اس روز حبس کا عالم تھا۔ دِن ڈھل چکا تھا لیکن میں حسبِ معمول آفس میں بیٹھا تھا۔ میں نے کھڑکی سے پردہ ہٹا کر باہر دیکھا۔ سربلند درخت چپ چاپ کھڑے تھے۔ ہوا بند تھی اور پتوں میں ہلکی سی لرزش بھی نہیں تھی۔ گائوں میں جب اس طرح کا منظر ہوتا تو بڑے بوڑھے کہتے تھے: آج بارش ضرور ہو گی۔ اور پھر ایسا ہی ہوتا۔ اچانک گرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارش شروع ہو جاتی۔ میں انہیں خیالوں میں گم تھا کہ دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ مُڑ کر دیکھا تو یارِ عزیز رئوف کلاسرا تھا‘ ہمیشہ کی طرح مسکراتا ہوا۔ آتے ہی کہنے لگا: آج بارش ضرور ہو گی۔ میں ہنس پڑا‘ معلوم نہیں اس نے میرے دل کی بات کیسے جان لی تھی۔ رئوف کلاسرا سے ہر ملاقات میں کتابوں، فلموں، گیتوں کی باتیں ہوتی ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو نئی کتابوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔ فلموں کے بارے میں تو میں اسے اتھارٹی مانتا ہوں۔ اس روز شاعری پر بات چل نکلی تو وہ کہنے لگا: مجھے شعر یاد نہیں رہتے لیکن ظفر اقبال اور رفعت عباس کے کچھ اشعار آج بھی یاد ہیں۔ ظفر اقبال بلاشبہ موجودہ عہد کے اردو غزل کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ پھر اس نے رفعت عباس کا ایک شعر سنایا:
کیویں ساکوں یاد نہ رہسی اوندے گھر دا رستہ
ڈو تاں سارے جنگل آسن ترے تے سارے دریا
(ہمیں اس کے گھر کا رستہ کیسے یاد نہیں رہے گا راستے میں محض دو ہی تو جنگل آتے اور صرف تین دریا) یہ شعر سن کر میں چونک اٹھا۔ رئوف نے بتایا کہ رفعت سرائیکی زبان کا ایک اہم شاعر ہے۔ اس نے رفعت کے ایک شاعری مجموعے ''پڑچھیاں اُتے پُھل‘‘ کا ذکر کیا۔ کتابوں کے بارے میں میرا عالم یہ ہے کہ جب بھی کسی اچھی کتاب کے بارے میں سنوں یا پڑھوں تو پھر جب تک کتاب حاصل نہ کر لوں چین نہیں آتا۔ اس شعر کے بعد ہم نے اور بھی باتیں کی ہوں گی لیکن میرا ذہن اس شعر میں اٹک کر رہ گیا تھا۔ اگلے روز میں نے کہیں سے رفعت عباس کا نمبر لے کر فون کیا۔ پہلا تاثر ہی ایک خوبصورت‘ محبتوں میں شرابور شخص کا تھا۔ میری درخواست پر انہوں نے مجھے اپنی کتابیں بھجوائیں۔
جوں جوں میں کتابوں کا مطالعہ کرتا گیا رفعت عباس کی شخصیت تہہ در تہہ مجھ پر منکشف ہوتی گئی۔ ایک سچے تخلیق کار کی طرح رفعت عباس نت نئے تجربوں سے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا سامان مہیا کرتا ہے۔ تخلیق کی یہ بے قراری اور ندرت رفعت کے ہاں درجۂ کمال پر نظر آتی ہے۔ ادب کی جتنی اصناف میں اس نے تجربے کیے یہ اسی کا حصہ ہے۔ اس کی پہلی کتاب''پڑچھیاں اُتے پُھل‘‘ )چٹائیوں پر پھول( اس کی غزلوں کا مجموعہ تھی‘ جو 1984 میں شائع ہوئی اور اپنی اشاعت کے ساتھ ہی سرائیکی ادب میں اپنی بھرپور موجودگی کا احساس دلایا۔ یہ شاعری میں ایک منفرد اسلوب تھا، نہ کہا ہوا نہ سنا ہوا۔ اس کے ٹھیک پانچ سال بعد اس کی نظموں کا مجموعہ آیا ''جھومری جُھم ٹُرے‘‘ یہ ناٹک کی نظمیں تھیں جن کا انداز جداگانہ تھا۔ تیسری کتاب ''بھوندی بھوئیں تے‘‘ ایک نئے ذائقے کی نظموں پر مشتمل تھی۔ پھر ایک اور چونکا دینے والی کتاب ''سنگت وید‘‘ نے رفعت کے شعور اور فن کے ایک اور گوشے سے روشناس کرایا۔ لیکن اس کی سیمابی طبیعت اپنے وسعتِ بیاں کے لیے نئے نئے افق تلاش کر رہی تھی۔ اگلی کتاب ''منتر‘‘ ایک نیا شعری تجربہ تھا۔ رفعت ایک کے بعد ایک شعری امکان کا در وا کر رہا تھا۔ اس کی اگلی کتاب ایک طویل نظم ''پروبھرے ہک شہر اچوں‘ (دور افتادہ شہر سے) پر مبنی تھی۔ اب رفعت کے فنی سفر میں ایک نیا موڑ آیا اور اس نے اوپر تلے کافیوں کی دو کتابیں ''مُکھ آدم دا‘‘ اور ''عشق اللہ سئیں جاگیا‘‘ شائع کیں۔ اس سے اگلی کتاب ''مابولی دا باغ‘‘ تھی۔ ایک بار پھر غزل کی دیوی اسے اپنی طرف بلانے لگی اور ہمیں اس کی خوب صورت غزلیں ''ایں نارنگی اندر‘‘ دیکھنے کا موقع ملا۔ اس کی تازہ ترین کتاب نئی طرز کی حکایات پر مبنی ہے اور اس کا نام ''کُنجیاں دا گُچھا‘‘ ہے۔ ایک روز خبر آئی کہ رفعت عباس نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ کلچر کی طرف سے پرائڈ آف پنجابی کا ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ اس ایوارڈ کے ہمراہ ایک خطیر رقم بھی دی جاتی ہے۔ رفعت عباس کا کہنا تھا کہ وہ سرائیکی زبان کا شاعر ہے اور سرائیکی کی پنجابی زبان سے الگ اپنی پہچان ہے۔ رفعت کے اس فیصلے کو سرائیکی زبان بولنے والے علاقوں میں خوب پذیرائی ملی۔
رفعت کے بارے میں اتنا کچھ جاننے کے بعد میرے اندر شدت سے خواہش بیدار ہوئی کہ شعری معجزوں کے مالک اس شاعر سے ملا جائے۔ اس کا بھی جلد انتظام ہو گیا۔ ایک کام کے سلسلے میں ملتان جانے کا اتفاق ہوا۔ میں بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کے گیسٹ روم میں ٹھہرا ہوا تھا۔ سوچا ملتان آیا ہوں تو رفعت عباس سے ملاقات ہونی چاہیے۔ میں نے رفعت کا نمبر ملایا تو پتہ چلا وہ بہاولپور میں ہے۔ مجھے تھوڑی سی مایوسی ہوئی لیکن اس نے بتایا کہ وہ شام تک ملتان پہنچ جائے گا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرا ہوں۔ شاید میں نے اسے کمرے کا نمبر بھی بتایا تھا۔ فون کے بعد میں کمرے میں بستر پر لیٹ کر پالو کوہلو کی کتاب By the River Piedra I Sat Down and Wept پڑھنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں کمرے کی کھڑکی پر بارش کی آواز آئی۔ میں نے پردہ ہٹایا تو باہر ہلکی بارش ہو رہی تھی۔ فون سننے کے بعد میں کھڑکی کے سامنے کھڑا ہو کر باہر کا منظر دیکھنے لگا۔ کہتے ہیں ملتان میں بارشیں کم ہوتی ہیں۔ ہاں غبار آلود آندھیاں ضرور چلتی ہیں لیکن آج ملتان بارش میں نہا رہا تھا اور میں کھڑکی سے ملتان کا اجلا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ اچانک دور مجھے ایک شخص گیسٹ ہائوس کی طرف آتا نظر آیا۔ وہ ہلکی ہلکی پھوار میں یوں چل رہا تھا جیسے اسے ارد گرد سے کوئی سروکار نہیں۔ اس کے ہاتھوں میں تازہ پھولوں کا گلدستہ تھا۔ کچھ ہی دیر میں میرے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو وہی شخص باہر کھڑا تھا۔ اس نے بارش کی پھوار میں مہکتے ہوئے پھول مجھے دیتے ہوئے کہا 'رفعت عباس‘۔ یہ رفعت عباس سے میری پہلی ملاقات تھی۔ اب بھی اس کا تصور کرتا ہوں تو پھول اور بارش اس تصور کا حصہ ہوتے ہیں۔ وہ ملتان کا ایک خوش رنگ دن تھا۔ ہم نہر کے کنارے ایک ریستوران کے کھلے لان میں جا بیٹھے اور رفعت عباس کے شعروں کے پھول یہاں وہاں کھلنے لگے۔ آئیں آپ بھی اس چمن کی سیر کریں۔ رفعت کی شاعری میں ایک قدیم سرائیکی سرزمین اور اس میں بسنے والے لوگوں سے وابستگی سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔ رفعت کی شاعری صرف حرف و صوت کی بازی گری نہیں بلکہ یہ اس کے ایمان کا حصہ ہے۔ رفعت کی شاعری کے کردار عام لوگ ہیں‘ جن کی زندگیاں طاقت کے مرکزوں سے دور بے رنگ حاشیوں میں گزرتی ہیں۔ رفعت کی شاعری انہیں لوگوں کے دکھ اور محرومیاں بیان کرتی ہے۔
پوری کھیڈ وچ ساڈا حصہ ایہو ہے بس رفعت
جیڑھے ویلے بادشاہ آوے بتیاں سِر تے چاؤں
(پورے ناٹک میں ہمارا حصہ بس اتنا ہے کہ جونہی بادشاہ آئے ہم مشعلیں سر پہ اُٹھائیں)
یہ ان لوگوں کے دکھوں کی شاعری ہے جن کی خوشیوں کے قافلے کہیں راستوں میںکھو گئے ہیں۔ اب وہ ہیں اور نادیدہ مسرتوں کا نہ ختم ہونے والا انتظار۔ رفعت کے ہاں اسی انتظار کی جھلک نظر آتی ہے۔
اساں تاں شادیاں والے کچاوے جھل تے بیٹھے ہوئے ہیں
کتھاں رہ گیا ہوسی رفعت اوہ الغوزے والا
(ہم نے اپنے شادیوں والے کجاوے روک رکھے ہیں وہ الغوزے والا کہاں رہ گیا)
مجھے یقین ہے ایک دن یہ طویل انتظار ختم ہو گا اور وہ سنہری دن طلوع ہو گا جس کی چاپ رفعت کی شاعری میں سنائی دے رہی ہے۔