تعلیمی حلقوں میں ہمیشہ کی طرح آج کل بھی ایک ہی موضوع زیربحث ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں کیسے معیاری بہتری لائی جائے؟ اس سلسلے میں سیمینار اورکانفرنسز میں مختلف تجاویز زیرغور آتی ہیں۔ تعلیمی معیار میں بہتری کی بحث میں نصاب میں تبدیلی کو شرطِ اول قراردیا جاتا ہے۔مختلف سطح پرپڑھائے جانے والے نصابوں پر سب سے کڑی تنقید یہ کی جاتی ہے کہ یہ فرسودہ موجودہ زمانے کے تقاضوں سے غیر متعلق اور ایک خاص وقت میںجامد ہو کر رہ گئے ہیں ۔یہ تنقید عام لوگوں کی طرف سے نہیں‘ بلکہ اساتذہ‘محققین اور پالیسی ساز افراد کی طرف سے ہوتی ہے۔اس سے پیشتر کہ ہم نصاب پر ہونے والی اس تنقید کی حقیقت اور صحت پر بات کریں‘ بہتر ہو گا کہ تعلیمی نصاب کی اصطلاح کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
نصاب کا انگریزی میںمترادف ((Curriculum ہے‘ جس کا لغوی معنی گھڑ دوڑ کا متعین کردہ راستہ(Race course) ہے‘کیونکہRace course کی طرح نصاب‘ تعلیمی ادارے میںتعلیمی سرگرمیوں کے سکوپ کا تعین کرتا ہے۔یوں نصاب موضوعات اور سرگرمیوں کا مجموعہ ہوتا ہے‘ جسے متعین کردہ وقت میں مکمل کرنا ہوتا ہے۔ریس کورس کا استعارہ وقت کے ساتھ ساتھ Straight Jacket کے استعارے میں بدل گیا ہے۔اساتذہ اس کی گرفت تو محسوس کرتے ہیں‘لیکن اساتذہ کی اکثریت اس سے واقف نہیں ہوتی اور یہ دستاویز کسی الماری یا شیلف میں پڑی رہ جاتی ہے۔اساتذہ کا براہِ راست رابطہ تدریسی کتابوں سے پڑتا ہے۔ یوں نصاب سے ان کی مراددرسی کتب ہوتی ہیں۔اکثر اساتذہ یہ شکایت کرتے پائے جاتے ہیں کہ نصاب ان پر تھوپا جاتا ہے‘ لہٰذا انہیں من و عن ان پر عمل کرنا ہوتا ہے‘ یوں وہ ذہنی طور پر اس خیال کے اسیر ہو جاتے ہیں کہ وہ نصاب کے غلام ہیںیوـں وہ کلاس روم میں اپنے طور پر کچھ نئی چیزیں کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ نصاب کا یہ فرسودہ تصور ہے‘جس میں نصاب محض ایک جامد دستاویز کے روپ میں سامنے آتا ہے۔یوں یہ ایک پیچیدہ عمل کو غیر معمولی طور پر ایک سادہ تصور کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔نصاب کا یہ گمراہ کن تصور ہر نئی حکومت میں نیا تعلیمی نصاب بنانے کی خواہش بیدار کرتا ہے۔یوں انتہائی عجلت میںکچھ لوگوں کو اکٹھا کر کے نصاب کی ایک نئی دستاویز تیار کی جاتی ہے‘لیکن اس ساری مشق میں نصاب پر عمل درآمد کے حصے کو نظرانداز کر دیا جا تا ہے ‘یوں اساتذہ کو تربیت کے عمل سے گزارے‘ بغیر ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ نئے وضع کردہ نصاب کے مقاصد حاصل کریں۔
نصاب کے حرکی (Dynamic) پہلو کو سامنے لانے کے لیے ہمیں نصاب کی ازسرِنو تعریف کرنا پڑے گی۔ کینڈین ماہرین تعلیمConnelly اور Clandinin کے مطابق؛ تعلیمی نصاب کے مختلف اجزائے ترکیبی ہیں‘جن میں اساتذہ ‘ طلبا‘ درسی مواد‘ سکول کا ماحول‘اور امتحانی نظام شامل ہیں۔ نصاب دراصل ان اجزا کے آپس میںInteraction کا نام ہے۔ نصاب کا جدید تصور جامد نہیں‘ بلکہ ایک زندہ اور متحرک تصور ہے‘ جو ہر روز جنم لیتا ہے ۔یہ تصور اپنے اندرنصاب کے واضع اور خفی پہلوئوں کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔نصاب کے اس جدید تصور کے مطابق استاد کا کیمپس پرہر فعل اور عمل نصاب بن جاتا ہے ‘یوں استاد مجبورِ محض نہیں ‘بلکہ نصاب کا مرکزی کردار ہے۔ اس تصور کی وضاحت کے لیے ہمیں Hidden Curriculum کی اصطلاح کو سمجھنا ہو گا۔ بہت سی چیزیں‘رویے یا اقدار نصاب کی دستاویز کا حصہ نہیں ہوتیں ‘لیکن غیر محسوس طریقے سے طلبا کے ذہنوں میںمنتقل ہو جاتی ہیں۔مثال کے طور پر نصاب میں؛ اگراستاد Punctuality کے بارے میں لیکچر دیتا ہے‘ اس کے فوائدبتاتا ہے‘ لیکن وہ خود کلاس میں دیر سے آتا ہے تو طلباکے ذہن میں استاد کا عمل زیادہ اہم ہو گا۔ یوں استاد کا عمل نصاب میں تحریر شدہ مقاصد سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔
اب ہم نصاب کے اس پہلو پر نظر ڈالتے ہیں‘ جس کے بارے میں اکثر اساتذہ اپنے مجبورِ محض ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔ نصاب کے جدید تصور میں استاد کا کردار مرکزی ہے۔ اس کا ہر فعل اور عمل نصاب بن جاتا ہے ۔ایک اچھا استاد دیے گئے نصاب کو وسعت بھی دے سکتا ہے اور عام زندگی اور طلبا کی ذاتی زندگیوں سے مثالیں دے کر تعلیمی عمل کو موثر بھی بنا سکتا ہے۔یوں استاد ایک Catalyst کی طرح طلبا‘ درسی مواد‘ ا متحانی نظام اور سکول کے ماحول میںInteraction کو با معنی بنا سکتا ہے۔
اگر‘ ہم تعلیم میں نصاب کے ذریعے تبدیلی لانے کے متمنی ہیں‘ تو ہمیں نصاب کے پرانے تصور سے چھٹکاراپانا ہو گا‘ جس میںنصاب ایک سرد اور پر اسرار دستاویز کے طور پر کسی الماری یا شیلف میں پڑی رہتی ہے ۔ نصاب کا جدید تصور ایک زندہ اور حرکی تصور ہے‘ جس میں طلبا‘ اساتذہ‘ درسی مواد‘ امتحانی نظام اور سکول کا ماحول اہم کردار ادا کرتے ہیں اور جس میں استادمجبورِ محض نہیں ‘بلکہ تعلیمی نظام میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر حکومت نئے نصاب کی دستاویز بنانے میں دلچسپی رکھتی ہے تو اساتذہ کی تربیت کے بغیر یہ ایک کاغذی کارروائی ہو گی‘ کیونکہ نصاب سازی سے زیادہ نصاب کا نفاذ اہم ہے اور وہ تربیت یافتہ اساتذہ کے بغیر نا ممکن ہے۔
آئیے اب ہم نصاب کو ایک مختلف حوالے سے دیکھتے ہیں‘ نصاب کے بنانے اوراس کے نفاذتک بہت سے درجے ہیں‘ پہلا درجہ نصاب کی تیاری ہے ‘اس میں پالیسی ساز افراد کا عمل دخل ہوتا ہے۔ اس کا دوسرا درجہ نصاب کی دستاویزات کی روشنی میں درسی کتاب کی تیاری ہے۔ تیسرے درجے میں اساتذہ کا ان درسی کتب کافہم ہے۔چوتھا درجہ اساتذہ کی تدریس ہے اور پانچواں درجہ امتحانی عمل ہے ۔یوں مجوزہ نصاب میں کلاس روم اور پھر امتحانی نظام تک پہنچتے پہنچتے کئی تبدیلیاں آجاتی ہیں۔ یوں مجوزہ نصاب کے درجوں میں استاد اپنا اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔استاد ‘طلبا‘ درسی مواد اور سکول کے ماحول میں ایک مرکزی مقام رکھتا ہے اور ایک Catalyst کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
یوں تو پاکستان میں تربیت اساتذہ کے بہت سے ادارے ہیں‘ لیکن ان کا نصاب برسوں پرانا ہے۔ اب اساتذہ کو کچھ Methods کی تعلیم دے کر یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ تربیت کا کام مکمل ہو گیا۔سرکاری سطح پر تربیت اساتذہ کے پروگراموں میں محض گنتی پر زور دیا جاتا ہے۔ ہر پراجیکٹ کے بعد یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اس پراجیکٹ کے نتیجے میں سینکڑوں اور ہزاروں اساتذہ کو تربیت دے دی گئی‘ لیکن یہ محض اعداد کی شعبدہ بازی ہے۔ اگر ہمیں تربیت اساتذہ کے پروگراموں کو موثر بنانا ہے تو ان کو نئی بنیادوں پر استوار کرنا ہو گا۔ تربیت اساتذہ کے پروگراموں میں ایسے اساتذہ کی تین سطح پر تبدیلی کو یقینی بنانا ہو گا۔ مضمون کے حوالے سے معلومات‘طریقۂ تدریس اور رویے کی تبدیلی ۔جب تک اساتذہ کے ذہنوں اور رویوں میں تبدیلی نہیں آتی انہیں محض کچھ تدریسی سرگرمیوں سے آشنا کرنے سے کلاس روم میں تبدیلی کا تصور نا ممکن ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے تمام صوبائی دارالحکومتوں میں State of the Art ٹیچر ایجوکیشن کے ادارے کھولے جائیں‘ جہاں اساتذہ کو جدید ترین ٹیکنالوجی سے روشناس کرایا جائے‘ انہیں موثر مائیکرو ٹیچنگ کے عمل سے گزارا جائے‘ ان میں Critical Thinking Skills پیدا کی جائیں‘انہیںReflective Practice سے آشنا کیا جائے ۔آنے والی صدی میں Critical Thinking Reflection اور ٹیکنالوجی کا استعمال چند اہم skillsہیں۔ جدید تربیت سے لیس یہ اساتذہ جب کلاس رومز میں جائیںگے تو وہ Reflective Practice کے طور پر اپنا کام کریں گے اور انہیں اساتذہ کے کلاس رومز میں وہ طلبا تیار ہوںگے جو Reflectionاور Creation کا امتزاج ہوں گے۔ یہی وہ طلبا ہیں ‘جو جدید نصاب کا حاصل ہوں گے۔