بعض اوقات ہمارے گردوپیش کی چیزیں ہماری آنکھوںسے اوجھل ہو جاتی ہیں لیکن وہ ہمارے دل کے نہاں خانوں میں زندہ رہتی ہیں۔ پھر کوئی ایک لمحہ، کوئی ایک ساعت ،کوئی ایک منظر انھیں جگمگا دیتا ہے اورہم تادیر اس اجالے کے سحر میں گرفتار رہتے ہیں۔ راولپنڈی کی مال روڈ سے میری شناسائی ان دنوںسے ہے جب میں پرائمری سکول میں پڑھتا تھا۔ میرا سکول لال کرتی میں تھا جہاں سے مال روڈ زیادہ دور نہیںتھی۔ میں اکثرسوچتا‘ مال روڈ کو مال روڈ کیوں کہتے ہیں؟ ایک روز ہمارے سکول کے ماسٹر مجید صاحب نے ہمیں بتایا کہ مال روڈ انگریزوں کے زمانے میں وجود میں آئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ لاہور اور مری میں بھی مال روڈز ہیں۔ دراصل مال روڈ سیر کے لیے ایک راستہ تھا جس کے ارد گرد دکانیں اور ریستوران ہوتے تھے۔
راولپنڈی کی مال روڈ کا آغاز ایک بہت بڑی اور پرشکوہ عمارت سے ہوتا تھا اسے لوگ'' شہزادہ کوٹھی‘‘ کے نام سے جانتے تھے۔ کہتے ہیں یہ باغ موہن سنگھ اور سوہن سنگھ کی ملکیت تھا۔ ایوب خان کے دورِ حکمرانی میں اسے سٹیٹ گیسٹ ہائوس کا درجہ دیا گیا۔ وزیراعظم بھٹو کے زمانے میں اسے ریزیڈنسی بنا دیا گیا جہاں صدر مملکت کی رہائش ہوتی تھی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں یہاں صدر فضل الٰہی مقیم رہے۔ صدر فضل الٰہی ایک مرنجاں مرنج شخصیت تھے۔ ان کی بے اختیاری اور بے بسی پر لوگوں نے طرح طرح کے لطیفے گھڑ رکھے تھے۔ ایک بار ہم نے دیکھا کہ ریزیڈنسی کی طویل چہاردیواری پر ''فضل الٰہی کو رہا کرو‘‘ کے نعرے درج تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں یہ پریزیڈنٹ سیکرٹریٹ تھا۔
بعد میں اس عمارت میں فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی قائم کر دی گئی۔ یہاں سے مال روڈ پر آگے بڑھیں تو دائیں ہاتھ فیروز سنز لیبارٹریز کی عمارت آتی تھی۔ اس سے متصل سر سید کالج کی عمارت تھی۔ ستّر کی دہائی میں مَیں سر سید کالج کا طالب علم بنا۔ اس کالج کی عمارت اتنی بڑی نہیں تھی لیکن وہاں سے فارغ التحصیل طلبا ملک بھر میں اہم عہدوں پر فائز ہیں اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔کالج گیٹ کے باہر ایک ریلنگ تھی جہاں بیٹھ کر ہم آنے جانے والوں کو دیکھا کرتے تھے۔ سرسید کالج سے متصل‘ سرسید گرلز سکول کی عمارت تھی۔ یہ سکول بھی اپنے معیار کی وجہ سے راولپنڈی کے بہترین سکولوں میں شمار ہوتا تھا۔ مال روڈ کے دوسری طرف سٹیٹ بینک کی عمارت تھی۔ اکثر ہم اس وسیع احاطے میں آتے جہاں چاٹ کی ایک ریڑھی تھی۔ وہاں سرخ لوبیے کی چاٹ ملتی تھی۔ اس ریڑھی والے کا چہرہ اب بھی میری نگاہوں میں روشن ہے۔ خوش باش اور مستعد جو سردیوں، گرمیوں آندھی، اور طوفان میں بھی اپنی جگہ پر موجود ہوتا۔ سٹیٹ بینک کی عمارت سفید رنگ کی تھی۔ کئی بار میں اس کے اندر بھی گیا کیونکہ یہاں انعام بھائی کے دوست پرویز کام کرتے تھے۔
سٹیٹ بینک سے آگے چلتے جائیں تو وہ جگہ آتی جہاں بائیں ہاتھ ایک سڑک لال کرتی بازار کو جاتی ہے۔ اس موڑ پر ٹیلی فون کے محکمے کی بڑی سی کوٹھی تھی‘ جہاں ہمارا دوست وقار ہوتا تھا‘ اس کے والد اس محکمے میں کسی اہم پوزیشن پر تھے۔ ہمارا اکثر یہاں آنا جانا رہتا تھا۔ اس کوٹھی کے سامنے سکواش کورٹس تھے جہاں ہمارا دوست فہیم گل رہتا تھا۔ اس کے والد سکواش کورٹس میں ٹرینر تھے اور انہیں وہیں ایک چھوٹا سا گھر ملا ہوا تھا۔ ہم اس گھر میں تقریباً ہر روز جمع ہوتے۔ بعد میں فہیم گل اور اس کا چھوٹا بھائی جمشید گل پاکستانی سکواش ٹیم کے کوچ بنے۔ انہیں دنوں ہمارے سامنے شالیمار ہوٹل کی تعمیر شروع ہوئی۔
سکواش کورٹس کی چہاردیواری سے جڑی ہوئی ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل کی دیوار تھی۔ بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے پرل کانٹی نینٹل کر دیا گیا اور اب یہPC کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہوٹل کی عمارت ختم ہونے پر دائیں ہاتھ ایک سڑک مڑتی تھی جو جی ایچ کیو کو جاتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سکیورٹی کی صورتحال اتنی ابتر نہیں ہوئی تھی‘ اس لیے جی ایچ کیو کی عمارت میں جانا ایک عام سی بات تھی۔ مال روڈ پر رہتے آگے جائیں تو بائیںہاتھ ہاکی سٹیڈیم کی عمارت نظر آتی تھی۔ یہاں ہم نے ہاکی کے کئی میچ دیکھے۔ اس زمانے میں سکولوں میں کھیلوں پر بہت توجہ دی جاتی تھی اور سکولوں کے درمیان ہاکی کا ٹورنامنٹ دیکھنے کے لیے لوگوں کی ایک تعداد آتی۔ ہاکی سٹیڈیم سے ذرا آگے پنڈی کلب کا گرائونڈ تھا جہاں کرکٹ میچ کھیلے جاتے تھے۔ اس زمانے میں اس گرائونڈ کو سٹیڈیم بنانے کے لیے سیڑھیوں کی جگہ لکڑی کے تختے رکھے جاتے اور چاروں طرف قناتیں لگا دی جاتیں۔ اس گرائونڈمیں شاید ہی کوئی ایسا میچ ہو جو میں نے نہ دیکھا ہو۔ پنڈی کلب سے آگے ملکہ وکٹوریہ کا بت تھا جو عہدِ برطانیہ کی نشانی تھا۔ پنڈی کلب سے ذرا آگے بائیں ہاتھ پاکستان پنڈی کرافٹ کی دکان تھی۔ انعام بھائی اکثر یہاں آتے۔ انہیںپنڈی کرافٹس سے خصوصی دلچسپی تھی۔ یہاں سے چیزیں خریدتے اور اپنے دوستوں اور جاننے والوں میں تقسیم کرکے خوش ہوتے۔ اس کے عقب میں پرانا آرٹلری میس ہوا کرتا تھا جو اپنے باربی کیو کی وجہ سے مشہور تھا۔ آج کل اس کا نام گیریژن آفیسرز میس ہے۔ مال روڈ پر دائیں ہاتھ سگنلز میس‘ اس سے آگے سینٹ پال چرچ کی سرخ رنگ کی عمارت بھی اس چرچ آف سکاٹ لینڈ کے تعاون سے 1908 میں تعمیر کی گئی۔
مال روڈ کے دائیں ہاتھ ہی راولپنڈی کا مشہور فلیش مین ہوٹل تھا۔ اس ہوٹل کی تاریخی اہمیت ہے یہ اس علاقے میں پہلا لگژری ہوٹل تھا۔ فلیش مین ہوٹل کی طرز پر فلیٹیز ہوٹل، سیسل ہوٹل اور ڈینز ہوٹل بھی تھے۔ فلیش ہوٹل کا مالک چارلس ٹامسن فلیش مین تھا۔ بعد میں اس کے مالکان اور منتظمین بدلتے رہے۔ آج کل یہ پاکستان ٹورازم (PTCD) کے زیرِ انتظام چل رہا ہے۔ یہاں ایوب خان اہم میٹنگز کرتے۔ بھٹو صاحب بھی اکثر یہیں پر قیام کرتے۔ کسی زمانے میں مسز ڈیوس ہوٹل اور فلیش مین ہوٹل راولپنڈی کی پہچان تھے۔ مسز ڈیوس ہوٹل کو بند ہوئے ایک عرصہ ہو گیا‘ پرانے دنوں کی یادگار فلیش مین ہوٹل البتہ اب بھی اس عہد کی نشانی ہے۔
مال روڈ کے دائیں ہاتھ سیروز سینما تھا جہاں اکثر ہم انگلش فلمیں دیکھتے تھے۔ یہیں میں نے Gone With the Wind فلم دیکھی‘ جس کا آخری منظر مجھے کبھی نہ بھولے گا۔ مال روڈ پر آگے ایک اور اہم جگہ وہ پٹرول پمپ تھا جہاں گولڑہ کے پیر آ کر بیٹھتے تھے۔ اسی لیے اس پٹرول پمپ کا نام پیروں والا پٹرول پمپ تھا۔ مال روڈ کے بائیں طرف لینز ڈائون گارڈن تھا‘اس کے ساتھ لینز ڈائون لائبریری تھی‘ وہیں پر برٹش کونسل کی لائبریری تھی‘ جس کے مہتمم یاور صاحب تھے۔ مال روڈ کے اس طرف دو اور سینما ہائوسز تھے‘ اوڈین اور پلازا‘ یہاں بھی زیادہ تر انگلش فلمیں چلتی تھیں‘ اور آگے جائیں تو بائیں ہاتھ ملٹری ہاسٹل کی عمارت آتی تھی‘ جہاں اب دل کے امراض کا جدید ہسپتال ہے۔
مال روڈ پر آگے جائیں تو جی پی او چوک آتا ہے جس کے بالکل سامنے دوائیوں کی مشہور دکان ڈبلیو ولسن کیمسٹ تھی۔ اس کی بیرونی دیواریں گائوں کے کچے مکانوں کی یاد دلاتی تھیں لیکن اندر سے یہ ایک جدید دکان تھی۔ مال روڈ کے بائیں ہاتھ سپریم کورٹ کی عمارت تھی۔ اس عمارت میں مجھے کچھ اہم کیسز سننے کا موقع ملا۔ اس میں ایک کیس نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی سے متعلق تھا۔ دوسرا کیس بھٹو صاحب کا تھا۔ یہاں مجھے اعجاز بٹالوی، اے کے بروہی اور دوسرے چوٹی کے وکیلوں کو سننے کا موقع ملا۔ مجھے یاد ہے‘ ایک بار بھٹو صاحب کی کیس کی سماعت تھی‘ سپریم کورٹ کا بڑا کمرہ کھچاکھچ بھرا ہو تھا۔ میں نے دیکھا‘ معروف جرنلسٹ وکٹوریہ شیفلڈ سیٹ نہ ملنے کی وجہ سے نیچے کارپیٹ پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ یہ چار دہائیاں پہلے کی مال روڈ تھی۔ اب سپریم کورٹ کی عمارت میں ایک پرائیویٹ یونیورسٹی ہے۔ میری بیٹی انعم اسی یونیورسٹی میں پڑھتی ہے۔ کل ڈرائیور کے چھٹی پر ہونے کی وجہ سے میں اسے خود یونیورسٹی چھوڑنے گیا تو ایک مدت بعد مال روڈ سے گزرتے ہوئے ماضی کے سارے منظر ایک ایک کرکے روشن ہو گئے۔ بعض اوقات ہمارے گردوپیش کی چیزیں ہماری آنکھوںسے اوجھل ہو جاتی ہیں لیکن وہ ہمارے دل کے نہاں خانوں میں زندہ رہتی ہیں۔ پھر کوئی ایک لمحہ، کوئی ایک ساعت، کوئی ایک منظر انہیں جگمگا دیتا ہے اور ہم تادیر اس اجالے کے سحر میں گرفتار رہتے ہیں۔