وہ مانچسٹر یونیورسٹی میں میرا آخری مہینہ تھا۔ان دنوں میں یونیورسٹی آف مانچسٹر سے ایم اے کر رہا تھا‘ میرا کورس ورک ختم ہو چکا تھا اور تھیسس بھی تقریباً مکمل ہو چکا تھا۔اس روز مجھے تھوڑی دیر کیلئے یونیورسٹی جانا تھا۔لائبریری میں کچھ کتابوںکے ریفرنسز دیکھنے تھے۔لائبریری میںدو تین گھنٹے گزارنے کے بعد باہر نکلا تو مانچسٹر کا آسمان ہمیشہ کی طرح ابر آلود تھا۔ سوچا راج سے ملتا چلوں۔ راج ‘یونیورسٹی آف مانچسٹر میں سوشیالوجی کا پروفیسر تھا اور مجھ سے عمر میں کچھ سال ہی بڑا تھا۔ اس کا تعلق سائوتھ انڈیا سے تھا‘ لیکن اب اس نے مانچسٹر کو ہی اپنا مستقل گھر بنا لیا تھا۔ مانچسٹر میں‘ اگر میری ملاقات راج سے نہ ہوتی تو یہاں ایک سال گزارنا میرے لئے بہت مشکل ہوتا۔ہم اکثرلمبی واک کرتے اور سوشل تھیوری کے مختلف موضوعات پر گھنٹوں گفتگو کرتے۔راج میرے لیے سراپا انسپیریشن تھا۔ میرے قدم اس کے دفتر کے لیے اٹھنے ہی لگے تھے کہ مجھ یاد آیا کہ راج نے ایک مہینے کیلئے بھوٹان جانا تھا ۔ میں بوجھل قدموں سے اپنے ہوسٹل کی طرف چل پڑا۔ ہمیشہ کی طرح اچانک ہلکی بارش شروع ہو گئی۔
ہاسٹل پہنچ کرمیں نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا‘ بیگ میز پر رکھا اور سوچا کہ کچن سے ایک کپ کافی بنا کر لے آئوں۔ کچن میرے کمرے سے زیادہ فاصلے پر نہ تھا۔ میں کچن کے دروازے میں داخل ہونے لگا کہ ٹھٹھک کر رک گیا۔کچن سے ایک پرانے گیت کی آواز آرہی تھی:؎
تم مجھے بھول بھی جائو تو یہ حق ہے تم کو
میری بات اور ہے میں نے تو محبت کی ہے
ساحر ؔکے اس گیت کو میں نے کتنی ہی بار سنا تھا۔میں کچن میں داخل ہوا تو دیکھا ایک لمبی چٹیا والی لڑکی اپنے لیے کافی بنا رہی تھی اور ساتھ ہی لہک لہک کر گا رہی تھی ۔دروازہ کھلنے کے شور سے اس نے پلٹ کر مجھے دیکھا میں نے کہا: بہت اچھا گیت ہے ۔ وہ ہنس کر بولی آپ نے گیت کی تعریف کی ‘میری گائیکی کی نہیں۔ میں نے کہا: آپ بہت اچھا گاتی ہیں‘ اس پر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی‘ یہ تو زبردستی کی تعریف ہے۔ دراصل یونیورسٹی میں میرے ایک پروفیسر تھے‘ انہیں یہ گیت بہت پسند تھا وہ کہا کرتے تھے کہ کیسے سماجی نا ہمواریوں کا سنجیدہ پیغام گیتوں میں بھی سمویا جا سکتا ہے ‘ مثلاً:اس گیت کی یہ سطریں : ؎
زندگی صرف محبت نہیں کچھ اور بھی ہے
زلف و رخسار کی جنت نہیں کچھ بعد بھی ہے
بھوک اور پیاس کی ماری ہوئی اس دنیا میں
عشق ہی ایک حقیقت نہیں کچھ اور بھی ہے
میں سوچ رہا تھا کیسے ایک استاد‘ ایک اتالیق‘ اور ایک گُرو دوسروں کے ذہنوں کو متاثر کرتا ہے۔ کس طرح کلاس روم میں کہا گیا ایک جملہ طلبا کے ذہنوں میں چنگاری کو چراغاں میں بدل سکتا ہے۔میں اسے غور سے دیکھ رہا تھا ‘اپنے پروفیسر کے ذکر سے اس کے چہرے پر عقیدت کا رنگ نظر آ رہا تھا‘ پھر وہ کافی کا کپ لے کر وہیں میز پر بیٹھ گئی اور میں اپنی کافی تیار کرنے لگا۔اسے میں نے اس ہاسٹل میں پہلی بار دیکھا تھا وہ کون تھی؟ کہاں سے آئی تھی؟ شاید اس نے میری آنکھوں میں سوال پڑھ لیے تھے۔ اس نے کافی کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا: میرا نام ثانیہ ہے اور میں سائوتھ افریقہ میں رہتی ہوں‘ وہیں ایک یونیورسٹی میںپڑھاتی ہوں۔میں نے اسے اپنے بارے میں بتایا اور کہا کہ جو گیت آپ گنگنا رہی تھیں‘ اس کے ساتھ اور بھی کہانیاں وابستہ ہیں۔ میری بات سن کر وہ چونک پڑی۔ وہ کیسے ؟میں نے کہا: یہ گیت ساحرؔ لدھیانوی نے فلم ''دیدی‘‘ کے لئے لکھا تھا‘ اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس کی موسیقی سدھا ملہوترا نے دی تھی اور اسی نے گایا بھی تھا۔ سدھا ملہوترا ایک خوشحال گھرانے کی خوب صورت لڑکی تھی‘ جسے موسیقی کا شوق فلمی دنیا میں لے آیا تھا۔ساحرؔ لدھیانوی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ان دنوں فلمی دنیا میں ساحرؔ کا طوطی بول رہا تھا۔ساحرؔ نے اپنے بہترین گیت سدھا سے گوائے اور وہ باتیں جو وہ سدھا کو براہِ راست نہیں کہ سکتا تھا‘ وہ گیتوں کے ذریعے اس تک پہنچاتا تھا۔ ثانیہ نے ہنستے ہوئے کہا :اوہ !اب ‘تو میں اس گیت کو پھر سے سنوں گی ۔ساحرؔ اور سدھا کے حوالے سیـ۔ـ ثانیہ نے کھڑکی سے باہر دیکھا‘ ہلکی ہلکی بارش لگاتا ر جاری تھی۔وہ بولی: سب کچھ بدل گیا‘ مگر مانچسٹر کا موسم نہیں بدلا ۔ میں پانچ سال یہاں رہی‘ جب میں یونیورسٹی آف مانچسٹر سے پی ایچ ڈی کر رہی تھی۔ میں ہر روز موسم کو کو ستی تھی۔ جس روز میری پی ایچ ڈی مکمل ہوئی میںنے سائوتھ افریقہ جانے کا ارادہ کر لیا‘ جہاں جہانزبرگ میں میری خالہ رہتی تھیں۔ مجھے یاد ہے جب میں اپنے سپروائزرسے آخری ملاقات کے لیے اس کے آفس گئی تو وہ ہمیشہ کی طرح اپنی کرسی پر بیٹھ کر کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے کتاب بند کر دی‘ میں ان کے کہے بغیر کرسی پر بیٹھ گئی اور بغیر کسی تمہید کے بولی: سرمیں دو دن بعد سائوتھ افریقہ جارہی ہوں‘ آج آپ کا شکریہ ادا کرنے آئی تھی۔ آپ کی کلاس میں ‘میں زندگی کے مختلف پہلوئوں سے آشنا ہوئی۔ آپ کی گفتگو‘ کتابوںکی باتیں‘آپ کی موسیقی سے محبت ‘ یہ سب کچھ اب میری زندگی کا حصہ رہے گا۔میں نے کہا :آج کے بعد پتا نہیں آپ سے کب ملاقات ہو۔ اب میں عملی زندگی میں قدم رکھنے جا رہی ہوں ‘مجھے کچھ نصیحت کریں۔پروفیسر مسکرا دیے اور بولے؛ اوہ‘ ہم مشرقی لوگ! نصیحتوں کے سائے میں زندگی گزارنے والے‘ پھر وہ ہنستے ہوئے کہنے لگے: دیکھو کبھی اپنا تعارف ڈاکٹر ثانیہ کہہ کر نہیں کرانا۔ پتا نہیں کیوں ہندوستان اور پاکستان میں پی ایچ ڈی حضرات اپنا نام بتاتے وقت ڈاکٹر کہنا نہیں بھولتے‘پھر وہ سنجیدہ ہو گئے اور کھڑکی کے پاس کھڑے ہو کر باہربرستی بارش کا شور سننے لگے ۔ثانیہ ہماری زندگی میں پی ایچ ڈی کرنے والے لوگوں کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے‘ ایک گروہ ان لوگوں کا ہے‘ جن کا واحد مقصد اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگانا ہوتا ہے یا نوکری میں کچھ مالی اضافہ مقصود ہوتا ہے۔ ان کا نفسیاتی مسئلہ لفظ ڈاکٹر کے استعمال سے ایک سماجی برتری کے احساس کا حصول ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں‘ڈگری جن کی شخصیت کو Justify کرنے کیلئے ہوتی ہے اور اس ٹیگ کے بغیر ان کی شخصیت کا بُت دھڑام سے گر جاتا ہے۔دوسر ا گروہ ان لوگوں کا ہوتا ہے‘ جن کی شخصیت اور قول وفعل ڈگری کو Justify کرتے ہیں۔جن سے مل ‘کر جن سے گفتگو کے دوران آپ علم ‘دانائی‘اور حکمت کے رنگوں میںبھیگ جاتے ہیں۔ایسے لوگوں کو ڈاکٹر کے ٹیگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ میری خواہش ہو گی کہ ثانیہ کا شمار دوسرے گروہ میں ہو‘ جس کی علم کی تلاش کبھی ماندنہ پڑے ‘جس کی گفتگو ‘جس کی شخصیت اپنا آپ خودمنوائے ‘جس سے مل کر دوسروں کو آگے بڑھنے کا جذبہ ملے ۔ میں پروفیسر کی گفتگو غور سے سن رہی تھی‘ جو بارش کے شور سے مل کر اور سحر انگیز ہو گئی تھی ۔
ثانیہ مجھے اپنے پروفیسرسے آخری ملاقات کا احوال سنا رہی تھی اور میں ایک سحر زدہ شخص کی طرح اس کی گفتگو سن رہا تھا۔ اچانک میرے ذہن میں جیسے بجلی سی کو ند گئی۔ ثانیہ کیا تم پروفیسر راج کی بات کر رہی ہو؟ اب‘ اس کے چونکنے کی باری تھی ‘ ہاں‘ مگر تمہیں کیسے پتا چلا ؟ کیا تم پروفیسر راج کو جانتے ہو؟میں نے کہا :اس لیے کہ ایسی باتیں صرف وہی کرسکتا ہے ‘مانچسٹر میں اگر وہ نہ ہوتا تو شاید میرے لیے ایک سال گزارنا مشکل ہو جاتا۔ ثانیہ تم بہت خوش قسمت ہوکہ اس کی سٹوڈنٹ رہی ہو اور اس کے ساتھ تھیسس کیا ہے‘ وہ سچ مچ پارس ہے۔ ایک ایسا پتھر جس سے جو چیز چھو جائے ‘سونا بن جاتی ہے۔ثانیہ ! راج سچ مچ پارس تھا اور ہم دونوں بہت خوش قسمت ہیں کہ وہ ہماری زندگیوںکے کسی موڑ میں ہم سے چھُو گیا۔
اب‘ باہر بارش کا شور تیز ہو گیا تھا اور ہم آپس کی گفتگو نہیں سن پا رہے تھے۔ میں اور ثانیہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں صرف تشکر کی نمی دیکھ سکتے تھے۔