جلیانوالہ باغ میں اس روز قیامت کا سماں تھا‘ ہر طرف چیخ و پکار تھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے بچے، بوڑھے اور جوان فرنگیوں کی گولیوں سے کٹے ہوئے درختوں کی طرح گِر رہے تھے۔ اس کے دل میں نفرت اور غصے کا طوفان امڈ آیا تھا۔ اس نے جلیانوالہ کی خون آلود مٹی کو مٹھی میں بند کیا اور اپنی پوری قوت جمع کرکے چیخ کر کہا تھا: میں اس خونِ ناحق کا بدلہ لوں گا۔ اس کا نام ادھم سنگھ تھا۔ وہ 26 دسمبر 1899ء کو پنجاب کے ایک گاؤں سونم میں پیدا ہوا تھا۔ ماں اس کی پیدائش کے دو سال بعد ہی فوت ہو گئی تھی۔ جب وہ آٹھ سال کا ہوا تو والد بھی انتقال کرگئے۔ یوں وہ اس بھری دنیا میں اکیلا رہ گیا۔ نہ کوئی گھر نہ ٹھکانہ۔ اسے اس کے بھائی کے ہمراہ ایک یتیم خانے میں چھوڑ دیا گیا۔ زندگی کی تلخیوں سے یہ اس کا پہلا تعارف تھا۔ اس یتیم خانے میں اس کے ہمراہ رہنے والے بچے بھی اس کی طرح اپنے والدین کھو چکے تھے۔ یتیم خانے میں اس کا نام شیر سنگھ کے بجائے ادھم سنگھ رکھ دیا گیا۔ وہ ایک بے قرار روح لے کر آیا تھا۔ نچلا بیٹھنا اس کے لیے ممکن ہی نہ تھا۔ اسے ہروقت کوئی سرگرمی چاہیے تھی۔ کوئی ایسا کام جس سے وہ دوسروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کراسکے۔ شاید اس کی وجہ توجہ کی وہ کمی تھی جو والدین کے بچھڑ جانے سے پیدا ہوئی تھی۔ زندگی اپنے ڈھب سے گزر رہی تھی۔ اس نے سکول کی تعلیم حاصل کرلی تھی۔ ملک میں سیاستی ہلچل شروع ہوگئی تھی۔ لوگ فرنگیوں کے راج کے خلاف اُٹھ رہے تھے۔ پنجاب میں لوگوں کی آواز دبانے کیلئے تشدد کے سارے ہتھکنڈے استعمال ہو رہے تھے۔ ان سب اقدامات کے پیچھے جنرل اوڈائر کا ہاتھ تھا جو اس وقت پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر تھا۔ یاد رکھیں کہ جنرل اوڈائر اور کرنل ڈائر دو علیحدہ شخصیات تھیں۔ جنرل اوڈائر پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر تھا جبکہ کرنل ڈائر جس نے جلیانوالہ باغ میں فائرنگ کا حکم دیا تھا‘ جنرل اوڈائر کا ماتحت تھا اور اس کے احکامات پر عمل کر رہا تھا۔ جنرل اوڈائر نے جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام کے بعد اپنے ماتحت کرنل ڈائر کے اقدام کا دفاع کیا اور اسے حق بجانب قرار دیا تھا۔ سیاسی معاملات کی ذرا بھی سوجھ بوجھ رکھنے والے جانتے تھے کہ پنجاب میں ظالمانہ اقدامات کی وجہ وہاں کا لیفٹیننٹ گورنر جنرل اوڈائر ہے۔ جنرل اوڈائرآئرلینڈ کا رہنے والا تھا‘ جہاں سوشلسٹ موومنٹ کے نتیجے میں اس کے والد کی جان چلی گئی تھی۔ یوں قوم پرستوں کی تحریکوں سے اس کی نفرت کی کہانی بہت پرانی تھی۔ جلیانوالہ باغ کے واقعے کے بعد شائع ہونے والی کتاب India as I Knew it میں جنرل اوڈائر نے پنجاب کے حوالے سے لکھا کہ اس وقت دہشتگردی کے واقعات ہو رہے تھے‘ اور سیاسی ایجی ٹیشن کی فضا تھی۔ مئی 1913ء میں جب جنرل ڈائر نے پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر کا عہدہ سنبھالا تو اسے اس وقت کے وائسرائے نے خبردار کیا تھاکہ پنجاب وہ صوبہ ہے جس کے بارے میں حکومت سب سے زیادہ فکرمند ہے‘ یہاں کی صورتحال آتشگیر مادے کی طرح ہے‘ اگر ہمیں دھماکے سے بچنا ہے تو صورتحال سے محتاط طریقے سے نمٹنا ہو گا۔ یوں جنرل اوڈائر کے دل ودماغ میں ابتدا ہی سے یہ ڈر جگہ پاچکا تھا کہ پنجاب کے لوگ کسی وقت بھی اس کی حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کرسکتے ہیں۔ان کو روکنے کا واحد طریقہ ایسے سخت اقدامات تھے جن سے انتظامیہ کو قانونی سپورٹ بھی میسر ہو۔ اس کیلئے 1918ء میں ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ نافذ کیا گیا‘ جس کے تحت حکومت کو سپیشل ٹریبونلز قائم کرنے کی اجازت مل گئی تھی‘ جن کے فیصلوں کے خلاف اپیل نہیں کی جاسکتی یعنی نہ اپیل، نہ دلیل، نہ وکیل۔ ان سب اقدامات کا مقصد انقلابیوں کو سرگرمیوں سے روکنا تھا۔
ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کی تیاری اورنفاذ میں لیفٹیننٹ گورنر پنجاب جنرل اوڈائر کا اہم کردار تھا۔ یہ ایکٹ ان انقلابی سرگرمیوں کو روکنے کی کوشش تھے جس نے پنجاب اور بنگال میں فرنگیوں کی نیندیں اڑا دی تھیں۔ ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کے بعد ایک اور ظالمانہ ایکٹ رولٹ ایکٹ (Rowlatt Act ) کا نفاذ تھا جس کے تحت رہی سہی شخصی آزادی بھی ختم ہو گئی۔ اس پر پنجاب میں شدید ردِعمل آیا۔ لوگ ہزاروں کی تعداد میں مظاہروں میں شرکت کرنے لگے۔
جنرل اوڈائر‘ جس کے ذہن میں پہلے ہی انقلابیوں کا خوف بیٹھا ہوا تھا‘ کو یقین ہو گیاکہ 1857ء کی تاریخ اپنے آپ کو دہرانے لگی ہے اور اگر اس تحریک کو ابھی سے نہ روکا گیا تو برصغیر میں ان کی حکومت ختم ہوسکتی ہے۔ جنرل اوڈائر کے لیے یہ صورتحال تشویشناک تھی۔ اس کا پرانا خوف پھر سے تازہ ہوگیا تھا‘ اس نے اپنے آپ سے عہد کیا کہ وہ ایسا ہرگز نہیں ہونے دے گا۔ اگلے ہی روز اس نے ہر قسم کی سیاسی سرگرمی پر پابندی لگا دی تھی‘ اور پھر 13 اپریل 1919ء کا دن آگیا‘ جب لیفٹیننٹ گورنر جنرل اوڈائر کے ماتحت کرنل ڈائر نے نہتے لوگوں پر فائرنگ کا حکم دیا تھا‘ جس کے نتیجے میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے‘ اور 1500 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ اس دن نوجوان ادھم سنگھ کی آنکھوں میں یہ سارا منظر محفوظ ہوگیا تھا۔ اب اس کی زندگی کا مقصد ایک ہی تھا‘ اس فائرنگ کے ذمہ داروں سے نہتے لوگوں کے خون کا بدلہ لینا۔ دولوگ اس کے ٹارگِٹ تھے پنجاب کا لیفٹیننٹ جنرل اوڈائر اور جلیانوالہ باغ میں فائرنگ کا حکم دینے والا کرنل ڈائر۔ اس نے اپنی زندگی اس کام کیلئے وقف کر دی۔ وہ افریقہ، امریکہ سمیت کئی ممالک میں گیا۔ 1924ء میں اس نے غدر پارٹی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرلی۔ اس پارٹی میں زیادہ تر پنجاب سے تعلق رکھنے والے وہ سکھ شامل تھے جو وطن سے دور بیٹھے ہندوستان کی آزادی کیلئے جدوجہد کررہے تھے۔ 1927ء میں خبر ملی کہ اس کا شکار کرنل ڈائر طبعی مو ت مر گیا ہے۔ اب اس کا ایک ہی ٹارگِٹ تھا: پنجاب کا لیفٹیننٹ گورنر جنرل اوڈائر جس کی خواہش اور مرضی سے تشدد کے واقعات ہوئے تھے۔ جنرل اوڈائر ہندوستان میں اپنی ملازمت پوری ہونے کے بعد برطانیہ جا چکا تھا اور اپنی ریٹائرڈ زندگی سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ 1927ء میں ادھم سنگھ ہندوستان آگیا لیکن اسی سال اسے غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے جرم میں گرفتارکر لیا گیا۔ وہ 1931ء میں جیل سے رہا ہوا۔
1934ء میں ادھم سنگھ لندن پہنچ گیا۔ وہیں ایک روز اسے اطلاع ملی کہ جنرل اوڈائر ایسٹ انڈین ایسوسی ایشن اور سنٹرل انڈین سوسائٹی کے ایک اجلاس میں شرکت کرے گا۔ یہ اجلاس 13 مارچ 1940ء کو Caxton Hall میں ہورہا تھا۔ آخرکار وہ دن آگیا تھا جس کا ادھم سنگھ کو اکیس سال سے انتظار تھا۔ اس دن ادھم سنگھ اوورکوٹ پہنے اور ہاتھ میں ایک کتاب لیے لندن کے Caxton Hallپہنچ گیا۔ ایک روایت یہ ہے کہ اس نے ریوالورکو بڑے سائز کی کتاب میں چھپارکھا تھا۔ دوسری روایت کے مطابق ریوالور اس کے اوورکوٹ کی اندرونی جیب میں تھا۔ ادھم سنگھ ہال میں جاکر پچھلی کرسیوں پر بیٹھ گیا۔ اب جنرل اوڈائر سٹیج پر آگیا تھا۔ ادھم سنگھ کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں۔ اس کے کانوں میں جلیانوالہ باغ کے زخمیوں کی چیخیں گونجنے لگیں۔ وہ اپنی کرسی سے اُٹھا‘ اطمینان سے چلتا ہوا سٹیج کی طرف گیا اور نشانہ لے کر تین گولیاں جنرل اوڈائر کے جسم میں اتار دیں۔ مرتے وقت جنرل اوڈائر کی آنکھوں میں حیرت تھی۔
ادھم سنگھ نے بھاگنے کی کوشش نہیں کی اور اپنے آپ کو گرفتاری کیلئے پیش کردیا۔ دودن کا ٹرائل ہوا جس میں ادھم سنگھ نے واضح طور پر کہا کہ اس نے جنرل اوڈائر کو مارکر اس سلوک کا انتقام لیا ہے‘ جو ہندوستان میں فرنگیوں نے اس کے ہم وطنوں سے روا رکھا ہوا ہے اور اسے اپنے اقدام پر کوئی شرمندگی نہیں۔ادھم سنگھ نے جیل میں پابندیوں کے خلاف 42دن کی طویل بھوک ہڑتال کی آخر 31 جولائی 1940ء کو اسے Pentvilleجیل میں پھانسی دے دی گئی۔ ادھم کی پھانسی نے مزاحمت کے سفرکو اور تیز کردیا اوراس کے سات سال بعد1947ء میں فرنگیوں کوہندوستان سے رخصت ہونا پڑا۔ جلیانوالہ باغ کا خون رنگ لے آیا اور ادھم سنگھ کا آزاد وطن کا خواب پورا ہو گیا۔ 1974ء میں ادھم سنگھ کا جسدِ خاکی لندن سے بھارت لایا گیا اور اس کے بدن کی راکھ ستلج کی لہروں کے حوالے کر دی گئی۔ انہیں لہروں کے حوالے جن میں بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کی راکھ بھی شامل تھی۔ جب تک ستلج کی لہروں کا سفر جاری رہے گا لوگ بھگت سنگھ، ادھم سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو یاد کرتے رہیں گے‘ جنہوں نے اپنی جوانیاں صبحِ آزادی کیلئے قربان کر دیں۔