زندگی کے میلے یوں ہی رواں دواں رہتے ہیں‘ لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن یہ گرمئی بازار یوں ہی رہتی ہے۔ ہمارے گائوں میں مذہبی تہواروں کے علاوہ جس چیز کا ہمیں شدت سے انتظار ہوتا تھا‘ وہ گائوں کا میلہ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ٹیلی ویژن اور موبائل فون ہمارے زندگیوں کا حصہ نہیں بنے تھے۔ زندگی خاموش، کھوئی کھوئی سی لیکن بے حد خوب صورت ہوا کرتی تھی۔ ہمارے گائوں سے تین چار کلومیٹر دور ایک مختصر سا گائوں تھا۔ اس گائوں کی وجۂ شہرت یہاں کا میلہ تھا۔ اب میں آنکھیں بند کروں تو اس میلے کے کئی منظر آنکھوں میں روشن ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک منظر والد صاحب کے ساتھ میلے میں جانے کا ہے۔ جب وہ مجھے کندھوں پر بٹھا کر میلے کا آدھا راستہ طے کرتے اور پھر باقی آدھا راستہ میں گائوں کے بچوں کے ساتھ دوڑتے ہوئے طے کرتا۔ اس کچے راستے پر ایک جگہ پر پودوں کے ارد گرد لپٹی ہوئی زرد رنگ کی آکاس بیل ہوتی تھی۔ ہر بار میرے پوچھنے پر والد صاحب بتاتے کہ آکاس بیل کیا ہے اور کیسے یہ پودوں سے لپٹ کر ان کا رس چوستی ہے۔ بڑے ہو کر مجھے پتہ چلا کہ صرف بیلیں ہی نہیں بعض لوگوں کے گروہ اور ممالک بھی Parasites ہوتے ہیں۔
گائوں کے بچوں میں میرا کزن ضیا بھی ہوتا۔ جب ہم میلے کے قریب آ جاتے تو والد صاحب واپس چلے جاتے اس تاکید کے ساتھ مغرب کی اذان سے پہلے گھر واپس آنا ہے۔ انہیں خود میلوں ٹھیلوں میں کبھی دلچسپی نہ رہی تھی۔ صرف میری خاطر میرے ساتھ آتے۔ والد صاحب کے جانے کے بعد میں اور ضیا بھاگتے ہوئے میلے میں داخل ہوتے‘ جہاں راستے کے دونوں طرف کھانے پینے کی چیزیں ہوتیں۔ کہیں پکوڑے بن رہے ہوتے کہیں مٹھائی کی دکان پر رنگ برنگی مٹھائی ہوتی جس پر چاندی کے ورق ہوتے۔ گائوں میں مٹھائیوں میں جلیبی سب سے زیادہ پسند کی جاتی تھی۔ لوگ رنگ برنگ کپڑوں میں گھوم رہے ہوتے تھے۔ اکثر کے شانوں پر ایک چادر یا ایک بڑا رومال (جسے ہم پرنا کہتے تھے) ہوتا۔ سروں پر سرسوں کے تیل کی چمک ہوتی۔ اس زمانے میں میری عمر کے بچوں کی مائیں ہماری آنکھوں میں سرمہ ڈالنا نہ بھولتیں اور وہ بھی اس طرح کہ سرمے کی دُم آنکھوں سے کناروں سے باہر تک نظر آتی۔
میلے میں کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ کھلونوں کے سٹال بھی ہوتے۔ لڑکیوں اور عورتوں کے لیے چوڑیوں، مہندی اور میک اپ کا سامان ہوتا۔ میری توجہ کا مرکز رنگ برنگی کانچ کی گولیاں (جنھیں ہم بنٹے کہتے تھے) ہوتیں۔ میں میلے سے بنٹے ضرور خریدتا۔ پھر ہم بائی سکوپ والے کے پاس جاتے جو ہمیں طرح طرح کے منظر دکھاتا۔ جب ہم تھک جاتے تو نان اور پکوڑے لے کر کسی جگہ بیٹھ جاتے۔ کھانے کی ویسی لذت پھر نہیں ملی۔
یہ میلہ تین دن کا ہوتا تھا۔ دوسرے دن کی خاص بات کبڈی ہوتی تھی۔ اس میں مختلف دیہات سے ٹیمیں شریک ہوتیں‘ لیکن کبڈی آج کل کی اس کبڈی سے مختلف ہوتی جس کے میچ ہم ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہیں۔ مجھے یاد ہے ہمارے گائوں کا نوجوان اسلم جیسے سب الما کہتے تھے‘ کبڈی کا بہت اچھا کھلاڑی تھا۔ ہم بچے تماشائیوں کے ساتھ کھڑے ہوتے اور ڈھول کے شور میں یوں لگتا جیسے زندگی کی ساری کامیابیاں اور ناکامیاں کبڈی کے اس میدان سے وابستہ ہیں۔
میلے میں ہم بچوں کے لیے جادو کے تماشے ہوتے لیکن گائوں کے میلے میں یہ تماشے مختلف نوعیت کے ہوتے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک بار میلے میں دائرے میں کھڑا تھا۔ دائرے کے اندر ایک شخص دعویٰ کر رہا تھا کہ اس کے پاس ایک ایسا تعویز ہے جس کے ہوتے ہوئے کوئی بلا آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اس کے لہجے میں ایک یقین ہوتا تھا۔ اس کی سختی سے یہ ہدایت ہوتی کہ ہم اپنا دائیاں پائوں ہلائیں گے نہیں۔ بہت سے سادہ لوح دیہاتی اس کی چرب زبانی کا شکار ہو جاتے‘ لیکن ان دنوں میں بھی اس کو سچ جانتا تھا۔ میلے کا ایک اور حصہ نیزہ بازی تھا۔ اس کا اہتمام گائوں کی کچی سڑک پر ہوتا تھا۔ گھڑ سوار دور سے گھوڑا دوڑاتے ہوئے آتا۔ اس کے بائیں ہاتھ میں گھوڑے کی لگامیں ہوتیں اور دائیں ہاتھ میں نیزہ۔ اسی تیز رفتاری سے گھوڑا دوڑاتے ہوئے سوار کو زمین میں گڑے ہوئے لکڑی کے کِلے کو نیزے سے اکھاڑنا ہوتا تھا۔ میلے میں ہمیں بیلوں کی دوڑ کا بھی انتظار ہوتا۔ اس دوڑ میں بہت خوبصورت اور تنو مند بیل شریک ہوتے۔ بیلوں کے شوقین ان کی پرورش بڑے لاڈ اور چائو سے کرتے تھے۔ ان کے لیے خاص خوراک کا اہتمام کیا جاتا۔ اس موقع پر بعض اوقات لڑائی بھی ہو جاتی۔ اس موقع پر مختلف دیہات کے بڑے بزرگ معاملہ رفع دفع کراتے۔
پھر ایک دن ہم گائوں سے شہر آ گئے۔ گائوں میں جہاں مجھے اپنے دوستوں کو چھوڑنے کا افسوس تھا‘ وہیں گائوں کے میلے کو چھوڑنے کا غم بھی تھا۔ شہر میں ہم مریڑ حسن میں ایک کرائے کے مکان میں رہنے لگے۔ مجھے پہلی جماعت میں داخل کروایا گیا۔ گھر سے سکول کا راستہ پانچ منٹ کا تھا۔ مجھے یاد ہے‘ ہمارے سکول کے بالکل قریب اردو کے معروف مزاح نگار شوکت تھانوی رہتے تھے۔ میں ابھی گائوں کے فراق میں مبتلا تھا کہ انعام بھائی نے بتایا کہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں بھی ایک میلہ ہوتا ہے‘ میں تمھیں وہاں لے جائوں گا۔ اس زمانے کا لیاقت باغ آج سے بالکل مختلف تھا۔ یہ ایک طرح کی جلسہ گاہ بھی تھی‘ لاریوں کا اڈا بھی تھا اور یہیں پر سال کے سال ایک بڑا میلہ ہوا کرتا تھا۔ یہ میلہ گائوں کے میلے سے بہت بڑا تھا۔ یہاں پہلی بار میں نے موت کا کنواں اور اس میں موٹر سائیکل سوار کو موٹر سائیکل چلاتے ہوئے دیکھا۔ وہ لکڑی کے تختوں سے تیار کردہ اس مصنوعی کنویں میں دائرے میں موٹر سائیکل چلاتے ہوئے جب آہستہ آہستہ اوپر کی طرف آتا تو لکڑی کے تختے ہلنے لگتے اور میں مضبوطی سے ریلنگ کو پکڑ لیتا۔ میلے کی ایک اور خاص بات ایک سرکس تھا جس پر لوگوں کا خاصا رش ہوتا۔ کہیں عجیب الخلقت بچھڑے کو دیکھنے کے لیے لوگ لائن میں لگے ہوتے‘ تو کہیں جل پری کا دیدار ہوتا جس میں ایک لڑکی کا دھڑ مچھلی کا ہوتا تھا۔
یہ میلہ دیکھتے دیکھتے میں بڑا ہو گیا۔ زندگی کے میلے میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ میں نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری شروع کر دی۔ اسی دوران میری شادی بھی ہو گئی اور پھر ایک روز ہم کراچی چلے گئے‘ جہاں ہم ملیر کینٹ میں رہنے لگے۔ ان دنوں میرا بیٹا صہیب بہت چھوٹا تھا۔ ایک روز میں یونیورسٹی سے گھر آیا تو کہنے لگا: پاپا ملیر کینٹ میں میلا لگا ہے‘ میں نے میلے پر جانا ہے۔ میں نے اس کی آنکھوں میں چمکتی روشنی دیکھ کر کہا: ہم ضرور میلہ دیکھنے چلیں گے۔ اس روز میں اور صہیب گاڑی میں بیٹھ کر اس میدان میں آ گئے جہاں میلہ لگا تھا۔ پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے میں نے صہیب کو اپنے کندھوں پر بٹھا لیا اور ہم میلے کی طرف چل پڑے۔ ہر طرف سٹال تھے کھلونوں اور کھانوں کے سٹال۔ اور پھر موت کا کنواں جہاں موٹر سائیکل کے بجائے ڈرائیور سوزوکی کار چلا رہا تھا۔ اس روز موسم بہت خوش گوار تھا سردیوں کی نرم دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ صہیب ایک جھولے کے بعد دوسرے جھولے کی سواری کر رہا تھا۔ میں ایک بینچ پر بیٹھ کر اسے خوش ہوتا دیکھ رہا تھا۔ مجھے وہ دن یاد آنے لگے جب میرے والد گائوں میں مجھے اپنے کندھوں پر بٹھا کر میلہ دکھانے لاتے۔ اس روز ہم دونوں نے خوب لطف اٹھایا۔ ملیر کینٹ میں گزارے اس خوش رنگ دن کو بیتے اب دو دہائیاں بیت چکی ہیں۔ صہیب ماشااللہ اب اپنی تعلیم مکمل کر کے پاکستان سے دُور ایک ملک میں ملازمت کر رہا ہے اور میں اسلام آباد میں اپنے گھر کے ٹیرس پر بیٹھے کبھی کبھی سوچتا ہوں‘ یہ زندگی بھی ایک میلہ ہے‘ جو جانے کب سے جاری ہے‘ جانے کب تک جاری رہے گا‘ بس اس کے تماشائی بدلتے رہتے ہیں‘ تماشائیوں کے کندھوں کی سواریاں بدلتی رہتی ہیں۔