شکیل عادل زادہ کااولین تاثر ایک خوابِ خوش رنگ کا تھا ‘جس کی بُنَت میں بہت سے رنگ شامل تھے۔ اس کے 'سب رنگ‘ ڈائجسٹ نے مجھے اور مجھ جیسے بہت سوں کو اپنا اسیر بنا لیا تھا۔ اس کی نثر سب سے الگ اور سب سے جدا تھی۔ لفظوں کی اشرفیاں تراشنا اور اُجالنا کوئی اس سے سیکھے۔ اس کی تحریر میں جذبے کی آنچ پڑھنے والوں کے دلوں میں ہل چل مچا دیتی۔ جن لوگوں نے کبھی شکیل عادل زادہ کی ' سب رنگ‘ میں چھپنے والی قسط وار کہانی 'بازی گر‘ پڑھی وہ ابھی تک اس کی اگلی قسط کے انتظار میں ہیں۔
تو مرے راستے سے گُزرا تھا
میں ترے راستے میں بیٹھا ہوں
اور پھر 'سب رنگ‘ میں چھپنے والا ذاتی صفحہ‘ جس میں شکیل عادل زادہ اپنے چاہنے والوں سے براہ راست گفتگو کرتا۔' سب رنگ‘ کی تاخیر کی وجوہات بتا کر انہیں منانے کی کوشش کرتا اور اس کے چاہنے والے بھی کیسے تھے ؟ ذراسی تسلی سے مان بھی جاتے۔
اس خوابِ خوش رنگ سے ملنے کی آرزو دل میں مہکتی رہی‘ لیکن ملاقات کی صورت نہ نکلی۔ دن گزرتے گئے۔ سب رنگ کی اشاعت میں وقفے طویل ہوتے گئے اور پھر ایک روز پتہ چلا کہ شکیل عادل زادہ نے سب رنگ کا ڈیکلیریشن کسی اور کو بیچ دیا ہے‘ وہ دن اور اس سے جُڑی اُداسی مجھے ابھی تک یاد ہے۔اُس روزمیرا'سب رنگ‘سے طویل رفاقت کا سفر ختم ہو رہا تھا۔ مجھے اس سفر کے کتنے ہی منظر یاد آنے لگے ۔ کیسے ہم 'سب رنگ‘ کا انتظار کیا کرتے ۔کیسے راولپنڈی کے بنک روڈ پر واقع ڈھاکہ بُک سٹال جب ایک ڈوری سے لٹکے گتے پہ لکھا ہوتا :'سب رنگ‘ کا تازہ شمارہ آگیا ہے! تو 'سب رنگ ‘کے چاہنے والوں کے لیے عید کا دن ہوتا۔
پھر ایک دن اچانک اس خوابِ خوش رنگ شکیل عادل زادہ سے ملاقات ہوئی‘ لیکن شاید اچانک نہیں ‘اس کے لیے رئوف کلاسرا اور میں جب بھی ملتے پروگرام بناتے کہ شکیل عادل زادہ کو اسلام آباد بلایا جائے اور پھر ایک دن آیا‘ جب ہم دونوںنے اسلام آباد میںشکیل عادل زادہ کا طویل انٹرویو کیا۔اس روز رات کو میرے گھر میں ڈنر تھا ‘ جس میں صرف تین لوگ تھے۔ رات بھیگتی رہی اورہم شکیل بھائی سے باتیں کرتے رہے ۔ 'سب رنگ‘ کی باتیں‘ 'بازی گر‘ کی باتیں‘ 'کورا‘ کی باتیں ‘ پھر شکیل عادل زادہ سے ہماری دوستی ہو گئی۔اب وہ ہمارے شکیل بھائی ہو گئے۔ میں نے جب اُردو کالم لکھنے کا آغاز کیا‘ تو کالم کے نام کا مرحلہ در پیش تھا ۔ شکیل بھائی کو فون کیا اور اُن سے رہنمائی چاہی۔شکیل بھائی کوئی ایسا نام بتائیں‘ جو مختلف اور سادہ اوربامعنی ہو۔شکیل بھائی نے ایک لمحے کوتوقف کیااورپھر بولے :'زیر آسماں‘کیسا ہے؟میں نے کہا بہت اچھا ہے۔ اوریوں کالم کا نام 'زیرآسماں‘طے پا گیا۔ شکیل عادل زادہ مسلسل محبت کا نام ہے‘جس کی کوئی انت نہیں۔ ہر منگل کو اُن کا فون ضرور آتا ہے۔ کالم کی ستائش کرتے ہیں۔ مُجھے معلوم ہے‘ یہ اُن کی حوصلہ افزائی کا خاص انداز ہے‘ ورنہ ہم تواُن کی نثر کے خوشہ چینوں میں شامل ہیں۔ پچھلے ہفتے بہت دنوں بعد کراچی جانے کا اتفاق ہوا‘ تو شکیل بھائی کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ شکیل بھائی کا اکلوتا بیٹا شرجیل یہاںسے بہت دُور کینیڈا میں اپنی دنیا خود تعمیر کررہا ہے ۔ایک بیٹی کی شادی ہو چکی ہے۔ چھوٹی بیٹی اُن کے ساتھ رہتی ہے اور ایک تعلیمی ادارے میں فائن آرٹس پڑھاتی ہے۔ اُن کا گھر اُن کے ذوق کا آئینہ دار ہے‘ جس کی آرائش میں ان کی بیگم اوربیٹی کا ہاتھ ہے۔ گھر کا لان اور درودیوا رکے ساتھ خوبصورت پودے اور اُن کی تراش خراش شکیل بھائی کی بیگم کی مرہونِ منت ہے۔
ڈرائنگ روم کی دیوار پر آرٹسٹ منظور صاحب کی 'سب رنگ‘ کے سرورق کے لیے بنائی ہوئی خوبصورت تصویریں ‘فریموں کی شکل میں آویزاں ہیں۔ میں اُن تصویروں کو دیکھ رہا تھا اور مجھے 'سب رنگ‘ کے بِتائے ہوئے‘ دن یاد آ رہے تھے۔ اور پھر ایک فریم میں وہ تصویر جو 'سب رنگ‘ کے پہلے شمارے کے سرورق پر شائع ہوئی تھی۔ایک فریم میں آرٹسٹ ذاکر کی بنائی ہوئی تصویر تھی۔ ذاکر‘ جس نے 'سب رنگ‘ کو بہت سی خوبصورت تصویریں دیں۔ اور بالکل سامنے لائبریری‘ جس میں بڑی تعداد لغات (Dictionaries) کی ہے‘ جو شکیل بھائی کی زبان سے گہری دلچسپی کا پتہ دیتی ہیں۔ سیڑھیوں کے پاس ایک کمرہ ہے‘ یہ 'سب رنگ‘ کا کمرہ ہے۔ یہاں 'سب رنگ‘ کے مجلد شمارے سلسلہ وار‘ ترتیب سے رکھے ہیں۔ میں اورشکیل بھائی 'سب رنگ‘ سے وابستہ مصوروں کو یاد کر رہے تھے‘ جن کے موقلم نے 'سب رنگ‘ کو چار چاند لگا دیئے تھے۔
کچھ ہی دیر میں چائے آگئی ۔ آپ کوجان کر حیرت ہو گی کہ شکیل بھائی بہت کم چائے پیتے ہیں۔ کسی زمانے میں سگریٹ پیتے تھے‘ مگرعرصہ ہوا سگریٹ نوشی بھی ترک کر دی ۔ سو میرے لیے چائے آگئی اور شکیل بھائی کے لیے پان۔ میں نے شکیل بھائی سے کہا: 'بازی گر‘ میں پانوں کا خوب ذکر آیا ہے۔ شکیل بھائی کہنے لگے: ہاں! اُس علاقے میں پانوں کی اپنی تہذیب ہے۔
ہم باتوں میں گم تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ یہ شکیل الرحمن صاحب کا فون تھا‘ جن سے میری پہلی ملاقات آکسفرڈ لٹریری فیسٹیول میں ہوئی‘جہاں وہ شکیل عادل زادہ کے ہمراہ آئے تھے اور ہم نے ایک ہی میز پر لنچ کیا تھا۔ شکیل الرحمن صاحب غالبؔ کے حافظ ہیں‘ اسی میز پر انہوں نے دعوت دی تھی کہ اگلی بار جب آئیں ‘تو میرے ہاں نہاری کی دعوت ہو گی۔ انہیں میری کراچی آمد کا پتہ تھا‘ سو آج رات اُن کے ہاں نہاری کی دعوت تھی۔ اس دعوت میں‘ شکیل عادل زادہ اور کچھ ہی دیر میں محترم سہیل وڑائچ بھی آگئے‘ اُن کا شمار بھی شکیل عادل زادہ کے عشاق میں ہوتا ہے۔ انہوں نے محفل میں بتایا کہ کیسے اُن کے چچا 'سب رنگ‘ کے دلدادہ تھے اور کیسے وہ 'سب رنگ‘ کے سحر میں آگئے۔ اسی محفل میں غزل کے مشہورگلو کار سلمان علوی بھی تھے‘جو اعلیٰ ادبی ذوق کے مالک ہیں۔ انیق احمد بھی مدعو تھے ‘لیکن وہ آ نہ سکے‘ جس کا مداوا‘ انہوں نے ایک روز لنچ پر بلا کر کیا‘جس میں شکیل عادل زادہ اور سہیل وڑائچ بھی تھے۔ انیق احمد دنیاٹی وی پرایک مقبول پروگرام کے اینکر(Anchor)ہیں۔ اُن کی بھی 'سب رنگ‘ سے جُڑی ہوئی یادیں ہیں۔ وہ کہنے لگے:'سب رنگ‘ ہمارے گھرآتاتھا ‘لیکن بچوں کے پڑھنے پرپابندی تھی ‘پھربھی ہم آنکھ بچاکر'سب رنگ‘ پڑھا کرتے تھے۔
ریستوران کی دوسری منزل کی شیشے کی دیوارکے باہر کھجوروں کے درخت سمندری ہوائوں کی زد میں جھول رہے تھے ۔ہر طرح کی باتیں ہو رہی تھیں اورپھر آخر میںوہی سوال؟ شکیل بھائی 'بازی گر‘ کی کہانی کب ختم ہوگی؟ لیکن اس بار جواب مختلف تھا۔خبریہ ہے کہ شکیل عادل زادہ آج کل 'بازی گر‘ کی آخری طویل قسط پرکام کررہے ہیں۔ درمیان میں تھوڑا ساوقفہ اس لیے آیاکہ ان کی آنکھیں خراب ہوگئی تھیں۔ شہرکے مشہور آئی ہسپتال میں گئے‘ جہاں مریضوں کاہجوم تھا‘ جانے کیسے سب سے سینئر ڈاکٹر کوخبرہوئی کہ جس مریض کوابھی دیکھا ہے وہ اس کے محبوب رسالے ''سب رنگ‘‘ کاایڈیٹرتھا ڈاکٹر نے انہیں اپناہاتھ آگے بڑھانے کو کہا۔شکیل بھائی نے تعمیل کی۔ ڈاکٹر نے سب کے سامنے اُن کاہاتھ پکڑا اورعقیدت سے چوم لیا۔وہ بھی سب رنگ کا عاشق نکلا تھا۔ میں سوچ رہاہوں ہم میں کتنے ہی ایسے ہیں ‘جو 'سب رنگ‘ کے عشاق کے قبیلے میںایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں‘ جن کے دلوں میں اس خوابِ خوش رنگ کاعکس جھملاتا رہتاہے ‘جسے دنیا شکیل عادل زادہ کے نام سے جانتی ہے۔