یہ شہیدوں کاچمنستان ہے‘ جہاں حدِ نظرتک سرخ پھولوں کی قطاریں ہیں۔ خوش رنگ‘ تروتازہ ‘ مہکتے ہوئے پھول ۔کہتے ہیں: شہید مرتے نہیں‘ امرہوجاتے ہیں۔آج اس چمنستان میں آکراورلہلہاتے پھولوں کو دیکھ کرمجھے ایساہی لگا۔ سرخ رنگ کے پھول ان شہیدوں کی یاد دلا رہے تھے‘ جنہوں نے پاکستان کی بنیادوںکو اپنے لہو سے سینچا ۔وہ جوآزادی کے حُسن کے اسیرتھے اورجنہوںنے آزادوطن کے لیے اپنے جسموں کا چاندی سونا اور اپنے چہروںکے نیلم اور مرجان لٹا دیے۔ کہتے ہیں کہ آزادی کا حصول مشکل ہوتاہے‘ لیکن اس کوقائم رکھنا مشکل تر۔ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک کتنی ہی اطراف سے اس آزادی پرشب خون مارنے کی کوششیں کی گئیں ‘ لیکن ہربار وطن کے سرفروشوں نے اپنے لہو کا نذرانہ دے کر وطن کی آزادی کی حفاظت کی۔کتنی ہی کہانیاں شجاعت اوربہادری کی ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیں۔ایک کہانی تو میرے اپنے خاندان کے لیفٹیننٹ منیب احمدشہید کی ہے: یہ1971ء کا ذکرہے۔ مشرقی پاکستان میں بھارتی فوج باغیوں کے ساتھ مل کر پاکستانی فوج سے لڑرہی تھی۔ میں اس وقت سکول میں پڑھتاتھا۔ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج تمام ترمشکلات کے باوجود بے جگری سے لڑرہی تھی۔لیفٹیننٹ منیب احمد نومبر1971ء میں کاکول اکیڈمی سے پاس آئوٹ ہواتھا۔اس کی پہلی پوسٹنگ ہی مشرقی پاکستان میں جمال پور سیکٹر میں ہوئی تھی۔21سال کی عمر ہی کیاہوتی ہے‘ یہ توخواب دیکھنے کے دن ہوتے ہیں‘ لیکن منیب کے خوابوں میں سب سے روشن خواب پاکستان تھا‘ جس کے تحفظ کے لیے وہ کوئی بھی قربانی دے سکتا تھا۔ جواں سال منیب دشمن فوج کے علاقے میں دور تک اندرچلا گیا۔ رات کی تاریکی میں دشمن کی آواز آئی''ہینڈزاپ‘‘۔ منیب نے بلندآواز میں کہا ـ''مسلمان ہینڈزاپ نہیں کرتا‘‘اورساتھ ہی آواز کی سمت فائر کیا۔دوسری طرف سے اندھادھند فائرنگ شروع ہو گئی۔لیفٹیننٹ منیب آنکھوں میں پاکستان کا روشن خواب سجائے دیوانہ وار مقابلہ کرتا ہوا شہید ہوگیا۔ایثار اور قربانی کی ایسی ہی اَن گنت کہانیاں ہمارے چاروں طرف بکھری ہوئی ہیں۔ان کہانیوں کو ہمارے نوجوانوں تک پہنچنا چاہیے ‘تاکہ انہیں اپنے محسنوں کی خبر ہو‘ جنہوںنے اپنا آج ان کے کل کے لیے قربان کردیا ۔
اس اہم کام کا بیڑا‘ آئی ایس پی آر (ISPR) نے اٹھایا۔آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر پبلی کیشنز بریگیڈیئرطاہرمحمود ‘جوخودبھی کتابوں کے رسیا ہیں ‘نے ڈائریکٹرجنرل محترم آصف غفور کی زیرقیادت اپنی ٹیم کے ہمراہ بک پبلی کیشنز کا منصوبہ بنایا۔یہ منصوبہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتاب کلچر کے فروغ کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کادوسرا اہم پہلویہ ہے کہ اس پلیٹ فارم سے پاکستانی لکھاریوں کو مواقع فراہم کئے جائیں گے‘ تاکہ پاکستان کے بارے میں جاننے کے لیے ہمیں صرف غیرملکی مصنفین کی تحریروں پرتکیہ نہ کرنا پڑے۔آ ئی ایس پی آر پبلی کیشنز سیریز کے تحت پہلی دوکتابیں حال ہی میں منظرعام پر آئی ہیں‘ان میں سے ایک کتاب اُردو میں ہے اورایک انگریزی میں۔اُردو کتاب کا ٹائٹل ''جنونِ رخِ وفا‘‘ اورانگریزی کتاب کا "MOONGLADE" ہے۔ دونوں کا موضوع ایک ہے۔یہ ان شہیدوں کی کہانیاں ہیں‘ جنہوںنے اپنی جان کی متاح لٹاکر وطن کی آزادی کی حفاظت کی۔ان شہیدوں میں جنرل‘ کرنل‘ میجر‘ کیپٹن‘ لیفٹیننٹ‘ صوبیدار‘ حوالدار‘ سپاہی شامل ہیں۔اسی طرح کچھ کہانیاں ایئرفورس کے جانبازوں کی ہیں۔کچھ تذکرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہیں۔ کچھ قربانیوں کی داستانیں عام شہریوں کی ہیں۔ ان سب کاجذبہ ایک تھا۔ ان سب کی محبت پاکستان تھا۔ان سب کاپیغام امید تھا۔ ان کہانیوں کے بیان کرنے والے کئی ہیں۔ کہیں ایک باپ اپنے شہیدبیٹے کی کہانی سنا رہاہے‘ کہیں ایک بیٹا اپنے باپ کی شہادت کے بارے میں لکھ رہاہے۔ کہیں ایک بیوی اپنے شوہرکی یاد تازہ کررہی ہے۔کہیں ایک بہن اپنے بھائی کی محبتوں کو دُہرارہی ہے۔کہیں ایک سینئر اپنے جونیئر کو داددے رہاہے۔ کہیں ایک جونیئر اپنے سینئر کی لیڈرشپ کی تحسین کررہاہے۔
کچھ کہانیاں جذبوں کی شدت کواورتیز کردیتی ہیں‘ان عظیم مائوںکی کہانیاں‘جنہوںنے اپنے لاڈلے بیٹے ملک کی بقا کی خاطر قربان کردیئے۔ ان کے چہروں پر افتخار کی روشنی ہے‘ لیکن درد کی ایک رو ان کی زندگی کے ہمراہ چل رہی ہے۔ایسی ہی ایک ماں‘ کیپٹن بلال کی والدہ بھی ہیں۔جب وہ بیس برس کی تھیں‘ تو ان کے ہاں بلال کی پیدائش ہوئی ۔دوسال بعد ان کے شوہر جوآرمی میں تھے‘ شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔ یوں بلال کی والدہ نے اکیلے بلال کی پرورش کی اورپال پوس کر فوج کے حوالے کردیا۔ جب ان کے شوہرزندہ تھے‘ انہیں ہمیشہ رنگوں والے کپڑے پہننے کوکہتے تھے۔ بلال کی والدہ کاکہناہے : ''بلال علی کی شہادت کی خبر سن کر اس کے شہیدچہرے کو دیکھنے کی رات تک میرے سرکے سب بال سفیدہوگئے تھے۔ تب میںنے پہلی بار سفیدلباس پہناتھا اوراب کوئی رنگ پہننے کو دل نہیں چاہتا۔‘‘ لیکن اس درد سے بڑا وہ جذبہ ہے‘ جو شہیدوں سے وابستہ لوگوں کے دلوں میں موجزن ہے۔ یہی وجہ ہے بے شمار ایسی مثالیں ہیں‘ ایک شہید کے بعد اس خاندان نے اپنے باقی بیٹے بھی فوج کو سونپ دیئے۔
اپنے بھرے پُرے گھروں کوچھوڑنا‘ اپنے خاندان کے افراد سے جدا ہونا اور اپنی جان کولٹادیناآسان کام نہیں۔ ایک کہانی میں شہید کی میت اس کے گھر آرہی ہے۔ اس کی ایک معصوم کم سن بچی بھی ہے۔ سب لوگ میت کا انتظار کررہے ہیں‘ ایسے میں ''کسی کی نظر شہید کی ننھی سی معصوم بیٹی پرپڑی‘ جواپنی جوتے تلاش کررہی تھی۔ وہ جلدی جلدی ان جوتوں کوپہن لیناچاہتی تھی۔ اسے یاد ہے کہ جب بھی پاپا آتے اسے پکارکرکہتے تیار ہوجائو‘ آج ہم گھومیں گے‘ پھریں گے۔ جب وہ تیار ہوجاتی‘ تواکثر اس کے جوتے کھو جاتے اورباباکوانتظار کرناپڑتا۔ آج اس نے اپنے جوتے پہلے ہی ڈھونڈ لئے تھے۔ آج وہ اپنے پاپا کوانتظار نہیں کرواناچاہتی تھی‘‘۔
پھر اس بچے کی کہانی‘ جوچارسال کاتھا ‘جب اس کے والد کرنل ہمایوں خان زادہ شہیدہوگئے تھے۔ اب بھی وہ بچہ خاص دنوں میں اور Father's dayپر اپنے پاپاکے نام ایک کارڈ لکھتا ہے اور ایک غبارے سے باندھ کر اڑادیتاہے۔غبارہ آسمان کی بلندیوں کی طرف جاتے دیکھ کر اسے اطمینان ہوتا ہے کہ اس کا لکھا ہوا پیغام اس کے پاپا تک پہنچ جائے گا۔
اورشہید اعتزاز حسن کی کہانی‘ جو چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا۔اس روز اس کا سکول جانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔وقت گزارنے کے لیے اس نے ماں سے فرمائش کی کہ اسے انڈے اور پراٹھے کا ناشتہ کرنا ہے۔ماں نے اپنے لاڈلے بیٹے کی فرمائش پوری کردی اور اسے سکول روانہ کیا۔ ماں کو کیا خبر تھی کہ وہ اپنے لال کو آخری بار دیکھ رہی ہے۔ اعتزاز سکول کے قریب پہنچا‘ تو اس نے دیکھا ایک مشکوک شخص چادر میں کوئی چیز چھپا کر سکول کی طرف جا رہا تھا۔ اعتزاز علاقے میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں سے باخبر تھا۔اس نے فوری فیصلہ کیا کہ مشکوک شخص کو سکول میں داخل ہونے سے پہلے روکنا ہے۔ وہ سرپٹ دوڑا اور خودکش حملہ آور سے لپٹ گیا۔بارود کا خوفناک دھماکہ ہوا اور اعتزاز کا ننھابدن دھماکے کی شدت سے ہوا میں اڑا اور بکھر گیا۔اعتزاز نے اپنی جان کی قربانی دے کر اپنے سکول کے بچوں کی زندگیوں کو بچا لیاتھا۔
آئی ایس پی آر کی مرتب کردہ ان دوکتابوں میں اس طرح کی کتنی ہی سچی کہانیاں ہیں ۔ ایثار اورقربانی کی کہانیاں۔جذبوں کی فراوانی کی کہانیوں ۔ افتخار اور طمانیت کی کہانیاں ۔ یہ کہانیاں پڑھنے والوں کے دلوں میں وطن سے محبت کی جوت جگاتی ہیں۔ عمل کاپیغام دیتی ہیں۔امیدکے چراغ روشن کرتی ہیں‘ ان کتابوں کا مطالعہ وہ در کھولتا ہے‘ جہاں سے گزر کر ہم شہیدوںکے چمنستان میں داخل ہوجاتے ہیں‘ جہاں تاحدِ نظر سرخ پھولوں کی قطاریں ہیں۔ خوش رنگ‘ تروتازہ‘ اورمہکتے ہوئے پھول۔ کہتے ہیں کہ شہیدمرتے نہیں‘ امر ہوجاتے ہیں۔ آج اس چمنستان میں آکراور لہلاتے پھولوں کودیکھ کر مجھے ایسا ہی لگا۔