بعض اوقات تصور کی سواری ہمیں کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔ اس روز بھی ایسا ہی ہوا۔ شام کا وقت تھا سٹریٹ لائٹس ابھی ابھی روشن ہوئی تھیں اور میں راولپنڈی کی مال روڈ سے ہو کر پشاور روڈ پر چلتے چلتے رک گیا تھا۔ ایک قدیم یاد نے میرے قدم روک لیے تھے۔
اب تو راولپنڈی شہر اپنے کناروں سے چھلک رہا ہے۔ نئی آبادیاں، شاپنگ سینٹرز اور سڑکوں پر لوگوں اور گاڑیوں کی بڑی تعداد رواں دواں نظر آتی ہے لیکن آج سے سو سال پہلے یہ ایک مختلف شہر تھا۔ چند پرانی بستیاں، بہت کم آبادی۔ مسلمان، ہندو‘ سکھ اور عیسائی ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ 1947ء کی تقسیم کے بعد ہندوئوں اور سکھوں کی کثیر تعداد سرحد پار چلی گئی لیکن اب بھی راولپنڈی کے پرانے محلوں میں پرانے مندر اور پاٹ شالے نظر آتے ہیں۔ یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب سڑکوں پر تانگے چلتے تھے‘ راولپنڈی کی آبادی کم تھی، مضافاتی دیہات تھے جہاں زندگی کے رنگ بہت سادہ اور بہت سچے تھے۔ مسلمان گھرانوں میں اکثر کی مالی حالت بہتر نہ تھی۔ اس کے برعکس ہندو اور سکھ مالی اعتبار سے زیادہ خوش حال تھے۔ لوگوں کا پیشہ کھیتی باڑی تھا۔ ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد فوج میں تھا یا فوج میں بھرتی ہونے کی خواہش رکھتا تھا۔ یہ روایت اب بھی قائم ہے۔ اب بھی پوٹھوہار کے ہر گھر میں فوج کی نمائندگی موجود ہے۔
یہ آج سے سو سال پہلے کے راولپنڈی کا ذکر ہے۔ اگر راولپنڈی کی پشاور روڈ سے سفر کا آغاز کریں تو آپ کے بائیں ہاتھ چوہڑ اور مصریال روڈ کے نشان آتے ہیں۔ ذرا آگے بائیں ہاتھ پر ہی ایک راستہ نکلتا ہے‘ جس پر چل کر آپ سہام گائوں تک پہنچتے ہیں۔ اسی گائوں کے ایک گھر میں 20 دسمبر 1908 کو ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام محمد افضل رکھا گیا۔ کہتے ہیں نام کی تاثیر شخصیت میں در آتی ہے۔ لیکن قطرے کو گہر ہونے تک ابھی بہت سی مشکلات سے گزرنا تھا۔ گھر میں غربت تھی لیکن محمد افضل کو پڑھنے کا شوق تھا۔ اس نے راولپنڈی کے ڈینیز سکول میں داخلہ حاصل کیا۔ ڈینیز اس زمانے کے اچھے سکولوں میں شمار ہوتا تھا۔ یوں بھی اس زمانے میں سکولوں کی تعداد ہی کتنی تھی۔ محمد افضل نے میٹرک پاس کر لیا تو اپنے گائوں کے سکول میں استاد بن گیا لیکن یہ اس کی پیشہ ورانہ زندگی کا پہلا پڑائو تھا۔ یہ اس زمانے میں ایک معقول نوکری تھی۔ گائوں میں استاد کی بہت عزت کی جاتی تھی لیکن محمد افضل زیادہ عرصہ تک یہ نوکری نہ کر سکا۔ اس کی طبیعت کا سیلانی پن اسے گائوں سے نکال کر فلمی دنیا کی چکا چوند روشنیوں میں لے آیا‘ جب اس نے امپیریل فلم کمپنی میں ملازمت کر لی۔ کچھ فلموں کے لیے گیت اور مکالمے لکھے اور چھوٹے موٹے کرداروں کے لیے اداکاری بھی کی لیکن پھر پوٹھوہار کی مٹی کی چٹک اسے فوج میں لے گئی اور وہ فوج میں کلرک حوالدار بھرتی ہو گیا۔ نوکری تو مل گئی لیکن اس کے اندر کا فن کار شاعر اپنی نمو کے لیے کچھ اور چاہتا تھا۔ تب اس نے محمد افضل کی شخصیت کو ایک طرف رکھا اور باقی صدیقی کا چولا اوڑھ لیا۔ اب وہ شہر سخن میں داخل ہو گیا تھا اور باقی صدیقی کے روپ میں اپنی پہچان کرا رہا تھا۔ اسی دوران وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گیا۔ اس زمانے میں ریڈیو پاکستان کے مختلف سٹیشنوں پر ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کا جمگھٹا رہتا تھا۔ باقی صدیقی کے پشاور میں قیام کے دوران اس کی محفلیں احمد فراز، محسن احسان، رضا ہمدانی اور شوکت واسطی سے رہیں۔ باقی صدیقی نے اپنے گائوں کی زندگی کی سادگی اور سچے پن کو اپنی شاعری میں گوندھ کر جذبے کی آنچ پر پکایا۔ اس نے چھوٹی بحر میں غزل کو ایک نیا آہنگ دیا۔ باقی صدیقی کی شہرِ سخن میں آمد نے لوگوں کو چونکا دیا۔ ایک نیا لہجہ، معنی آفرینی اور سخن کا بانکپن اس کی شاعری کے اجزا تھے۔
تم زمانے کی راہ سے آئے
ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا
وفا کا زخم ہے گہرا تو کوئی بات نہیں
لگائو بھی تو مجھے اس سے انتہا کا تھا
ایک دیوار کی دُوری ہے قفس
توڑ سکتے تو چمن میں ہوتے
کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری
اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو
باقی جو چپ رہو گے تو اٹھیں گی انگلیاں
ہے بولنا بھی رسمِ جہاں بولتے رہو
یہ باقی صدیقی کے چند اشعار ہیں جو میرے حافظے میں محفوظ رہے۔ باقی کے شہرِ سخن کے رنگ اس کے مجموعوں جام جم، دار و رسن، زخم بہار اور بارِ سفر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ باقی صدیقی نے زیادہ اردو میں لکھا‘ لیکن وہ اپنی ماں بولی پوٹھوہاری کو نہیں بھولا۔ اس کے پوٹھوہاری گیتوںکا مجموعہ ''کچے گھڑے‘‘ پوٹھوہاری شعری روایت میں ایک اہم اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ایک رسالے کی ادارت بھی کی۔
ایک طرف مشق سخن جاری تھی دوسری طرف زندگی کی زہر ناکی اس کے رگ و پے میں سرایت کر رہی تھی۔ اس نے ساری عمر شادی نہیں کی۔ چھوٹی بہن اصغری بیگم‘ جس کو طلاق ہو گئی تھی‘ کے ہمراہ رہتا تھا۔ تنہائی کا ایک طویل گمبھیر سفر تھا جو باقی طے کر رہا تھا اور یہ کانٹوں بھرا سفر تھا جسے طے کرتے کرتے اس کے تلوے زخمی ہو گئے تھے۔ آخر 8 جنوری 1972 کو یہ سفر اختتام کو پہنچا۔ بے قراری کو قرار آ ہی گیا‘ لیکن مرتے وقت اس کے چہرے پر اطمینان کی روشنی تھی۔ اس نے اپنے حصے کا چراغ جلا دیا تھا۔ یہی طمانیت اس کی زندگی کا اثاثہ تھی۔ اس کی قبر کے کتبے پر اسی کے دو اشعار لکھے ہیں:
دیوانہ اپنے آپ سے تھا بے خبر تو کیا
کانٹوں میں ایک راہ بنا کر چلا گیا
باقی ابھی یہ کون تھا موجِ صبا کے ساتھ
صحرا میں اک درخت اُگا کر چلا گیا
باقی صدیقی کی غزل پہلے پہل اقبال بانو کی آواز میں نشر ہوئی تو لوگوں کے دل میں اتر گئی۔ اس کے ایک ایک شعر میں جہانِ معنی آباد تھا‘ لیکن زبانِ حیرت انگیز طور پر سادہ تھی۔ یہی باقی کے ہنر کی معراج تھی۔
داغِ دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیے جلانے لگے
کچھ نہ پا کر بھی مطمئن ہیں ہم
عشق میں ہاتھ کیا خزانے لگے
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اس بدلتے ہوئے زمانے میں
تیرے قصے بھی کچھ پرانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
شام کا وقت ہو گیا باقی
بستیوں سے شرار آنے لگے
باقی صدیقی کی شاعری میں تشبیہیں، استعارے اور امیجز گائوں کی سادہ زندگی سے لیے گئے ہیں۔ اس لیے تفہیم میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ صوفیا کی فوک شاعری کو پڑھیں تو یہی اسلوب سامنے آتا ہے کیونکہ ان کا مقصد بھی معانی کی تفہیم تھا۔ باقی صدیقی کی زندگی کا زیادہ حصہ راولپنڈی کے گلی کوچوں میں گزرا۔ وہ کچھ عرصہ فلمی دنیا کی چکا چوند میں گیا لیکن طبیعت نہ مانی اور راولپنڈی کی کشش اسے واپس لے آئی‘ جہاں سرِ شام چراغ جلتے تھے اور رات کا آغاز جلدی ہو جاتا تھا۔ بعض اوقات تصور کی سواری ہمیں کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔ اس روز بھی ایسا ہی ہوا۔ شام کا وقت تھا سٹریٹ لائٹس ابھی ابھی روشن ہوئی تھیں اور میں راولپنڈی کی مال روڈ سے ہو کر پشاور روڈ پر چلتے چلتے رک گیا تھا۔ ایک قدیم یاد نے میرے قدم روک لیے تھے۔