کہتے ہیں کراچی روشنیوں کا شہر ہے لیکن میں نے یہاں ایک باغ دیکھا ہے جو سب سے الگ اور سب سے جدا ہے‘ جہاں گئے اور نئے زمانے کے خوش رنگ اور منفرد پھولوں کی بہار ہے۔ کبھی کراچی میں آپ کا گزر گلستانِ جوہر سے ہو تو اس باغ کی سیر کو ضرور جائیے۔ ہمیشہ کی طرح اس سال بھی مجھے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں شرکت کا موقع ملا‘ جو ہر سال کی طرح اس دفعہ بھی بیچ لگژری ہوٹل میں منعقد ہوا‘ جس میں مختلف موضوعات پر سیشنز تھے‘ کتابوں کے سٹالز تھے‘ بہت سی نئی کتابوں کی رونمائی تھی‘ مشاعرہ تھا اور آخری دن موسیقی کا اہتمام بھی تھا۔ اس فیسٹیول میں میری شمولیت کی دو وجوہ تھیں۔ ایک تو میں اس پینل کا حصہ تھا جس میں وزیرِ تعلیم شفقت محمود اور ملک کے ممتاز ماہرینِ تعلیم شامل تھے اور جو پاکستان میں تعلیم کی صورتحال اور اس کے مستقبل کے حوالے سے تھا۔ فیسٹیول میں شرکت کی دوسری وجہ روزنامہ دنیا میں چھپنے والے میرے کالموں کی کتاب ''زیرِ آسماں‘‘ کی رونمائی تھی۔ اس سیشن کے ماڈریٹر معروف ادیب انور سن رائے تھے اور سامعین میں افتخار عارف، کشور ناہید، شکیل عادل زادہ، محمد حمید شاہد، عقیل عباس جعفری، ناصر عباس نیّر اور عرفان جاوید شامل تھے۔
کراچی جائیں تو یہاں کی ایک اور کشش شکیل عادل زادہ کی شخصیت بھی ہوتی ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔ اس بار ادبی فیسٹیول میں ہر روز ان سے ملاقات رہی اور بیچ لگژری ہوٹل میں پانیوں کے ساتھ بچھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ کر خوب گفتگو ہوئی۔ شکیل عادل زادہ کے چاہنے والوں کے لیے ایک خوشخبری کہ ادبی مجلہ ''اجرا‘‘ شکیل عادل زادہ نمبر نکال رہا ہے۔ کہتے ہیں یہ شکیل عادل زادہ کے فن اور شخصیت کے حوالے سے ایک اہم دستاویز ہو گی۔ دوسری خبر یہ ہے کہ شکیل بھائی سب رنگ میں شائع ہونے والی اردو ادب کی لازوال کہانی ''بازی گر‘‘ کی آخری قسط لکھنے میں مصروف ہیں۔ یہ قسط ایک طویل قسط ہو گی‘ جس کی ضخامت شاید ایک کتاب کی شکل اختیار کر جائے۔ کراچی جاؤں تو ان دنوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے‘ جب میں 1996ء میں یہاں ملازمت کے لیے آیا تھا۔ کراچی چھوڑے ہوئے مجھے دو عشرے ہو گئے ہیں۔ لیکن اب بھی ان دوستوں سے رابطہ قائم ہے۔ انہیں دوستوں میں ایک ممتاز ماہرِ تعلیم واصف حسین رضوی ہیں‘ جو اس وقت آغا خان ایجوکیشنل سروس سے وابستہ تھے' اور آج کل حبیب یونیورسٹی کراچی کے صدر ہیں۔ واصف رضوی صاحب کو میری آمد کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنے گھر کچھ اور دوستوں کو بھی رات کے کھانے پر مدعو کر لیا۔ ان میں ایم کیو ایم کے نوجوان رہنما فیصل سبزواری بھی تھے‘ جو کراچی لٹریچر فیسٹیول میں مشاعرے کی نظامت کرکے یہاں پہنچے تھے۔ فیصل مطالعے کے رسیا اور ایک اچھے شاعر ہیں۔ واصف رضوی صاحب کی محفل میں علم، ادب، تعلیم، سائنس سب موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے۔ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ رات گئے جب میں وہاں سے رخصت ہوا تو ایک سیرابی کا احساس ہو رہا تھا۔ کراچی میں میرا آخری دن ایک اہم دن تھا۔ اس روز مجھے انجمن ترقیٔ اردو کے اردو باغ میں ایک کتاب تانیثیث کا نیا دور: نیا اسلوب، نئی عورت کی تقریب میں جانا تھا۔ یہ کتاب محترمہ بشریٰ اقبال اور حمیرا اشفاق نے مرتب کی ہے۔ اس گفتگو میں ڈاکٹر جعفر احمد، محترمہ فاطمہ حسن اور محترمہ بشریٰ اقبال نے حصہ لیا۔ میں نے اپنی گفتگو میں صنف کی تشکیل میں زبان کے اہم کردار کے حوالے سے بات کی اور بتایا کہ کس طرح دورِ حاضر میں ڈسکورس (Discource) بنیادی اہمیت اختیار کر گیا ہے‘ جس کا تعلق طاقت (Power) کے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوسٹ کالونیل اور فیمینسٹ تحریکوں کا بنیادی ہدف ڈسکورس کا حصول ہے۔ کتاب کی رونمائی کی وساطت سے مجھے انجمن ترقیٔ اردو کی نئی عمارت دیکھنے کا موقع ملا‘ جس کی پیشانی پر جلی حروف میں ''اردو باغ‘‘ لکھا ہے۔ اس اردو باغ کی کہانی بھی دلچسپ ہے‘ جسے جاننے کے لیے ہمیں تاریخ کا ورق پلٹنا ہو گا۔
یہ1903ء کی بات ہے جب انجمن ترقیٔ اردو کا قیام عمل میں آیا۔ دراصل یہ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کی ایک شاخ تھی‘ جس کے قیام میں سرسید احمد خان کے قریبی ساتھی نواب محسن الملک کا بنیادی کردار تھا۔ انجمن کے پہلے صدر معروف مستشرق تھامس آرنلڈ اور معتمد علامہ شبلی نعمانی تھے۔ انجمن کے سرپرستوں اور بہی خواہوں میں قائداعظم محمدعلی جناح، علامہ اقبال، لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خان، پیر الٰہی بخش، ڈاکٹر محمد شہیداﷲ، سر غلام حسین ہدایت اﷲ اور پیر حسام الدین راشدی شامل تھے۔
انجمن ترقیٔ اردوکے بنیادی مقاصد میں تحقیق، ترجمہ اور تدریس شامل تھے۔ یہ اردو زبان کی ترویح و تحقیق کے لیے ایک سانٹیفک اپروچ تھی۔ 1912ء میں انجمن کے معتمد کے عہدے پر مولوی عبدالحق فائز ہوئے اور انجمن کا دفتر علی گڑھ سے اورنگ آباد (دکن) منتقل ہو گیا۔ اس دفتر کا نام ''اردو باغ‘‘ رکھا گیا۔ 1938ء میں انجمن کا دفتر دہلی آ گیا۔ مولوی عبدالحق کی قیادت میں انجمن ترقیٔ اردو نے اردو کی ترویج و ترقی کے لیے شاندار کردار ادا کیا۔
پاکستان وجود میں آیا تو قائد اعظم کی خواہش پر مولوی عبدالحق انجمن کا دفتر دہلی سے کراچی لے آئے۔ مولوی عبدالحق کی پوری زندگی اردو کو نکھارنے اور سنوارنے میں گزری۔ اردو کیلئے ان کی غیر معمولی خدمات کی وجہ سے وہ بابائے اردو کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ مولوی عبدالحق کا 1962ء میں انتقال ہوا تو معروف شاعر جمیل الدین عالی انجمن ترقیٔ اردو کے نئے معتمد بنے۔ عالی صاحب نے مولوی عبدالحق کے مشن کو محبت اور لگن سے آگے بڑھایا اور اردو کی ترویج و تحقیق کیلئے ٹھوس اقدامات کئے‘ جن میں وفاقی اردو کا لج برائے فنون، قانون اور سائنس شامل ہیں۔ یہ وہ بنیاد تھی جس پر 2002ء میں وفاقی اردو یونیورسٹی کی عمارت کھڑی کی گئی۔ جمیل الدین عالی کا دور انجمن کی زندگی کا انتہائی فعال دور تھا‘ لیکن اب وہ علیل رہنے لگے تھے۔ اور ان کی خرابیٔ صحت ان کے فعال کردار کی راہ میں رکاوٹ بن رہی تھی۔ عالی صاحب چاہتے تھے کہ انجمن کی قیادت کا بار جوان کندھوں کے سپرد کر دیا جائے۔ ان کی نگاہِ انتخاب اردو کی معروف شاعرہ فاطمہ حسن پر ٹھہری۔ ان دنوں انجمن کا دفتر گلشِ اقبال میں تھا۔ لیکن یہ ایک رہائشی مکان تھا جسے انجمن کے دفتر کانام دیاگیا تھا‘ جس کی بالائی منزل پر لائبریری اور نچلی منزل پر دفاتر تھے‘ جہاں انجمن کا ماہنامہ مجلہ"قومی زبان " بھی چھپتا تھا۔ یوں یہ عمارت ساٹھ ہزار کتابوں اور رسائل اور تقریبات کیلئے ناکافی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد چالیس سال یونہی گزر گئے تھے۔ 1987ء میں اس وقت کے انجمن کے صدر نورالحسن جعفری صاحب نے گُلستانِ جوہر کراچی میں کے ڈی اے کی مدد سے تقریباً ساڑھے پانچ ہزار گز کا پلاٹ حاصل کر لیا۔ یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔ پلاٹ کے حصول کے بعد دو دہائیاں اور گزر گئیں لیکن وسائل کی عدم دستیابی کے باعث انجمن کی عمارت کی تعمیر ممکن نہ ہو سکی۔ فاطمہ حسن کی محنت رنگ لائی اور اس وقت کے صدرِ پاکستان کے تعاون سے انجمن کیلئے ایک جدید اور کشادہ عمارت کی تعمیر ممکن ہوئی۔ اب اس عمارت میں دفاتر، لائبریری، انجمن کی مطبوعات کی دکان، تقریبات کیلئے کانفرنس رومز کا انتظام ہے۔ وہ اڑھائی ہزار مخطوطے جو انجمن کی ملکیت تھے لیکن پُرانی عمارت میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے نیشنل میوزیم میں رکھے تھے‘ اب واپس انجمن کے آرکائیوز روم میں آ چکے ہیں۔ ان آرکائیوز میں ادب کی پوری تاریخ آباد ہے۔ یہیں مجھے کلیاتِ میر کا پہلا ایڈیشن دیکھنے کا موقع ملا جو فورٹ ولیم کالج کے زیر اہتمام 1811ء میں شائع ہوا تھا۔ انجمن ترقیٔ اردو کے حوالے سے ایک اور اچھی خبر یہ ہے کہ اس کا سہ ماہی تحقیقی مجلہ ''اردو‘‘ اب ایچ ای سی کے منظور شدہ مجلات کی فہرست میں شامل ہے۔ فاطمہ حسن کا دور 2019 ء میں اختتام کو پہنچا تو انجمن کے معتمد کا عہدہ پاکستان کی معروف افسانہ نگار زاہدہ حنا کے حصے میں آیا۔ انجمن کے نئے صدر واجد جواد صاحب ہیں۔ دونوں اردو باغ کی آرائش کیلئے کوشاں ہیں۔ کہتے ہیں کراچی روشنیوں ہے لیکن میں نے یہاں ایک باغ دیکھا ہے جو سب سے الگ اور سب سے جدا ہے جہاں گئے اور نئے زمانے کے خوش رنگ اور منفرد پھولوں کی بہار ہے۔کبھی کراچی میں آپ کا گزر گلستانِ جوہر سے ہو تو اس باغ کی سیر کو ضرور جائیے ۔