"SSC" (space) message & send to 7575

دُلاّبھٹی،ساندل بار کا جھومر

کہتے ہیںہر خاک کی ایک الگ تاثیر ہوتی ہے‘ جس کی مہک وہاں کے رہنے والوں کے خون میں شامل ہو کر ان کی رگوں میں دوڑتی ہے اور ان کے جسم وجاں کاحصہ بن جاتی ہے۔یہ ساندل بار کی کہانی ہے‘ جہاں پنڈی بھٹیاں میں بھٹی قبیلے نے اپنی بستی کی بنیاد رکھی تھی ۔ یہ آغاز تھا۔ راوی سے چناب کے درمیان پھیلے ہوئے اس علاقے میں بتیس گائوں تھے اوربجلی خان ساندل یہاں کا حکمران تھا۔بتیس گائوں کے مکینوں کے دلوں کی آواز‘ جس پر وہاں کے لوگ دل وجان سے یقین کرتے تھے۔ ساندل بار کے لوگ سادہ تھے۔ ان کی خوشیاں بھی ان کی زندگیوںکی طرح سادہ تھیں۔ کھیتوں میں محنت‘ چوپالوں میں گپ شپ اور گائوں کے میلے ٹھیلے۔ ساندل بار سے کئی کوس دور دہلی تھا جو مغلوں کے سب سے طاقت ور بادشاہ جلال الدین اکبر کا دارالحکومت تھا ۔جس کے لشکر کا دبدبہ دورونزدیک پھیلا ہوا تھا۔ بجلی خان ساندل ایک عام مسلمان تھا ‘نماز روزے کا پابند۔دہلی کی خبریں آتے جاتے قافلوں کی زبانی ملتی رہتیں۔ایک روز یہ اطلاع ساندل بار کی فضائوں تک پہنچی کہ اکبر بادشاہ نے ایک نئے دین کی بنیاد رکھی ہے‘ جس کو دین الٰہی کہتے ہیں۔ اس خبر نے ساندل بار کے مکینوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔بجلی خان ساندل اور اس کے پیروکاروں نے اکبر کے اس اقدام کی مزاحمت کا فیصلہ کر لیا۔ اس مزاحمت کے پس منظر میں اکبر بادشاہ کے لشکر کی دست درازیاںشامل تھیں۔ مغلوںکے کچھ لشکری ہری بھری فصلوں کی کمائی زبردستی لے جاتے اور غریب کسان بے بسی سے اپنی سال بھر کی کمائی کو اپنی آنکھوں کے سامنے لٹتا دیکھتے رہتے۔
بجلی خان ساندل نے اپنے ساتھیوں سے مل کر فیصلہ کیا کہ اب وہ کسی قیمت پر اپنی کمائی کو اکبر کے لشکریوں کی نذ ر نہیں ہونے دیں گے۔ اس نافرمانی کی خبر جب شاہی دربار میں پہنچی تو ساندل بار کے مکینوں کو نشا نِ عبرت بنانے کافیصلہ کیا گیا۔ بجلی خان ساندل کو گرفتار کر کے لاہور لایا گیا‘ جہاںاسے سرِعام پھانسی دی گئی۔ بجلی خان ساندل پھانسی کے پھندے پر جھول گیا‘ لیکن اس کے پائے استقامت میں لرزش نہ آئی۔ بجلی خان ساندل کے بعد قبیلے کی حکمرانی کی پگڑی اس کے بیٹے فرید خان کے سر پر باند ھ دی گئی ۔ فرید خان نے شجاعت کا جو سبق اپنے جرّی باپ سے سیکھا تھا ‘اس پر پورا عمل کیا۔ فرید خان نے ساندل بار کے جوانوں میں مزاحمت کے جذبے کی لو اور تیز کر دی۔ اس بار فرید خان کو ایسی سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا‘ جس کے بعد کوئی اور بادشاہ کی نافرمانی کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔نوجوان فرید خان کو گرفتار کر کے لاہور لے جایا گیا‘ جہاں اسے پھانسی دے دی گئی۔ فرید خان کی موت کے بعد اس کے گھر لڑکا پیدا ہوا جس کا نام عبداللہ رکھا گیا اور جسے دنیا دُلاّ بھٹی کے نام سے جانتی ہے۔ فرید خان کی بیوہ اوردُلاّبھٹی کی ماںلدھی کے گھر جنم لینے والے اس بچے نے اکبر کی سلطنت سے ٹکرانا تھا اور اپنے والد فرید خان اور دادا بجلی خان ساندل کی موت کا بدلہ لینا تھا۔ نومولود دُلاّ بھٹی کو گُھٹیّ دینے کا مرحلہ آیا تو سان چڑھی تلوارکے پانی سے اس کے ہونٹوں کو تر کیا گیا ۔کہتے ہیںگُھٹیّ کااثر انسان کی شخصیت پر پڑتاہے ‘سان چڑھی تلوار کا تیکھاپن دُلاّ بھٹی کے مزاج میں رچ بس گیا ۔ دُلاّ بھٹی جوان ہوا تو اس کی بہادری کے قصے دور ونزدیک پھیل گئے ۔ساندل بار میں کسی مغل قافلے کی نقل وحرکت دُلاّ بھٹی کی مرہونِ محنت تھی۔ یہ سارا علاقہ عملاً مغلیہ سلطنت کے تصرف سے باہر تھا‘ یہاں صرف دُلاّ بھٹی کا حکم چلتا تھا۔ ساندل بار کے کسانوں نے سکھ کا سانس لیا تھا۔ اب دُلاّ بھٹی شاہی لشکر سے تحفظ کے لیے ان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا تھا۔یوں ساندل کے کسانوں کے معاشی استحصال کا دروازہ بند کیا گیا ۔ یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی‘ لیکن ایک کام ابھی تشنہ تکمیل تھا ‘بجلی خان ساندل اور فرید خان کی موت کا بدلہ۔ لیکن یہ موقع بھی جلد ہی آگیا۔دُلاّبھٹی کو خبر ملی کہ ایک قافلہ سفر میں ہے‘ جس میں بکہ ملکیرابھی شامل ہے ‘جو اس کے باپ اور دادا کا قاتل تھا۔ دُلاّ بھٹی نے راستے میں قافلے کو روکا اور تصدیق کرنے کے بعد بکہ ملکیرا کا سر تن سے جدا کر دیا اور یہ سر میدا کھتر ی کو دے کر اکبر کے دربار میں بھجوا دیا ۔ یہ بادشاہ کے غصے کو براہِ راست آواز دینے کے مترادف تھا۔دُلاّ بھٹی کی سر کوبی کا وقت آپہنچا تھا ۔بادشاہ کے دربار سے مرزا نظام دین کی سربراہی میں لشکر پنڈی بھٹیاں کو روانہ ہوا۔ پنڈی بھٹیا ںپہنچ کر انہوں نے پورے گائوں کو گھیرے میں لے لیا‘ اتفاق سے دُلاّ بھٹی گائوں میں موجود نہیں تھا ‘وہ شکار کھیلنے اپنے ماموں رحمت کے ہاں گیا ہوا تھا۔ مرزا نظام نے پنڈی بھٹیاں میں خوب تباہی مچائی‘ بھٹی کی ماں لدھی اور اس کی بیویوں نوراںاور پھلراں کو بھی گرفتار کر لیا۔
مرزا نظام دین کا لشکر قیدیوں کو لے کر پنڈی لال خان پہنچا تو لال خان اور اس کے ساتھیوں نے مزاحمت کا فیصلہ کیا ۔اسی اثنا میںدُلاّبھٹی کا ساتھی روڑ جٹ ‘ جو اس سارے واقعے کا عینی شاہد تھا‘ نے دُلاّ بھٹی کو جا کر یہ خبر دی کہ مرزا خان نے پنڈی بھٹیا ںپر حملہ کیا ہے اور اس کے خاندان کی عورتوں کو لے کر لاہور کی طرف جا رہا ہے اور اس وقت پنڈی لال خان میں ہے۔ دُلاّ بھٹی کے لیے یہ خبر کسی تازیانے سے کم نہ تھی‘ بجلی خاں کا پوتا بجلی کی تیزی سے پنڈی لال خان کی طرف لپکا اور لال خان اور اس کے ساتھیوں سے مل کر مرزا نظام دین کی فوج پر ٹوٹ پڑا۔ یکلخت بدلتی صورت ِ حال دیکھ کر مرزا نظام نے دُلاّبھٹی کی ماں لدھی کے قدموں پر سر رکھ کر معافی کی درخواست کی جس پر لدھی نے اسے معاف کر دیا اوردُلاّبھٹی کو روک دیا۔ مرزا نظام دین نے بظاہر صلح کی درخواست کی تھی‘ لیکن اس کے اندر منافقت کی آگ سلگ رہی تھی۔ دُلاّ بھٹی جودُوبُدو جنگ میں کبھی نہ ہارا تھا ‘دوستی کے فریب میں آگیا اور گرفتار کر کے لاہور پہنچا دیا گیا جہاں اسے موت کی سزا دی گئی۔ یہی بہار کے دن تھے‘ مارچ کی 26 تاریخ 1599 ء کا سال جب دُلاّ بھٹی کو لاہور کے نو لکھا بازار کے قریب پھانسی دی گئی ۔دُلاّبھٹی کی نماز جنازہ اس وقت کے مشہور صوفی شاعر شاہ حسین نے ادا کی تھی۔
دُلاّبھٹی کو لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا مگر وہ پنجاب کے کھیتوں‘کھلیانوں‘چوپالوں میں اب بھی زندہ ہے۔ کتنے ہی ادیبوں‘شاعروں‘ڈرامہ نگاروں اور فلم سازوں نے اسے اپنے فن کا موضوع بنایا ہے۔ وہ جس نے اکبر کی اطاعت پر شجاعت کی موت کو ترجیح دی تھی ‘کہ یہی اس کے باپ فرید خان اور دادا بجلی خان ساندل کی روایت تھی‘ اب سوچیں تو یہ بات فسانہ لگتی ہے۔ کیسے ساندل بار کے ایک عام نوجوان نے جلال الدین اکبر کی حکومت کو پندرہ سال تک تگنی کا ناچ نچایا ‘جس کے علاقے ساندل بار میں مغل بادشا ہ کا نہیں‘ صرف اسی کا حکم چلتا تھا ۔بجلی خان ساندل کے پوتے اور فرید خان کے بیٹے کا ۔وہ جس نے ساندل بار کی مٹی سے جنم لیا تھا ۔کہتے ہیں ہر خاک کی ایک الگ تاثیر ہوتی ہے‘ جس کی مہک وہاںکے رہنے والوں کے خون میں شامل ہو کر ان کی رگوں میں دوڑتی ہے اور ان کے جسم وجاں کا حصہ بن جاتی ہے۔
کہتے ہیںہر خاک کی ایک الگ تاثیر ہوتی ہے‘ جس کی مہک وہاں کے رہنے والوں کے خون میں شامل ہو کر ان کی رگوں میں دوڑتی ہے اور ان کے جسم وجاں کاحصہ بن جاتی ہے۔ یہی بہار کے دن تھے‘ مارچ کی 26 تاریخ 1599 ء کا سال جب دُلاّ بھٹی کو لاہور کے نو لکھا بازار کے قریب پھانسی دی گئی ۔دُلاّبھٹی کی نماز جنازہ اس وقت کے مشہور صوفی شاعر شاہ حسین نے ادا کی تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں