وقت کا دریا بھی کیسا دریا ہے‘ مسلسل سفر میں رہتا ہے ہر دم اپنی گزرگاہیں بدلتا رہتا ہے اور جہاں سے بھی گزرتا ہے اپنی نشانیاں چھوڑ جاتا ہے۔ پوٹھوہار کی قدیم دھرتی پر جہاں پرانے قلعے، مسجدیں، مندر، سکھوں کی عبادت گاہیں اور بدھ مت کی یادگاریں ہیں‘ وہیں معدنیات کے کچھ ایسے خزانے بھی ہیں جنہوں نے اس علاقے کی اہمیت کو اور بڑھا دیا ہے۔ انہی میں سے ایک گلابی نمک کی کان ہے۔ کہتے ہیں یہ دنیا بھر میں نمک کا دوسرا بڑا ذخیرہ ہے۔ ہماری نئی نسل شاید گلابی نمک سے واقف نہ ہو لیکن میرا گلابی نمک سے تعارف میرے بچپن میں ہی ہو گیا تھا جب ہمارے گھر میں نمک کے بڑے بڑے گلابی رنگ کے ڈھیلے ایک الماری میں رکھے ہوتے تھے۔ لسی کے کٹورے میں ہم گلابی نمک کے ڈھیلے کو دوتین مرتبہ چکر دیتے تو لسی نمکین ہو جاتی تھی۔ کھانا لکڑیوں کے چولہے پر کچی ہانڈی میں پکتا تھا اور نمک کو پیس کر حسبِ ضرورت ہانڈی میں ڈالا جاتا تھا۔
پھر سکول میں تاریخ کی کتاب میں نمک کا ذکر ایک نئے انداز میں پڑھا۔ یہ فرنگیوں کے دور میں گاندھی کی نمک ستیہ گرہ تھی۔ ستیہ گرہ کا مطلب ہمارے استاد نے سچ کی تلاش بتایا تھا۔ اس کا پسِ منظر یہ تھا کہ حکومت برطانیہ نے نمک پر مکمل اجارہ داری حاصل کرنے کے لیے علاقائی سطح پر نمک بنانے پر ٹیکس لگا دیا تھا۔ یہ مقامی لوگوں کے ساتھ صریحاً زیادتی تھی۔ اس پر گاندھی نے حکومت کے خلاف پُرامن احتجاج کا فیصلہ کیا۔ 12مارچ 1930ء سے 06 اپریل 1930ء تک 24 روز کے لیے حکومت کے اس اقدام کے خلاف مارچ کیا گیا۔ ہر روز پیدل 10 میل کا سفر طے کیا جاتا۔ یوں سبرامتی آشرم سے ڈنڈی (گجرات) تک تقریباً 240 میل کا سفر پیدل طے کیا گیا۔ وہ قافلہ جو 78 لوگوں سے شروع ہوا تھا ڈنڈی تک پہنچتے پہنچتے ایک بڑے مجمعے میں بدل گیا‘ جہاں گاندھی نے سب سے مل کر نمک بنایا اور یوں سول نافرمانی کی بنیاد رکھی۔ گاندھی کو گرفتار کر لیا گیا۔ کہتے ہیں 60,000 افراد نمک ستیہ گری کے نتیجے میں گرفتار ہوئے لیکن ایک سال بعد برطانوی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور گاندھی کو جیل سے رہا کرکے مذاکرات کا آغاز کیا گیا۔ میں حیران ہوا کہ نمک کا سیاست سے بھی تعلق ہے۔
یہ ہائی سکول میں ہمارے تاریخ کے استاد مظفر عالم صاحب کی کلاس تھی۔ وہ تاریخ کو کہانی کے انداز میں سناتے۔ ان میں سے کچھ کہانیاں اب بھی میرے ساتھ ساتھ چل رہی ہیں مثلاً نمک ستیہ گرہ پڑھاتے ہوئے اچانک انہوں نے کتاب بند کی اور کہنے لگے: یہ نمک کا قصہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ ان کے کتاب بند کرنے سے ہم جان گئے کہ ہمیں کوئی کہانی سنانے جا رہے ہیں۔ وہ سردیوں کے دن تھے اور ہم سکول کے ہال کی چھت پر ٹاٹوں پر بیٹھے تھے کیونکہ ہمارے کمروں میں ہیٹر نہیں ہوتے تھے اور یہاں چاروں طرف دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ مظفر عالم صاحب کہنے لگے: بہت پرانا قصہ ہے 326 قبلِ مسیح کا‘ جب سکندرِاعظم دنیا کو فتح کرنے نکلا اور فتوحات کے جھنڈے گاڑتا جہلم تک آ پہنچا‘ جہاں پہلی بار گجرات کے راجہ پورس نے اس کی اطاعت سے انکار کر دیا اور سکندر کی ملاقات کی دعوت ملنے پر اسے پیغام بھیجا کہ ہماری ملاقات اب میدانِ جنگ میں ہو گی۔ سکندر نے دریائے جہلم پار کرکے جانا تھا‘ جہاں اب بھی مونگ کا ٹیلہ پورس اور سکندرِ اعظم کے معرکے کی یاد دلاتا ہے‘ لیکن ابھی دریا پار کرنے کا مرحلہ باقی تھا اور سکندر کا لشکر آرام کر رہا تھا کہ کچھ سپاہیوں نے دیکھا‘ گھوڑے ایک چٹان کو چاٹ رہے ہیں اور وہاں سے ہل نہیں رہے۔ پتہ چلا کہ یہ چٹان نمک کی ہے۔ سپاہیوں نے دیکھا کہ بہت سے بیمار گھوڑے چٹان چاٹ کر بھلے چنگے ہو گئے۔ یہ کھیوڑہ کا علاقہ تھا جہاں نمک کی دریافت کا سہرا گھوڑوں کے سرجاتا ہے۔ مظفر عالم صاحب نے بتایا: نمک کی چٹانوں کے اس علاقے کو کھیوڑہ کہتے ہیں اور وقت ملے تو کھیوڑہ ضرور جانا چاہیے۔ اس بات کو جانے کتنے برس بیت گئے‘ لیکن آج بھی یوں لگتا ہے کہ سردیوں کی نرم دھوپ ہے اور ہم 326 قبلِ مسیح کے دور کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا اور کیسے استاد تھے جن کی گفتگو محض کتابوں تک محدود نہ ہوتی۔ ان میں سے کچھ ایسے تھے جن کی کلاس میں ہماری سوچ کے دریچے کھلنے لگتے۔ مجھے یاد ہے اگلی کلاس اردو کی تھی۔ ہمارے اردو کے استاد مقرب صاحب وضع قطع سے بھی اردو کے استاد لگتے تھے۔ اس روز وہ کلاس میں آئے تو ہم ابھی تک نمک کے سحر میں کھوئے ہوئے تھے‘ ہماری کلاس کے ایک شرارتی لڑکے نے ان سے کہا: سر‘ اردو ادب میں بھی نمک ہوتا ہے؟ مقرب صاحب کرسی پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے نمک کا جس طرح ہماری زندگی میں اہم کردار ہے اسی طرح ہماری زبان اور ادب میں بھی اس کا ذکر بار بار آتا ہے۔ مثلاً غالب کا یہ شعر دیکھیے:
شور پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا
ہم سب نے واہ واہ کہا تو مقرب صاحب نے کہا‘ اور سنیں یہ بھی غالب کا شعر ہے:
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک
کیا مزہ ہوتا اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک
پھر کہنے لگے ایک مشہور کہاوت بھی ہے ''ہرکہ درکانِ نمک رفت نمک شد‘‘ (جو بھی نمک کی کان میں جاتا وہ نمک بن جاتا ہے) یعنی جو بھی ایک خاص صحبت یا ماحول میں رہتاہے اسی رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ اور پھر یہ محاورہ ''آٹے میں نمک کے برابر‘‘ یعنی بہت کم مقدار میں۔ اس کے بعد مقرب صاحب نے ہماری کلاس کے گروپس بنائے اور ہمیں کہنے لگے کہ اردو کے ایسے محاورے اور تراکیب سوچیں جس میں نمک کا لفظ آتا ہو۔ اس کے لیے ہمیں 15 منٹ دیے گئے۔ ہم نویں جماعت کے طالب علم تھے اور ہماری اردو آج کل کے بچوں کے مقابلے میں بہتر ہوا کرتی تھی۔ پندرہ منٹ کے بعد جب مختلف گروپس نے لفظ بتانا شروع کیے تو ایک طویل فہرست بن گئی۔ کچھ مجھے آج بھی یاد ہیں۔ اس روز ہمیں اندازہ ہو گیا کہ نمک کا ہماری زندگی میں، ہماری تاریخ میں، ہماری معیشت میں، ہماری سیاست میں اور ہمارے ادب میں کتنا دخل ہے۔
لاہور سے اسلام آباد موٹروے پر سفر کرتے ہوئے مجھے اکثر خیال آتا کہ کھیوڑہ کی نمک کی کان دیکھی جائے‘ مگر زندگی کا تیز سفر خواہشوں کو کم ہی خاطر میں لاتا ہے۔ پھر ایک روز مجھے موقع مل ہی گیا۔ یہ پنڈ دادن خان کے شمال میں اور اسلام آباد لاہور موٹروے پر للہ انٹرچینج سے 30 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ کہتے ہیں‘ یہ مقام سطح سمندر سے 945 فٹ بلندی پر واقع ہے اور نمک کی کان 2400 فٹ تک پہاڑوں کے اندر چلی جاتی ہے۔ اور اس کا کل رقبہ 43مربع میل ہے۔ ہمارے گائیڈ نے بتایا کہ اس کی 19 منزلیں ہیں‘ جن میں سے 11 زیر زمین ہیں۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ سردیوں گرمیوں میں اس کا درجہ حرارت 18 سے 20 سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ ایک ریل نما ٹرالی پر بیٹھ کر آپ اندر کی سیر کر سکتے ہیں‘ جہاں نمک سے بنائی ہوئی مسجد، مینارِ پاکستان، تالاب اور نمک کا بے ستون پل ہے۔ سرخ سفید رنگوں کی نمکین اینٹوں نے کان کے اندر کا ماحول سحر انگیز بنایا ہوا ہے جس سے تقریباً 350,000 ٹن سالانہ نمک نکالا جاتا ہے۔ گلابی نمک اپنے فوائد کے لحاظ سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔ یہ سانس، جلد اور نیند کے لیے انتہائی مفید ہے۔ قریب ہی نمک سے بنی مصنوعات کی دکانیں ہیں‘ جنہیں سیاح بڑے شوق سے خریدتے ہیں۔ میں کھیوڑہ کی نمک کی چٹانوں کو دیکھتا ہوں جنہوں نے سکندر اعظم کا زمانہ بھی دیکھا اور مغلوں کا دور بھی، فرنگیوں کا راج بھی دیکھا اور سکھوں کی حکومت بھی۔ آج یہ آزاد پاکستان کا حصہ ہے‘ ہماری تاریخ کا ایک اہم باب۔آج یہاں آکر مجھے کتنے ہی پرانے زمانے یاد آ گئے۔ تاریخ کے پرانے زمانے اور اپنے سکول کا زمانہ جو اب ایک خواب ہو گیا ہے۔ وقت کا دریا بھی کیسا دریا ہے مسلسل سفر میں رہتا ہے ہر دم اپنی گزرگاہیں بدلتا رہتا ہے اور جہاں سے بھی گزرتا ہے اپنی نشانیاں چھوڑ جاتا ہے۔