زندگی میں ہم بہت سے خواب دیکھتے ہیں لیکن تعبیر صرف چند ایک کی ملتی ہے۔ میں نے پہلے کسی کالم میں یونیورسٹی آف کینیڈا میں اپنے ایک پروفیسر Joe کا ذکر کیا تھا‘ جس نے ہمیں Curriculum کا کورس پڑھایا تھا۔ پروفیسر جو کی کلاس میں میرا بہت سی کتابوں سے تعارف ہوا تھا جن کا ذکر میں نے اُس کالم میں کیا تھا۔ انہی کتابوں میں ایک کتاب Ideology & Curriculum بھی تھی جس کے مصنف مائیکل ایپل (Michael Apple) تھے۔ یہ کتاب Curriculum پر لکھی ہوئی عام کتابوں سے مختلف تھی۔ اس میں سکولوں اور کالجوں میں دی جانے والی تعلیم کے حوالے سے چند اہم سوالات اُٹھائے گئے تھے‘ مثلاً سماجی ناہمواریوں میں تعلیم کیا کردار ادا کرتی ہے؟ وہ معاشرے کے مختلف گروہوں سے کیسے امتیازی برتاؤ کرتی ہے؟ کیسے سکول میں دیا جانے والا علم Legitimate Knowledge کہلاتا ہے؟ اور کیسے علم کی اس خاص قسم کی تقسیم امتیازی بنیادوں پر ہوتی ہے؟ کیسے طاقتور لوگوں کا علم معیار کی سند حاصل کر لیتا ہے؟ مجھے یاد ہے یہ کتاب پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں تعلیم کے ایک نئے تصور نے جنم لیا تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ تعلیم اور نصاب صرف کتابی بحث نہیں بلکہ ان کا براہِ راست تعلق معاشرے سے ہے اور یہ کہ کیسے معاشرے کے زور آور گروہ اپنے علم کو معیار بنا کر پیش کرتے ہیں‘ اور کیسے ہمارے سکول معاشرے کی ناہمواریوں کو مزید پروان چڑھاتے ہیں۔ یہ میرا مائیکل ایپل سے پہلا تعارف تھا۔ کتاب کے ذریعے ہی پتہ چلا کہ مائیکل ایپل University of Wisconsin -Madison School of Education میں پروفیسر ہیں‘ اور ان کی دلچسپی کے موضوعات میں تعلیم اور طاقت ،تعلیم اور ثقافت ،معاشرتی نا ہمواریاں ،سماجی تبدیلی ،نظریہ اور تعلیم شامل ہیں۔ 1995میں میری پی ایچ ڈی مکمل ہو نے کے ساتھ ہی کینیڈا میں میرا قیام اختتام کو پہنچا لیکن پروفیسر جو کی کلاس میں جلائے چراغوں کی لو بعد میں بھی میرے راستوں میں اجالا کرتی رہی ۔انہی چراغوں میں ایک مائیکل ایپل کی شخصیت اور اس کی تحریریں تھیں۔ عام سادہ اسلوب بیان لیکن خیال میں جدت اور یقین کی روشنی ۔ مائیکل نے بہت سی کتابیں لکھیں جن میں Can Education Change Society, Global Crises, Social Justice, and Education شامل ہیں۔
پی ایچ ڈی کے بعد میں پہلے کراچی اور پھر لاہور کی ایک یونیورسٹی سے وابستہ رہا۔ اس دوران کانفرنسوں میں یار دوستوں کی محفل میں جب بھی تعلیم اور خاص طور پر Curriculum کی بات ہوتی تو مائیکل ایپل کا تذکرہ ضرور آتا۔ مائیکل ایپل کا جس نے تعلیمی بحث میں تعلیم اور طاقت،نظریے اور نصاب سکول اور سماجی ناہمواریوں کے موضوعات پر بحث کی ۔ میرے خیال میں تعلیم کا دراصل مقصد معاشرے میں سماجی اور معاشی نا ہمواریوں کو کم کرنا ہے۔ میں اب کراچی سے لاہور آ گیا۔ تعلیم میں Critical PedagogyکاPassion میرے ساتھ ساتھ چل رہا تھا اور اس میدان میں جن کے لکھنے والوں نے مجھے متاثر کیا تھا ان میں مائیکل ایپل کا نام بھی شامل تھا۔میں اپنے شاگردوں کو یہ کتاب ضرور تجویز کرتا۔اور پھر 2011 کا سال جب مجھے ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کیلئے ملائیشیا کے شہر Penang جانے کا اتفاق ہوا۔یہاں جانے کی خاص کشش وہاں مائیکل ایپل کی آمد تھی جسے ملنے کا مجھے ایک مدت سے اشتیاق تھا۔
کانفرنس میں پہلے روز دن بھر کی مصروفیات سے فارغ ہونے کے بعد ایک بہت بڑے ہال میں ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا ۔اتفاق سے میں اس میز پر تھا جہاں میرے ساتھ والی سیٹ پر بائیں طرف مائیکل ایپل اور دائیں طرف مسزایپل بیٹھی تھیں۔ میں نے مائیکل کو بتایا کہ کیسے اس کی کتابوں نے مجھے انسپائر کیا ہے۔ پھر میں نے مائیکل سے وہ سوال پوچھا جو عرصہ سے مجھے بے چین کیے ہوئے تھا۔ مائیکل‘ آپ کی تحریر میں تاثیر کیسے آتی ہے ؟ میں جب آپ کی تحریریں پڑھتا ہوں تو بے ساختہ معاشرے کے کمزور طبقوں سے ہمدردی اور محبت کے جذبات ابھرتے ہیں۔ غریبوں اور محروموں کا احساس شدید ہو جاتا ہے۔اور دل میں ایک جذبہ بیدار ہوتا ہے کہ معاشرے کے نادار طبقے کی حالتِ زار کو بدلا جائے‘اور تعلیم کے ذریعے ان کو طاقت اور ان وسائل تک رسائی دی جائے جن سے وہ ابھی تک محروم ہیں۔مائیکل یہ سن کر مسکرایااور بولا: تحریر میں تاثیر کا سوال اہم ہے ۔مجھے معلوم نہیں میری تحریر میں تاثیر ہے یا نہیں کیونکہ یہ فیصلہ کرنا پڑھنے والوں کا کام ہے ہاں میں صرف یہ بتا سکتا ہوں‘میں جو کچھ لکھتا ہوں دل سے لکھتا ہوں اور پورے یقین سے لکھتا ہوں۔ میں جب غربت اور غریبوں کی بات کرتا ہوں تویہ زبانی کلامی نہیں میں نے غربت کو نہ صرف قریب سے دیکھا ہے بلکہ غربت کو جیا ہوں۔ سٹیج پر ہلکی پھلکی پرفارمنس کے سلسلے جاری تھے۔ ہم کھانا کھا رہے تھے اور میں مائیکل ایپل سے اس کی کہانی سننا چاہتا تھا جس نے اس کی تحریر میں تاثیر کا جادو شامل کر دیا ہے۔ مائیکل کے سامنے اس کا ایک چاہنے والا قاری بیٹھا تھا ۔وہ اسے مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا۔مائیکل کہنے لگا: یہ ایک طویل کہانی ہے۔ میرے نانا روس میں رہتے تھے۔ انتہائی غربت کی زندگی تھی۔ روزگار کی تلاش میں وہ برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں آگئے جہاں ایک مِل میں مزدوری مل گئی۔پھر وہ مانچسٹر سے امریکہ کے شہر نیو جرسی آگئے۔ مجھے یاد ہے میرے نانا مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ نیوجرسی کے علاقے میں ہم غریبوں کے محلے میں رہتے تھے۔ نانا نے یہاں آکر بھی مزدوری شروع کر دی تھی وہ ایک ٹیکسٹائل مل میں مزدوری کے ساتھ ساتھ درزی کا کام بھی کر رہے تھے‘لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی شعور کے مالک تھے۔ان دنوں ہر ہفتے کو ان اجلاسوں میں Working Men's Circle کا اجلا س ہوتا تھا۔ میرے نانا باقاعدگی سے ان میں شرکت کرتے تھے اور اکثر وہ مجھے بھی ساتھ لے جاتے تھے ۔یوں بائیں بازو کے خیالات سے محبت مجھے بچپن کے دنوں سے ہو گئی تھی۔ان دنوں نیو جرسی کے مزدوروں کی جدوجہد اور ہڑتالوں کا مرکز بنا ہوا تھا ان اجلاسوں میں کھیل بھی ہوتے اور سیاسی گفتگو بھی ہوتی۔
یہیں سے میری ذہنی تربیت کا آغاز ہوا اور مجھے سماجی امتیازات اور ناہمواریوں کا احساس شدت سے ہوا۔ میری والدہ کا نام میمی ایپل (Mimi Apple) تھا۔ کہنے کو تو وہ ہائی سکول بھی نہیں گئی تھیں لیکن کتابیں ،اخبارات اور رسائل روانی سے پڑھتی تھیں۔ میری والدہ بھی سیاسی شعور کی مالک تھیں۔ اور وہ The Congress of Racial Equality کی بانی اراکین میں سے تھیں اور باقاعدگی سے اس کے اجلاس میں شرکت کرتی تھیں۔ میرے والد ایک پرنٹر تھے جو سارا دن محنت کرتے۔ہفتے کے روز ہم دو بھائی بھی اپنے والد کی دکان پر گھنٹوں ان کا ہاتھ بٹاتے۔ گھر میں بھی ہم سب مل کر کام کرتے تھے۔پرنٹنگ شاپ پر والد کے ہمراہ کام کرنے سے مجھے ایک تو محنت کی عادت پڑ گئی اور دوسرے اشاعت کی دنیا سے محبت ہو گئی۔ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک سکول میں استاد بن گیا۔ میرے والدین میرے استاد بننے پر بہت خوش تھے کیونکہ بطور استاد میں ایک نئے انداز میں ان کے مشن کے لیے کام کر سکتا تھا۔ معاشرے کے تمام طبقوں کو برابر مواقع کی فراہمی کا مشن۔ بھر میں ٹیچرز یونین کا صدر بن گیا اور اساتذہ کے حقوق کیلئے جدوجہد کرنے لگا ۔مجھے ایک عام آدمی کی محرومیوں کا احساس تھا کیونکہ میں نے غربت کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ جب میں یونیورسٹی میں پڑھانے لگا تو میں نے اپنے مشن کی تکمیل کیلئے تعلیم کو ذریعہ بنا لیا۔ اسی لیے میری تحریروں میں اکثر سماجی عدم مساوات اور تعلیمی اداروں کے کردار کے حوالے سے بحث ہوتی ہے ۔مجھے یقین ہے تعلیم میں اتنی طاقت ہے کہ معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکتی ہے ۔اب سٹیج سے اعلان ہو رہا تھاکہ کانفرنس کی اختتامی تقریر ہونے لگی ہے۔ ہال میں بیٹھے سب لوگ خاموش ہو گئے‘ اور سٹیج کی طرف دیکھنے لگے‘ لیکن میں مائیکل کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ آج کتنے سالوں بعد مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا کہ تحریر میں تاثیر اس وقت آتی ہے جب لکھنے والا ایمان کی حد تک اس پر یقین رکھتا ہو۔ ہال میں جاری اختتامی تقریر سے بے نیاز میں سوچ رہا تھا‘ زندگی میں ہم بہت سے خواب دیکھتے ہیں‘ لیکن تعبیر چند کی ملتی ہے۔ آج مائیکل ایپل سے ملاقات میرے ایک دیرینہ خواب کی تعبیر تھی۔