آج8اکتوبر ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں بطورِ وائس چانسلر 4سالہ ٹرم کاآخری دن !آج کے دن کاآغازبھی معمول کے مطابق تھا۔میں ہمیشہ کی طرح آٹھ بجے اپنے دفترمیں موجود تھا ۔ ان 4سال میں یہ معمول شاید ہی کبھی ڈسٹرب ہوا ہو۔ مجھے گورڈن کالج میں پروفیسرسجاد شیخ کی آخری کلاس یادآگئی۔ جب ایم اے سیشن کے اختتام پرانہوںنے ہمیں تین باتوں کا درس دیاتھا۔ یہ وہ زادِ راہ تھا‘ جومیںنے اپنے پلے باندھ لیاتھا۔ پابندی وقت‘کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کی منصوبہ بندی اوردوسروں کی عزت نفس کاخیال۔ میں پیچھے مڑکر زندگی کے سفرپر نگاہ ڈالتا ہوں‘ تو شیخ صاحب کی یہ تین نصیحتیں میرے راستے کی جگمگاتی روشنیوں کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں 4سال کے دوران میںنے کبھی چھٹی نہیں کی۔ مجھے یقین ہے ‘سجادشیخ صاحب یہ جان کر جنت کے روشوں پرچلتے ہوئے ضرورخوش ہوئے ہوں گے۔
آج مجھے یونیورسٹی میں اپنا پہلادن بھی یادآرہاہے ‘جب میںلاہورسے اسلام آباد یونیورسٹی کو بطورِ وائس چانسلر جائن کرنے کے لیے آرہاتھا۔ یہ یونیورسٹی میرے لئے نئی نہیں تھی‘ میں یہاں پرپہلے بھی پڑھاتارہا۔اس کے بعد ملک کی کئی معروف یونیورسٹیوں‘ مثلاً: آغاخان یونیورسٹی کراچی‘ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز‘ غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی اورلاہور سکول آف اکنامکس کے ساتھ وابستہ رہا۔ اب ایک مدت کے بعد علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں بطور وائس چانسلر آرہاتھا۔ اس عرصے میں یونیورسٹی بدل چکی تھی۔نئی عمارتیں ‘نئے لوگ اورطلباء کی تعداد 13لاکھ ہوچکی تھی‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے چیلنجز بھی تھے‘ جن میں سرفہرست ایک طویل عرصے سے سلیکشن بورڈ کا انعقاد نہ ہوناتھا۔ میںنے یونیورسٹی کے ہرڈیپارٹمنٹ کے افراد سے اجتماعی اورانفرادی ملاقاتیں کیں۔ان ابتدائی ملاقاتوںمیںتین چیزوں کاوعدہ کیا۔ عزت نفس‘ اعتماد‘ اورکام کرنے کی آزادی۔میرے لیڈرشپ لٹریچر مطالعے کاحاصل یہ تھا کہ Give them the best & take best out of them(ملازمین کوبہترین سہولتیں فراہم کرو اور ان سے بہترین کارکردگی لو) میں نے ان 4سال میں اس اصول پر عمل کرنے کی پوری کوشش کی اور اس کے مثبت نتائج ملے۔دوسرے ہی ہفتے میں اپنے ٹارگٹس کاتعین کیا اوران ٹارگٹس کو اپنی ہرمیٹنگ میں دھراتا رہا‘تاکہ سب ساتھیوں کے ذہنوں میں یہ راسخ ہوجائیں اورہماری منزل کاتعین آسان ہوجائے۔ ان میں سرفہرست تحقیق(Research)کاہدف تھا۔ تحقیق کے کلچر کے فروغ کے لیے ایکResearch Incentives Programmeکاآغازکیاگیا‘ جس کے مطابق کسی بھی Accredited Journalمیں ریسرچ پیپر کی اشاعت پرکیش ایوارڈ قومی سطح کی کانفرسوں میں پیپرزپریزٹیشن پر یونیورسٹی کی سپانسرشپ‘ ریسرچ پراجیکٹس کیلئے یونیورسٹی کی طرف سے مالی معاونت شامل تھی تحقیق کے عمل میں لائبریری کا اہم کردار ہوتاہے۔ اس کے اوقات کو فوری طورپربڑھا کر صبح آٹھ سے شام سات بجے تک کردیاگیا اورہفتہ اتوار کی چھٹی ختم کردی گئی۔ یوں اب یونیورسٹی کی لائبریری ہفتے کے ساتوں دن کھلی رہتی ہے۔
کسی بھی یونیورسٹی میں صرف تحقیق کاہونا کافی نہیں ‘تحقیق کے نتائج کا دوسروں تک پہنچنابھی اتناہی اہم ہے‘ اس کے دواہم ذرائع ریسرچ جرنلز اورریسرچ کانفرنسرز ہیں۔ ان چارسال میں ہم نے اس شعبے پربھرپور توجہ دی اوراس وقت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے 17ریسرچ جرنلز شائع ہورہے ہیں۔ تحقیق کے نتائج کی ترویج میں ریسرچ کانفرنسز کابھی اہم کردار ہوتاہے‘ ان 4سال میں یونیورسٹی میں 42کانفرنسز کا انعقاد ہو ا۔ اس کے علاوہ 250کے قریب سیمینار منعقد ہوئے اورہرسال لٹریچر کارنیوال کاانعقاد کیاگیا۔یوں ان 4سال میں یونیورسٹی کوعلمی‘ تحقیقی اور ادبی سرگرمیوں کامرکز بنادیاگیا‘جہاں ملک کے مایہ ناز ادیب‘ شاعر‘ صحافی اور دانشور تشریف لائے‘ چندنام جویادآرہے ہیں ان میں: شکیل عادل زادہ‘ زاہدہ حنا‘ فاطمہ حسن‘ طاہرمسعود‘ روف کلاسرا‘ حامد میر‘ سجاد میر‘ سہیل وڑائچ‘ منصور آفاق‘ وجاہت مسعود‘ سلیم صافی‘ جاویدصدیق‘ امینہ سید‘ حمیدشاہد‘ جلیل عالی‘ اظہارالحق‘ جاوید چوہدری‘ ہارون الرشید‘ مجیب الرحمن شامی‘الطاف قریشی‘مجاہد منصوری‘ خالد مسعود‘ خورشید ندیم‘ مظہربرلاس‘ نعیم مسعود‘ رؤف طاہر‘سعدیہ قریشی‘ افتخار عارف‘ آفتاب اقبال شمیم‘عقیل عباس جعفری‘ احسان اکبر اور ان جیسے کتنے ہی جگمگاتے نام ہیں‘ جن کی روشنی سے یونیورسٹی کے دروبام منور رہے۔
ان 4برس میں یونیورسٹی کے ریسرچ پیپرز کی تعداد میں کئی گنااضافہ ہوا‘اسی طرح یونیورسٹی کی فیکلٹی نے ایچ ای سی اوربین الاقوامی سطح پربہت سے ریسرچ پراجیکٹس جیتے۔ایک اہم ٹارگٹ نصاب کواپ ڈیٹ کرنا تھا‘ جس کے لیے ایک ٹاسک فورس کاقیام عمل میں لایاگیا اوریونیورسٹی کے تمام پروگرامز کے نصاب اورکتابوں کواپ ڈیٹ کیاگیا۔ چھبیس نئے پروگرامز متعارف کرائے گئے آٹھ نئے شعبوں کی منظوری دی گئی۔ ملازمین کی پیشہ وورانہ تربیت کااہتمام تین سطحوں‘کیمپس‘ نیشنل اورانٹرنیشنل سطح پرکیاگیا۔ طلبا کی شکایت کے ازالے کے لیے کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم کانظام متعارف کرایا گیا۔ اس کے علاوہ کال سینٹرز کاانعقاد عمل میں آیا۔ ایڈمیشن‘ کتابوں کی میلنگ اورامتحانات کے شعبوں میں آئی ٹی کے استعمال سے ان کارکردگی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ایک اہم ٹار گٹ کمیونٹی سروس تھا‘ جس میں معاشرے کے مظلوم طبقوں کی دادرسی شامل تھی۔ یونیورسٹی میں تمام سپیشل سٹوڈنٹس ‘چاہے معذوری کی کوئی بھی قسم ہو ‘کے لیے ہرسطح پر مفت تعلیم کی سہولت مہیا کی گئی۔ اسی طرح جیل کے قیدیوں کے لیے مفت تعلیم کے پراجیکٹ کوزیادہ مؤثر بنایاگیا۔اس سال تقریباً ایک ہزار قیدی مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں۔خواجہ سرائوں کے لیے بھی مفت تعلیم کی سہولت دی گئی ہے۔ وہ بچیاں جن کاتعلق پاکستان کے پسماندہ علاقوں سے ہے اورجومالی وسائل کی کمی کی وجہ سے سکول تک نہیں پہنچ سکیں‘ یونیورسٹی انہیں بنیادی تعلیم پانچویں جماعت اور آٹھویں جماعت تک مفت تعلیم کااہتمام کیا ہے‘ جس کی بدولت سینکڑوں بچیوں کو تعلیم کے زیورسے آراستہ ہوئیں۔ بینائی سے محروم طلباء کے لیےAccessibilityسینٹر کا قیام عمل میں لایاگیا‘ جس کی بدولت بینائی سے محروم افراد کسی دقت کے بغیر لائبریری کااستعمال کرسکتے ہیں‘ جس طرح معاشرے میں محروم طبقے ہیں‘ اسی طرح پاکستان میںکچھ محروم علاقے بھی ہیں۔ فاٹا اوربلوچستان کے بچوں کے لیے مفت تعلیم کااعلان کیاگیا ‘جس کے نتیجے میں ان علاقوں سے داخلے کی درخواستوں میںکئی گنااضافہ ہوا۔
مجھے پچھلے دوماہ سے ہونے والی الوداعی تقریبات یادآنے لگیں۔ یونیورسٹی کے اکیڈمک اورایڈمنسٹریٹو شعبوں نے خوبصورت الوداعی تقریبات کااہتمام کیا اورمیرا ایمان محبت کے معجزوں پرپختہ ہوگیا۔ چارسال کاسفر چندلمحوں میں میری نگاہوں کے سامنے سے گزرگیا۔ میں شایدگئے وقت کے سحرمیں کچھ دیراوررہتا کہ دروازے پردستک مجھے ماضی سے حال میں لے آئی۔دروازے پر دعوت کے منتظمین تھے۔ یہ آخری الوداعی دعوت تھی‘ جس کااہتمام ایمپلائز ویلفیئرایسوسی ایشن نے کیاتھا۔ ہال کھچا کھچ بھراہوا تھا ۔اس اجتماع میں مالی بھی تھے‘ نائب قاصد بھی تھے‘ سینٹری ورکرزبھی تھے‘ ڈرائیور بھی تھے اورگارڈز بھی۔ ہال کے دروازے سے سٹیج تک سرخ پھولوں کا قالین سا بچھ گیا تھا۔ سٹیج پربیٹھے میں ان چہروں کو دیکھ رہاتھا‘ جومحبت کے جذبوں کی آنچ سے دہک رہے تھے‘ جن سے شاید پھر کبھی ملاقات نہ ہو۔ سٹیج سے تقریریں ہورہی تھیں‘ محبت کے جذبوں کااظہارہورہاتھا اورمیں سوچ رہاتھا: ان 4سال میں میرے گھروالوں کوہمیشہ یہ شکایت رہی کہ میں ان کو وقت نہیں دیتا۔شام کو جب دیرسے گھرپہنچتا توان کی آنکھوں سے یہ سوال جھانک رہاہوتا کہ آخرمیں یہ سب کیوں کررہا ہوں اس جنون اوردیوانگی کا حاصل کیا ہے؟ میرے پاس اس وقت اس سوال کاکوئی جواب نہ ہوتا لیکن آج مجھے اس سوال کاجواب مل گیا ہے ۔میں ہال میں بیٹھے ہوئے چہروں پرنگاہ ڈالتا ہوں‘ان کی آنکھوں میں تیرتی نمی‘ ان کی نگاہوں میں محبت کی مٹھاس ‘ اوران کے چہروں پرجذبوں کی آنچ کومحسوس کرتاہوں۔مجھے یوں لگتا ہے یہی میری چارسالہ محنت کاحاصل ہے۔ میری عمر کی سب سے بڑی کمائی اور میری زندگی کاسب سے قیمتی 'اثاثہ‘۔