یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں گورڈن کالج میں ایم اے انگلش کر رہا تھا۔ گورڈن کالج کے پچھلے گیٹ سے جب ہم کالج روڈ پر آتے تو ایک نئی دنیا ہمارا انتظار کر رہی ہوتی۔ یہاں پر زم زم ہوٹل، شبنم ہوٹل، قیصر ہوٹل اور لاہوری سموسے ہمارے ٹھکانے ہوتے۔ ذرا آگے چوک کی نکڑ پر ستار کبابیا ہوتا اور پھر عالم خان روڈ‘ جو پرندوں والی سڑک کہلاتی ہے‘ پر ایک پُرشکوہ عمارت ہوتی‘ جس کی اوپر والی منزل کے سامنے دروازے والی کھڑکیاں ہوتیں۔ یہاں سے جب بھی گزر ہوتا ہمارے چلتے ہوئے پائوں رک جاتے۔ ہم اس عمارت کو دیکھتے۔ اس کے خوب صورت دروازے پر نگاہ ڈالتے جس کی لکڑی پر دلکش نقش و نگار بنے ہوئے تھے اور دروازے پر سفید رنگ سے لکھا ہوا Welcome ہماری توجہ کھینچ لیتا۔ یہ بلراج ساہنی کا گھر تھا‘ جس نے بمبئی کی فلمی دنیا میں اپنی تحریروں اور منفرد اداکاری سے ایک الگ پہچان بنائی تھی‘ جو عام لوگوں کاہیرو تھا‘ جس کی اداکاری میں زندگی دھڑکتی تھی۔ اس وقت بلراج چار سال کا تھا جب اس کے والد، جو کپڑوں کا کاروبار کرتے تھے‘ نے نیا گھر بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ 1917ء کے لگ بھگ کی بات ہے‘ جب اس گھر کی تعمیر شروع ہوئی۔ تعمیر کا ذمہ معمار کریم بخش کا تھا‘ جس نے اپنے فن کے تمام رنگ اس گھر کی تعمیر میں سمو دیے تھے۔ کریم بخش کو بلراج اور محلے کے سارے بچے چاچا جی کہتے تھے۔ یہ پوٹھوہار کے دیہاتوں میں عام ہے کہ مرد ہو تو وہ چاچا ہوتا ہے یا ماموں، عورت ہو تو ماسی بہن یا ماں۔ یہ قربت، محبت اور احترام کے رشتے ہوتے تھے۔ بلراج جب آٹھ سال کا تھا تو شہر میں پلیگ کی خبر پھیل گئی۔ ایک روز اس کی والدہ نے گھر میں چوہا دیکھ لیا۔ چونکہ پلیگ اور چوہے کا آپس میں گہرا تعلق تھا‘ والدہ کے اصرار پر سب اپنے آبائی گھر چلے گئے‘ جو بھیرہ میں تھا۔ اب بھی بھیرہ میں ساہنیوں کا محلہ ہے لیکن یہ زیادہ طویل قیام نہیں تھا۔
راولپنڈی کے مقابلے میں بھیرہ کی زندگی بے رنگ تھی۔ بلراج ساہنی‘ جسے فلمی دنیا کا ایک بہت بڑا نام بننا تھا‘ کا فلم سے پہلا تعارف اس وقت ہوا جب وہ سکول میں تھا۔ اس دن سکول میں اعلان ہوا کہ شہر میں بائی سکوپ آئی ہے‘ سکول کے بچوں کے لیے آدھا ٹکٹ ہو گا۔ بلراج اور اس کا بھائی بھشیم ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے۔ بلراج نے ماں سے بات کی تو ماں نے اجازت دے دی اور پیسے بھی بلراج کی جیب میں ڈال دیے۔ وہ خاموش فلموں کا زمانہ تھا۔ سکرین پر فلم چلتی اور ایک اونچی مچان پر بیٹھا ایک شخص ساتھ ساتھ کمنٹری کرتا جاتا۔ اور پھر دسویں جماعت کی وہ یاد جو اسے کبھی نہیں بھولے گی۔ ان دنوں دسویں جماعت میں ان کے نصاب میں انگریزی کا ایک ناول Rupert of Hentzau بھی تھا۔ انہیں دنوں کی بات ہے کہ راولپنڈی میں روز سینما گھر کا افتتاح ہو رہا تھا۔ اس موقع پر انگریز ڈپٹی کمشنر اور شہر کے اہم لوگ مدعو تھے۔ اتفاق سے سینما پر پہلی فلم اسی ناول پر مبنی تھی جو بلراج کے نصاب کا حصہ تھا۔ یوں بلراج کے سکول کے پرنسپل نے اس کے والد کو راضی کر لیا کہ بلراج فلم دیکھنے جا سکتا ہے۔ بعد میں اس سینما پر ہندوستانی فلمیں بھی دکھائی جانے لگیں۔ اب راولپنڈی سے لاہور جانے کا وقت آ گیا تھا‘ جہاں بلراج نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگلش کیا۔ یہیں پہ اسے ادب سے دلچسپی پیدا ہوئی اور وہ کالج کے ڈرامیٹک کلب سے وابستہ ہو گیا۔ یہاں اس کے اداکاری کے جوہر کھلنے لگے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ راولپنڈی واپس آ گیا اور کچھ دیر کے لیے والد کے کپڑے کے کاروبار میں ہاتھ بٹایا‘ لیکن بلراج ساہنی کے لیے اس میں کوئی کشش نہیں تھی۔ اسی دوران بلراج ساہنی نے شادی کر لی اور پھر دونوں میاں بیوی ٹیگور کے قائم کردہ تعلیمی ادارے شانتی نکیتن سے وابستہ ہو گئے۔ کچھ عرصہ یہاں رہنے کے بعد وہ سیوا رام سے منسلک ہو گئے۔
اب دوسری جنگِ عظیم شروع ہو چکی تھی۔ بلراج کو بی بی سی سے نوکری کی پیشکش ہوئی اور وہ 1940ء میں لندن چلا گیا‘ جہاں وہ چار سال تک بی بی سی ہندی سروس سے وابستہ رہا۔ اس دورا ن وہ مارکسزم سے خاصا متاثر ہوا اور وطن واپس آ کر انڈین پیپلز تھیٹر سے وابستہ ہو گیا۔ بلراج کی پہلی قابلِ ذکر فلم''دھرتی کے لعل‘‘ تھی جو 1946ء میں ریلیز ہوئی۔ 1947ء میں ہندوستان تقسیم ہو گیا تو بلراج اور اس کا خاندان راولپنڈی چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے۔ اسی سال بلراج کی فلم ''گڑیا‘‘ آئی اور پھر فلموں کی ایک طویل قطار۔ بلراج نے لگ بھگ 135 فلموں میں کام کیا۔ 1953 میں آنے والی فلم ''ہلچل‘‘ کی کہانی بھی عجیب ہے۔ ان دنوں بلراج ایک مظاہرے میں حصہ لینے پر جیل میں تھے۔ فلم کی شوٹنگ کے لیے انہیں ہر بار گارڈز کی نگرانی میں ہتھکڑی لگا کر سیٹ پر لایا جاتا۔ دلچسپ بات یہ کہ اس وقت وہ خود جیل میں قیدی تھے لیکن جیل میں ان کا کردار جیلر کا تھا۔ ایک روز تو خود جیلر ان کی شوٹنگ دیکھنے آیا اور ان کو یونیفارم کے حوالے سے مفید مشورے دیئے۔ فلم ''دو بیگھہ زمین‘‘ میں بلراج کی اداکاری اپنے عروج پر تھی۔ یہ فلم 1953ء میں ریلیز ہوئی اور اس میں بلراج نے ایک رکشا ڈرائیور کا رول ادا کیا‘ جس کے چہرے پر دکھ اور غم مجسم نظر آتا ہے۔ پھر اس نے وقت (1965)، کابلی والا (1961)‘ دل بھی تیرا ہم بھی تیرے (1960)، بھابھی کی چوڑیاں (1961)، دو راستے (1969) اور گرم ہوا (1974) جو اس کی موت کے بعد ریلیز ہوئی میں کام کیا۔
بمبئی کی فلمی دنیا کی چکا چوند میں بھی بلراج کو پوٹھوہار کی اجلی صبحیں، نیلا آسمان اور مہکتی شامیں نہیں بھولیں۔ کبھی کبھی اس کا جی چاہتا کہ آنکھیں بند کرے اور پنڈی پہنچ جائے اور جی بھر کے مال روڈ، صدر، کمپنی باغ اور ٹوپی رکھ اور کالج روڈ کی سیر کرے۔ اسے 1962 میں یہ موقع مل گیا جب وہ پاکستان آیا اور لاہور گورنمنٹ کالج کا دورہ کیا، بھیرہ میں اپنے آبائی گھر کو دیکھا اور پھر بس میں اپنے دلبر شہر پنڈی کی طرح روانہ ہوا تو جی ٹی روڈ پر وہی مانوس سٹیشن اس کے راستے میں آ تے گئے کھاریاں، جہلم، سوہاوہ ،گوجر خان، مندرہ۔ وہ کھڑکی کے قریب والی سیٹ پر بیٹھا تھا اور پوٹھوہار کی سرزمین کے تیزی سے گزرتے مناظر اس کا دامنِ دل کھینچ رہے تھے۔ بلراج اپنے سفرنامے میں لکھتا ہے ''اپنی پوٹھوہار کی دھرتی کے لیے آنکھیں ترسی ہوئی تھیں‘ یقین نہیں آتا تھا کہ واقعی آبادیاں اور پہاڑ دیکھ رہا ہوں یا کوئی خواب ہے‘ سکول میں جغرافیے والا ماسٹر پڑھایا کرتا تھا کہ ایسی دھرتی کو سطح مرتفع کہتے ہیں‘ کتنا مشکل لفظ تھا یہ لفظ سطح مرتفع لیکن کتنا پیارا تھا آج بھی نہیں بھولا اپنے وطن پر لاگو ہوتا ہے نا‘‘۔ راولپنڈی پہنچ کر بلراج اپنی محبوب جگہوں مال روڈ کمپنی باغ (اب لیاقت باغ)، ٹوپی رکھ (اب ایوب پارک‘ ، کالج روڈ، گورڈن کالج اور پھر پرندوں والی سڑک پر واقع اس گھر کو دیکھنے گیا‘ جہاں اس کی زندگی کا طویل عرصہ گزرا تھا اور اب وہی چاچا کریم بخش کا تعمیر کردہ گھر اس کے سامنے تھا۔ مکان کے مرکزی دروازے پر اس کی نظر پڑی تو اس کا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔ دروازے پر اس کے ہاتھ کا سفید رنگ میں لکھا ہوا Welcome ابھی تک محفوظ تھا۔ اسے دیکھ کر بلراج کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اسے یوں لگا جیسے وقت الٹے پائوں پاس لوٹ گیا ہے۔ یہی محلہ تھا، یہی سڑک اور یہی گھر جب وہ شہر در شہر گھوم کر واپس آتا اور تانگے سے اتر کر اسی دروازے سے اندر داخل ہوتا تو اس کے والد اس کو دیکھ کر بے اختیار پکارتے ''اوئے بلراج تو آ گیا ہے؟‘‘ اور آج بلراج مدتوں بعد اسی گھر آ یا تھا لیکن کوئی خاموشی سی خاموشی تھی۔ بلراج نے آسمان کی طرف نگاہ کی جہاں آسمان کی بلندیوں پر کچھ پرندے پرواز کرتے ہوئے بادلوں کی اوٹ میں جا رہے تھے۔ اس نے سوچا گزرتے ہوئے لمحے بھی ان خوش رنگ پرندوں کی طرح ہوتے ہیں جو پرواز کرتے کرتے آسمان کی وسعتوں میں کھو جاتے ہیں اور پھر کبھی لوٹ کر واپس نہیں آتے۔