بعض دفعہ ہماری خواہشیں خواب بن جاتی ہیں‘ جنہیں ہم کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ مری کاموسم ہمیشہ کی طرح آج بھی حسین تھا۔ بادل بہت نیچے تک آگئے تھے اورکچھ ہی دیر میں ہلکی برف باری کی پیشین گوئی تھی۔ جی پی او کی سیڑھیوں پربیٹھے میں نے مال روڈ پرنگاہ ڈالی۔ لوگوں کا ایک ہجوم تھا‘ جنہیں یہاں کے موسم کا سحر کھینچ لایاتھا۔ میری طرح کچھ اورلوگ بھی سیڑ ھیوں پر بیٹھے تھے‘ ان میں کچھ غیرملکی سیاح بھی تھے ۔میرے عقب میں ایک بوڑھا انگریز اپنی بیٹی کومری کی تاریخ بتارہا تھا۔ اس بوڑھے کے پاس ایک گائیڈ بک تھی‘ جبکہ اس کی بیٹی کے پاس کیمرہ تھا۔ ان کی باتوں کی آواز مجھ تک پہنچ رہی تھی ۔ سیاحت بھی کسی Addiction کی طرح ہوتی ہے‘ جو آپ کو ہر لمحہ بے قرار رکھتی ہے۔ دوردراز کے خطے آپ کو بلاتے ہیں اورآپ ان کی آواز پرکھنچے چلے جاتے ہیں۔ مجھے انعام بھائی کی یادآگئی ‘ان میں بھی ایک بے قرار روح تھی۔ کچھ عرصے بعد سب کچھ چھوڑکر وہ دوستوں کے ہمراہ سفرپرنکل جاتے‘ اس بوڑھے انگریز کی طرح جوہزاروں میل کافاصلہ طے کرکے اپنی بیٹی کویہاں کاحسن دکھانے لایا تھا۔ ایسے ہی ایک بار انعام بھائی مجھے اپنے ہمراہ یہاں لائے تھے۔ یہی جی پی او تھا ‘ یہی سیڑھیاں‘ یہیں ہم تھک کر سستانے کے لیے بیٹھے تھے ۔ ہم دونوں مال روڈ پرآتے جاتے لوگوں کودیکھ رہے تھے‘ جو مال روڈ کے نشیب کی طرف جاتے ہوئے اچانک بادلوں میں گم ہوجاتے۔ آج میں اکیلا یہاں بیٹھاہوں‘ کیونکہ انعام بھائی پانچ سال پہلے اُس وادیٔ ازل میں چلے گئے‘ جہاں جا کر کوئی واپس نہیں آتا۔انعام بھائی کاکہناتھا :جب برف کے گالے گررہے ہوں تو مال روڈ پر چلنے کامزہ دوبالاہوجاتاہے۔میں سیڑ ھیوں پر بیٹھا برف باری کاانتظار کررہاتھا۔ میںنے بیگ سے مری کی گائیڈ بک نکالی ‘جس میں یہاں کے بارے میںمعلومات دی گئی تھیں۔مری سطح سمندر سے 7,500فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ پنجاب پرقبضے کے فوری بعد مری کا 'ہل سٹیشن‘ کے طورپرانتخاب کیاگیا۔ اس وقت کے گورنر جنرل سرہنری لارنس نے1851ء میںپوسٹ آفس کی بنیادرکھی۔ وہ پوسٹ آفس‘ جس کی سیڑھیوں پر میں بیٹھاہوں۔ اس کے ساتھ ہی مال روڈ کی تعمیرشروع کی گئی۔ یوںمری پنجاب حکومت کاہیڈ کوارٹر بن گیا۔اس کی ہیڈکوارٹر کی حیثیت1876ء تک برقرار رہی۔1857ء میں مقامی لوگوں نے علم بغاوت بلندکیا‘جس کے نتیجے میں ایک معاہدہ طے پایا‘ لیکن بعد میں اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انگریزوں نے مری پر اپناتسلط پھرسے قائم کرلیا۔میں ابھی یہاں تک ہی پڑھ پایاتھا کہ آسماں سے برف کے گالے گرنے شروع ہوگئے۔میںنے کتاب بیگ میں رکھی اوراٹھ کھڑا ہوا۔
سیڑھیاں اترکرمیں اس ہجوم کاحصہ بن گیا ‘جوبادلوں میں سفرکررہاتھا۔ میرے دائیں بائیں مختلف اشیا کی دکانیں تھیں‘جہاں گاہکوں کارش ۔اچانک میرے قدم رک گئے۔ میرے بائیںجانب بلندی پر ریڈ اونین(Red Onion) ریستوران کا بورڈ نظر آ رہا تھا۔ کسی زمانے میں یہاں سیمز(Sam's)ہوتا تھا۔ یہ نوجوانوں کامرکز ہوا کرتا تھا۔ یہاں رقص کے مقابلے ہوتے تھے اوردورونزیک سے لوگ یہاں آیاکرتے تھے۔ اب سڑک کانشیب شروع ہورہاہے۔ میری رفتار تیزہوجاتی ہے‘ لیکن اس کا سبب سڑک کا نشیب نہیں ‘وہ عمارت ہے ‘جو مجھے بائیں طرف نظرآرہی ہے ‘یہ Lintott's Restaurant ہے۔ Lintott'sصرف ایک ریستوران نہیں ایک رومانس ہے‘ ایکAddictionہے۔ ایک ایسی ٹائم مشین‘ جس میں داخل ہوتے ہوئے ماضی کے شب وروز زندہ ہوجاتے ہیں۔ یہ بھٹوصاحب کی پسندیدہ جگہ تھی۔ وہ جب بھی مری آتے کافی پینے کیلئے یہیں کا انتخاب کرتے ۔ وہی لکڑی کے قدمچے‘ جنہیں طے کرکے میںریستوران کے اندر داخل ہوتا ہوں۔ میزوں کی وہی مخصوص ترتیب‘ وہی شیشے کی خوبصورت کھڑکیاں جہاں سے باہر مال روڈ کامنظر نظرآتاہے۔میں ریستوران میں داخل ہوکر اپنے دائیں طرف کونے والی میزپربیٹھ جاتا ہوں۔ کافی کاآرڈر دے کر میں کھڑکی سے باہردیکھتا ہوں‘ اونچے لمبے درختوں پربرف جھلملارہی ہے ۔ مجھے وہ شام یادآگئی جب یہیں اسی میزپر میںشکیل عادل زادہ کے ساتھ بیٹھا تھا ۔ وہی شکیل عادل زادہ جس کے سب رنگ نے ہمیں ایک عرصے تک اپنے طلسم میں گرفتار کیے رکھا۔ وہ خود مری کے حسن کا اسیر نکلا۔ مجھے یادہے اس روز ہم نے یہاں کافی وقت گزاراتھا۔ شکیل بھائی کے پاس باتوں کے خزانے ہیں اورہم ان خزانوں کے متلاشی رہتے ہیں۔ اس روز شکیل بھائی باتیں کرتے رہے اور میں سنتا رہا ۔ سب رنگ کی باتیں‘ جوش صاحب کے قصے‘ جون ایلیا کی کہانیاں‘ امروہہ کے تذکرے‘ پھر انہوں نے کھڑکی سے باہر دیکھا ‘برف کے گالے یہاں وہاں گررہے تھے۔ مری سے شکیل عادل زادہ کو پیار ہے ۔ وہ بتارہے تھے: ایک عرصے تک وہ ہرسال باقاعدہ مری آتے تھے‘ پھرایک لمبا وقفہ آ گیا اور آج وہ ایک طویل عرصے کے بعد مری آئے تھے اور کافی کی طلب ہمیں یہاں لے آئی تھی۔Lintott'sکی اپنی تاریخی حیثیت ہے‘ اس کی دیواروں پر لگی پرانی تصویریں مری کے ماضی کاپتا دیتی ہیں۔ یہاں کی کافی کااپنا ہی مزہ ہے جو برف میں دوبالا ہوجاتاہے ۔اس روز کافی پی کر ہم باہرنکلے تو شکیل بھائی نے کہا: مجھے پان کی طلب ہورہی ہے۔ مجھے یاد ہے کیسے ہم نے مال روڈ پردائیں طرف اترتی سیڑھیوںکے پاس ایک پان کی دکان دریافت کی تھی اورکیسے اس دریافت پر خوش ہوئے تھے۔ وہاں سے ہم کتابوں کی سب سے پرانی دکان پر آئے ۔دکان میں داخل ہونے کے بجائے وہ کھڑے ہوگئے۔ انہیں کچھ یاد آگیا تھا۔ میرے پوچھنے پرانہوںنے بتایا بہت سال پہلے کی بات ہے میں باقاعدگی سے مری آتاتھا‘وہ سب رنگ کے عروج کازمانہ تھا‘ اس دکان کے مالک میرے دوست تھے ایک روز میں مری آیا اورہمیشہ کی طرح اس دکان پربھی آیا۔ دکان میں مجھے ایک لڑکی ملی‘ جس نے ہلکے آسمانی رنگ کے کپڑے پہنے تھے‘ اس نے سب رنگ میں چھپنے والی ایک کہانی کے حوالے سے اپنے تحفظات کااظہار کیا۔ وہ کہنے لگی کہ سب رنگ ہمارا پسندیدہ ڈائجسٹ ہے اورہم چاہتے ہیں اس میں کوئی ایسی چیز نہ چھپے جس پرکوئی اعتراض کرسکے ۔اس کے لہجے میں اپنائیت اور اعتماد کی روشنی تھی ۔شکیل بھائی کہتے ہیں کہ میںنے وہ نصیحت پلے باندھ لی ہے ۔جاتے جاتے اس لڑکی نے شکیل بھائی سے کہا کہ آپ اپنی قسط وار کہانی کو کب مکمل کریں گے ۔شکیل بھائی کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔آج میں اکیلامال روڈ سے نشیب کی طرف جارہاتھا۔ میںنے کتابوں کی دکان کودیکھا اورمجھے شکیل عادل زادہ کی یادآگئی۔میرے قدم خودبخود اس دکان کی طرف اٹھنے لگے میں سوچ رہاتھا کہ اگر سب رنگ کی شیدائی‘ ہلکے آسمانی رنگ کے کپڑوں والی وہ لڑکی مجھے اس دکان میں مل جائے تومیں اسے بتائوں گا کہ 'بازی گر‘ کی آخری قسط لکھی جارہی ہے۔ یہ قسط ایک طویل قسط ہوگی ۔شکیل عادل زادہ کاآخری شاہکار۔اس کے بیس پچیس صفحے لکھے جاچکے ہیں‘ اسی سال بازی گراپنے اختتام کوپہنچے گی۔
دکان کے اندر لوگوں کا ہجوم تھا میں دکان سے باہرنکل آیا۔ برف کے گالے اسی رفتارسے آسمان سے اتررہے تھے۔ میں واپس جی پی او کی طرف چلنے لگا‘جس کی سیڑھیوں پربیٹھ کرمیں رئوف کلاسرا کوفون کروںگا‘ پھرہم دونوں بازی گری کے اختتام پرگفتگوکریںگے۔میرے سامنے لوگ ایک لہرکی صورت چلے جارہے ہیں۔ اب برف کے گالوں کی رفتار تیزہوگئی ہے۔ اچانک اس ہجوم میں مجھے انعام بھائی دکھائی دیتے ہیں۔ وہی چیک کاکوٹ اورگلے میں کیمرا۔ میں تیزی سے آگے بڑھتا ہوں‘ لیکن میر ے راستے میں بادل حائل ہو جاتے ہیں۔ میں سرجھٹکتا ہوں کیا یہ سب میرے خیال کاکرشمہ تھا‘ پھرسوچتاہوں بعض اوقات ہماری خواہشیں خواب بن جاتی ہیں‘ جنہیں ہم کھلی آنکھوںسے دیکھتے ہیں۔