اسلام آباد سے ایک سو پچاس کلو میٹر اور منڈی بہائوالدین سے چھ کلومیٹر دور ٹلہ مونگ میری منزل ہے۔ یہ محض قصبہ نہیں مزاحمت کا استعارہ ہے۔جوں جوں مونگ کا قصبہ قریب آرہا ہے میں تاریخ میں ماضی کا سفر کر رہا ہوں اور اب مونگ کا قصبہ میرے نگاہوں کے سامنے ہے۔ میں ٹیڑھے میڑھے راستوں پر چلتا ہوا ٹیلے کی بلندی کی طرف جا رہا ہوں ۔ٹیلے کے بلند ترین مقام پرپہنچ کر میں اردگرد نظر دوڑاتا ہوں‘ دور دور کے منظر یہاںسے واضح نظر آرہے ہیں۔میں ایک بڑے سے پتھر سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا ہوںاور خود سے پوچھتا ہوں ''تو کیا یہی وہ جگہ ہے‘ جہاںپورس اور سکندر اعظم کے درمیان گھمسان کا رن پڑا تھا‘‘۔
ٹیلے پر ہلکی ہلکی ہوا چل رہی ہے‘ آسماں پر بادل اکٹھے ہو رہے ہیں‘ میں ٹانگیں پسار کرآنکھیں موند لیتا ہوں۔ میں سوچتا ہوں یہی جگہ تھی‘ مئی کا مہینہ تھا‘ دریائے جہلم کی بپھرتی ہوئی لہروںکا شور تھا ‘سیاہ رازوں بھری رات تھی اور 326قبل مسیح کا سال تھا۔ دریائے جہلم کے اس طرف راجہ پورس کی فوج تھی اور دوسرے کنارے پر سکندر اعظم کا لشکر۔ راجہ پورس گجرات کا راجہ تھا اور دریائے جہلم اور چناب کے درمیانی علاقے پر اس کی سلطنت تھی۔وہ سات فٹ لمبا جوان تھا جس کی شجاعت کی داستانیںدور ونزدیک پھیلی ہوئی تھیں۔دریا کے اُس پار سکندر اعظم کی فوج تھی۔ دریائے سندھ کے طوفانی ریلوں کو پار کرتے ہوئے سکندر ٹیکسلا پہنچا تھا جہاں کے راجہ اِمبی نے سکندر کے لشکر کے تیور دیکھ کر خیریت اسی میں سمجھی کہ ہتھیار ڈال کر سکندر کو خوش آمدید کہے۔یوں امبی سکندر کا میزبان بن گیا اور سکندر نے ٹیکسلا کو اپنی جولاں گاہ بنا لیا‘ جہاں سے اسے ہندوستان کو تسخیر کرنا تھا ۔اسی دوران اردگرد کے حکمران نذرانے لے کے آتے رہے اور جان کی امان پاتے رہے‘ صرف راجہ پورس کی طرف سے کوئی نذرانہ آیا اور نہ ہی جاں بخشی کی درخواست آئی۔سکندر کے لیے یہ حیرت کی بات تھی ‘ابھی تک اسے یہاں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔آخر دریائے جہلم کا کنارہ نظر آنے لگا ‘سکندر کے لشکر نے یہاں ڈیرے ڈال دیے۔دریا کے دوسری جانب راجہ پورس کی فوج تھی‘ جسے سکندر کے آنے کی اطلاع مل چکی تھی اور وہ اس مزاحمت کے لیے تیار تھا۔سکندر اعظم نے اپنے ایک سفارت کار پورس کے دربار میں بھیجا کہ وہ پورس سے ملاقات کر ناچاہتا ہے‘ پورس نے اس سفارت کار کے ہاتھ سکندر کو جواب بھیجا کہ ـمیں تم سے ضرور ملاقات کروں گا‘ لیکن یہ ملاقات میدان جنگ میں ہو گیـ۔
یہ مئی کا مہینہ تھا جب گلیشئر پگھلتے ہیں اور دریائوں میں پانی کی روانی بڑھ جاتی ہے۔ دریا کے اس طرف سکندر نے اپنی فوج کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا۔ اس کے سپاہی دریا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک حرکت کرتے رہتے‘ ان کے ہمراہ روشنیا ں ہوتیں اور وہ شوروغل مچاتے جاتے۔ یہ سب سکندر کے پلان کا حصہ تھا کہ دوسری طرف پورس کی فوج ان روشنیوں اور آوازوں کی عادی ہو جائے اور جب سکندر کے سپاہی واقعی دریا عبور کرنے لگیں تو اس شور کو معمول کا شور سمجھا جائے ۔پورس نے شاید یہ اندازہ لگایا ہو کہ یہ گرمیوں کا موسم ہے‘ دریا کی سطح بلند ہے‘ پانی کی موجیںمنہ زور ہیں اس لیے سکندر گرمیاں گزرنے کا انتظار کر ے گا‘ جب دریا میں پانی کی سطح کم ہو جائے گی اور اسے عبور کرنا آسان ہو گا‘ لیکن سکندر کے ذہن میں کچھ اور تھا ۔ایک رات جب بارش برس رہی تھی‘ دریا میں موجوں کا شور سنا جا سکتا تھا‘ اندھیرے میں کڑکتی بجلی ایک لمحے کو لہراتی اور پھر گھپ اندھیرا ہو جاتا ‘سکندر نے فوج کے ایک حصے کو بیس کیمپ میںچھوڑا اور تقریباً17 میل دریا کے کنارے چلتا گیا۔وہاں سے رات کی تاریکی اور برستی بارش میں انہوں نے دریا عبور کرنا تھا۔ دریا میں چلتے چلتے انہیں یوں لگا کہ دوسراکنارہ آگیا ہے‘ لیکن یہ جان کر انہیںحیرت ہوئی کہ جسے وہ دریا کا کنارہ سمجھ رہے تھے وہ دراصل ایک جزیرہ تھا اور اس سے آگے پھر شور لہریں تھیں۔ جب وہ دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچے تو انہیں ایک جنگل اور کھائی نظر آئی جو چھپنے کے لیے بہترین جگہ تھیں۔
پورس اس سرگرمی سے با خبر نہیں تھا‘ اس نے اپنے بیٹے کی سربراہی میں ایک ٹیم بھیجی‘ سکندر اعظم کی فوج نے اس مختصر سی فوج کو شکست دے دی۔ پورس کا بیٹا اس معرکے میں مارا گیا اور اس کی فوج کے کچھ سپاہیوں نے پورس کو سکندر کے دریا عبور کرنے اور بیٹے کے مرنے کی اطلاح دی ۔پورس یہ خبر سن کر اٹھ کھڑا ہوا ۔سکندر سے میدان جنگ میں ملاقات کا وقت آگیا تھا۔پورس کی فوج میں ہاتھی ‘تیر انداز‘اوررتھ شامل تھے ‘جو عام حالات میں کسی بھی فوج کی کمر توڑنے کے لیے کافی تھے لیکن اس روز قسمت پورس سے روٹھ گئی تھی۔ گزشتہ رات کی تیز بارش نے مٹی کو نرم کر کے کیچڑ میں بدل دیا تھا اس کیچڑ میں رتھ کا چلنا بہت مشکل ہو گیا۔ اسی طرح گراں ڈیل ہاتھیوں کے پائوں اپنے ہی وزن سے نرم مٹی میں دھنس رہے تھے۔ تیر انداز بھی بے بس لگ رہے تھے کیونکہ بڑی کمان پر گرفت میں ایک پائوں کا استعمال بھی ہوتا تھا مگرکیچڑ بھری زمیں میں پائوں پھسل پھسل جاتے تھے۔ لیکن پورس نے ڈٹ کر مقابلہ کیا‘وہ اس مزاحمت کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتا تھا۔
یہ جنگ تقریباًآٹھ گھنٹے تک جاری رہی‘ پورس اپنے ہاتھی پر بیٹھا اپنی تلوار کے کرشمے دکھا رہا تھا لیکن سکندر کے لشکر کی عددی برتری پورس کی فوج پر غالب آ رہی تھی۔ مئی کا مہینہ پنجاب کا انتہائی گرم مہینہ ہوتا ہے‘ پیاس کی شدت سے پورس کا حال برا تھا‘ نقاہت اس کے جسم پر غالب آ رہی تھی‘ اسی عالم میں وہ اپنے ہاتھی سے گر پڑا۔جب اسے گرفتار کر کے سکندر کے سامنے پیش کیا گیا تو اس کے چہرے پر خوف کی بجائے اعتماد تھا۔ اس نے اپنی جان بخشی کی درخواست نہیں کی۔ سکندر پورس کو میدانِ جنگ میں داد شجاعت دیتے ہوئے دیکھ چکا تھا ‘اس نے پورس کوسر سے پائوں تک دیکھا‘ اس کا جسم مٹی میں اٹا ہوا تھا اور جسم پر زخموں کے متعدد نشان تھے لیکن اس کی آنکھوں میں اعتماد کی چمک تھی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ۔ اس نے سکندر اعظم کو بتا دیا تھا کہ مزاحمت پر یقین رکھنے والے جان کی پروا نہیں کرتے ‘یہی وجہ ہے کہ جب سکندرنے اس سے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے تو پورس نے گڑگڑانے اور جان بخشی کی درخواست کرنے کی بجائے کہا ''جو سلوک بادشاہ بادشاہوںسے کرتے ہیں‘‘۔ سکندر نے اس کی شجاعت سے متاثرہو کہ اسے ایک بار پھر اس کی سلطنت کا حکمران بنا دیا۔
میں ِٹلہ مونگ پر آنکھیں بند کیے تاریخ کی بھول بھلیوںمیں نہ جانے کتنی دیر کھویا رہتا‘ لیکن بارش کے قطرے مجھے زمانہ ٔحال میں لے آئے۔ میں نے سر اٹھا کر سیاہ بادلوں کو دیکھا‘ آسمان سے ہلکی ہلکی بارش اتر رہی تھی‘ میں بھی آہستہ آہستہ بلندی سے نیچے اتر نے لگا۔میرے ہمراہی نے کہا: یہاں سے کچھ فاصلے پر سکندر کی یاد میں ایک عظیم الشان عمارت بنائی گئی ہے‘ میں نے پوچھا :کیا پورس کی کوئی یادگار بھی ہے؟ جس نے مزاحمت کا علم بلند کیا اور اپنی زمین کی حفاظت کے لئے سکندر کے لشکر سے ٹکرا گیا ۔جواب میں ایک بوجھل خاموشی تھی ۔میرے ہمراہی نے جیسے میرا سوال سنا ہی نہ ہو۔ بعض اوقات خاموشی میں بھی کتنے جواب چھپے ہوتے ہیں۔
اسلام آباد سے ایک سو پچاس کلو میٹر اور منڈی بہائوالدین سے چھ کلومیٹر دور ٹلہ مونگ میری منزل ہے۔ یہ محض قصبہ نہیں مزاحمت کا استعارہ ہے۔ٹیلے کے بلند ترین مقام پر نظر دوڑائیں ‘ دور دور کے منظر یہاںسے واضح نظر آتے ہیں۔