیںنے کاغذکو تہہ کیا اور مسٹر محمودبے کوآوازدی کہ آ جائیے۔مسٹر محمود بے آکرمیز کی دوسری طرف بیٹھ گئے اور مجھ سے کہاکہ تہہ شدہ کاغذ کو پنسل کے ساتھ اپنے ہاتھ میں رکھ لوں۔ میںنے ایسا کیا۔ مسٹر محمود بے مجھ سے دور بیٹھے رہے اور منہ سے کچھ پڑھتے رہے۔ پانچ سات منٹ پڑھنے کے بعدآپ نے مجھ سے کہاکہ میں تہ شدہ کاغذ کھولوں۔ میں نے جب کاغذ کھولا تواس میں ہر سوال کے آگے جواب لکھاتھا:
۱۔آج دہلی میں بارش نہیں ہوئی۔
۲۔امریکہ میں گہیوں کانرخ چار روپیہ من ہے۔
۳۔ میںمقدمہ جیتوںگا ۔
یہ جوابات پنسل سے ہرسوال کے آگے لکھے تھے اوراس قسم کی تحریر تھی ‘جیسے لکھنے والے کے ہاتھوں میںرعشہ ہو اور لکھتے ہوئے کانپتے ہوں۔ میں ان جوابات کودیکھ کرحیران رہ گیا۔ کورا کاغذ لیا ‘خود سوالات لکھے۔ کاغذ میرے ہاتھ میں رہا‘ مسٹر محمود بے مجھ سے چھوئے تک نہیں ‘یہ جوابات کون لکھ گیا تھا‘‘۔
یہ دیوان سنگھ مفتون کا آنکھوں دیکھا احوال ہے۔ یاد رہے مفتون کابھوت پریت پرکبھی یقین نہیںرہا‘ لیکن یہ دونوں واقعات اس کی کھلی آنکھوں کے سامنے ہوئے۔ اس کا ردِعمل حیرت ہے۔ یہ حیرت ہر اس شخص کو ہوتی ہے‘ جو اشیا کو اپنی عقل کی کسوٹی پر جانتا اور منطق کی میزان پر پرکھتا ہیں۔ شایدMetapysical دنیاکے حیرت کدے میں عقل کی کسوٹی اور منطق کی میزان بے اثر ہوجاتی ہے۔ایک اسرار کی دھندہے ‘جو یہاں سے وہاںتک چھائی ہوئی ہے۔