زندگی کیا ہے؟ہم کہاں سے آتے ہیں؟ کہاں چلے جاتے ہیں؟ زندگی میں قسمت کا کیا کردار ہے؟ اتفاقات کی کیا اہمیت ہے؟ بعض اوقات ہماری زندگی کے اپنے تجربات ان سوالوں کا جواب فراہم کرتے ہیں۔ جب میں گورڈن کالج میں سجاد شیخ صاحب کی کلاس میں پڑھتا تھا تو یہ سمجھتا تھا کہ دنیا میں کوئی چیز ناممکن نہیں اور لفظ' قسمت‘ شکست خوردہ ذہنوں کی پیداوار ہے‘ لیکن آہستہ آہستہ عملی زندگی میں مجھے احساس ہونے لگا کہ محنت اور قابلیت کے ساتھ ہماری کامیابی میں ایک کردار قسمت کا ہوتاہے ۔پھر زندگی کے مشاہدے اور تجربے کی آنچ نے مثالی تصورات کے آئس برگ کو پگھلانا شروع کیا۔اس دوران میں ایم اے کی ڈگری کیلئے برٹش کونسل کے سکالر شپ پر مانچسٹر یونیورسٹی چلا گیا‘جہاں میری ملاقات یونیورسٹی آف مانچسٹر کے سوشیالوجی کے پروفیسر راج سے ہوئی ۔ اس کا تعلق سائوتھ انڈیا سے تھا۔ پی ایچ ڈی کیلئے یہاں آیا تھااور پھر یہیں کا ہو کر رہ گیا تھا ۔وہ اپنے طلبا میں بے حد مقبول تھا۔ میں جب بھی راج سے ملتا کچھ نئی باتیں سیکھنے کو ملتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اپنی زندگی میں جن چند شخصیات سے متاثر ہوا ‘ان میں راج سر فہرست ہے۔ اس کی باتوں میں دانائی کا رَس اور محبت کی حلاوت ہوتی ۔راج کا اپنا مضمون تو سوشیالوجی تھا‘لیکن ادب‘ فلاسفی‘ سائیکالوجی‘ اور سیاست پر اس کی دسترس حیرت انگیز تھی۔ حالات ِحاضرہ پر اس کی رائے معتبر اور دو ٹوک ہوتی۔ مجھے یاد ہے کہ کشمیر کے حوالے سے جب ہم پاکستانی طلبہ نے ایک سیمینار کرایا تو ہم نے راج کو بھی مدعو کیا ۔سیمینار میں راج نے کشمیر میں بھارت کی پالیسی پر کڑی تنقید کی اور مطالبہ کیاکہ دنیا کشمیر میں بھارت کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔
راج سے میری ملاقات بھی ایک اتفاق تھی میرے مانچسٹر میں ایک سال قیام میں مجھے راج کے گھر کئی بار جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ ایک چھوٹے سے گھر میں اکیلا رہتا تھا‘ جہاںہم دیر تک دنیا جہان کے موضوعات پر گفتگو کرتے رہتے ۔ایک روز میں اس کے گھر میں بیٹھا تھا‘ مانچسٹر کا موسم ہمیشہ کی طرح ابر آلود تھا۔ میں نے راج سے پوچھا: زندگی میں قسمت ‘ نصیب یا اتفاقات کا کیا کردار ہے؟ راج یہ سن کر کھڑا ہو گیا ‘چلتا ہوا کھڑکی کے پاس گیا جہاں باہر مانچسٹر حسب ِمعمول بارش میں نہا رہا تھا ۔ راج نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا کہ ایک میٹا فزیکل دنیا ہے‘ جس کی اپنی منطق ہوتی ہے‘ چونکہ یہ ہماری دنیا کی منطق سے مختلف ہوتی ہے اس لیے ہم اسے اتفاق کا نام دیتے ہیں۔میں غور سے راج کی گفتگو سن رہا تھا اور دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ میری راج سے ملاقات بھی تو ایک اتفاق تھی ۔تو کیا یہ بھی میٹا فزیکل دنیا کی کو ئی منطق تھی ؟ آنے والے ہفتے کو میں نے ہاسٹل میں رہنے والے پاکستانی دوست جہانگیر کے ہمراہ بلیک پول جانا تھا۔ جمعہ کی شام میں ہاسٹل پہنچا تو ریسیپشنسٹ نے بتایا کہ آپ کیلئے مسٹر راج کا پیغام ہے‘ ان کو فون کر لیں۔ میں نے راج کو فون کیا تو اس نے بتایا کہ ہفتہ کو اس کے ہاں ڈنر ہے‘ تم نے ضرور آناہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے فون بند کر دیا۔ میں راج کو ناراض نہیں کر سکتا تھا ‘لیکن دوسری طرف جہانگیر کے ساتھ جانے کا پروگرام تھا‘لیکن پھرمیری مشکل خود ہی آسان ہو گئی جب جہانگیر نے مجھے بتایا کہ اسے ویک اینڈ پر لندن جانا پڑ رہا ہے‘ اس لئے ہم بلیک پول نہیں جا سکیں گے ۔ اب میں اطمینان سے راج کے گھر جا سکتا تھا۔میں اس کے گھر کئی بار گیا تھا‘ بہت دفعہ دال چاول کا ڈنر بھی کیا تھا‘ لیکن میرے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ آج کی شام کتنی مختلف ہو گی ‘جس کو میں کبھی بھلا نہیں پائوں گا۔
ڈنر کا وقت ساڑھے سات بجے تھا ‘لیکن میں راج کے بلا نے پر وقت سے پہلے پہنچ گیا ۔ڈنر ٹیبل پر تین لوگوں کیلئے پلیٹیں لگی تھیں۔ میری آنکھوں میں سوال دیکھ کر راج نے بتایا یہ تیسری کرسی جمیلہ کیلئے ہے۔ راج نے بتایا کہ جمیلہ دہلی کے ایک کالج میں سوشیا لوجی کی استاد تھی اور برٹش کونسل کے سکالر شپ پر تین مہینے کیلئے مانچسٹر یونیورسٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں ٹریننگ کیلئے آئی ہوئی تھی اور اتوار کو ٹریننگ کے خاتمے کے بعد دہلی واپس جا رہی ہے۔راج نے کہا:آج میں نے اسے الوداعی ڈنر کیلئے بلایا ہے اس کا مضمون تو سو شیالوجی ہے لیکن انگریزی ادب سے اس کی گہری دلچسپی ہے اس لیے میں نے تمہیں بھی بلا لیا۔ابھی یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ راج نے دروازہ کھولا تو میںنے جمیلہ کو دیکھا۔ اس نے نیلے رنگ کا کرتا اور شلوار پہنی ہوئی تھی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے چھوٹے سے بیگ سے ایک کتاب نکا ل کر راج کو دیتے ہوئے کہا: یہ میری پسندیدہ کتاب ہے ‘شاید آپ کو پسند آئے۔ میں نے دیکھا تو وہ کیمیو (Camus) کا ناول The Outsider تھا ۔ راج نے شکریہ ادا کیااورجمیلہ سے میرا تعارف کرایا اور پھر مجھے بتانے لگا کہ جمیلہ انگریزی میں کہانیاں بھی لکھتی ہے۔ اس پر وہ ہنس کر بولی: زیا دہ تر کہانیاں شروع توکرتی ہوں لیکن مکمل نہیں کر پاتی۔میں نے غور سے دیکھا جب وہ ہنستی توا س کے گالوں میں بھنور پڑنے لگتے اور اس کی بڑی بڑی آنکھیں اس ہنسی میں شریک ہو جاتیں۔ راج نے کہا: امید ہے ٹریننگ آپ کیلئے مفیدثابت ہوئی ہو گی۔ جمیلہ نے کہا :سر اس ٹریننگ کا سب سے بڑہ فائدہ تو آپ سے ملاقات تھی۔ میں آپ کو ایک بات بتائوں میں آسانی سے لوگوں سے متاثر نہیں ہوتی لیکن آپ ان چند لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے مجھے واقعی انسپائر کیا ۔پھر وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی جہاں بارش لگاتار برس رہی تھی۔ کمرے میں تھوڑی دیر کیلئے خاموشی چھا گئی‘ جس میں صرف ہمارے کھانا کھانے کی آواز آ رہی تھی۔ پھر وہ بولی :سر راج! پتہ نہیں میں اتنی حساس کیوں ہوں۔ یوں لگتاہے میں اردگرد کے لوگوں کو اندر سے جھانک لیتی ہوں اور سچ پوچھیں تو مجھے ان کا اندر جان کر بہت مایوسی ہوتی ہے ۔ مجھے رات دیر تک نیند نہیں آتی ‘ اور جب نیند آتی ہے تو مجھے ایسے خواب آتے ہیں جن کی تعبیر اگلے کچھ دنوں میں مل جاتی ہے ۔سر راج مجھے یوں لگتا ہے مجھے سمجھنے والا کوئی نہیں۔ میرا خاوند ایک کامیاب تاجر ہے‘ لیکن میرے لئے اس کے پاس کوئی وقت نہیں۔ اس کے نزدیک پیسہ ہی سب کچھ ہے۔ وہ میرے سمیت ہر چیز کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتا ہے۔ زندگی کا حسن‘ زندگی کے رنگ‘ زندگی کے لطیف احساسات اس کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ مانچسٹر آ کر مجھے یوں لگا کہ میں آزادی سے سانس لے سکتی ہوں۔ میں آپ سے جب بھی ملی آپ نے ہمیشہ مجھے میری اہمیت کا احساس دلایا۔
جمیلہ راج کو مخاطب کر کے گفتگو کر رہی تھی اور مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں مانچسٹر کی ابر آلود شام کا اندھیرا سمٹ آیاہے۔ اس کے گالوں پر مسکراتے ہوئے بھنور پڑ رہے تھے۔ راج اس کی گفتگو غور سے سن رہا تھا۔ جب وہ خاموش ہوئی تو وہ اپنے شانت لہجے میںبولا :جمیلہ زندگی ایک بساط ہے اور ہم سب اس کے مہرے ہیں۔ کبھی قسمت ہمیں وزیر سے بادشاہ بنا دیتی ہے اور کبھی ملکہ سے پیادہ بنا دیتی ہے‘ لیکن اس سارے عمل میں میں ہماری قابلیت یا عدم قابلیت کا دخل نہیں ہوتا۔ ہاں ہم ایک کام کر سکتے ہیں محنت‘ دعا اور اپنے اندر کی آواز پریقین ‘ کہ زندگی کی بساط پر ایک دن ضرور ایسا آئے گا جب ناموافق حالات کو شہ مات ہو گی‘ جب بساط کی ترتیب ہمارے حق میں ہو گی۔وہی دن ہماری زندگی کا روشن ترین دن ہو گا۔میں نے دیکھا راج بول رہا تھا اور جمیلہ ایک محویت کے عالم میں اسے سُن رہی تھی اور اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں جگنو چمک رہے تھے۔